دریاوں،ندیوں،سرسبز وادیوں،آبشاروں، جھرنوں، چشموں کی
آماجگاہ ہماچل پردیش، علاقائی اور قبائلی زبانوں کی بہتات میں اردو زبان
کے آشفتہ سروں نے اردو شعر و ادب کے لئے
کرے ہیں اہل نظر تازہ بستیاں آباد
صوبہ ہماچل پردیش کے ایک شہر’’اونا‘‘ سے ایک سر انگیز آواز اٹھی جو ہماچل
کے سرسبز وادیوں کے درمیان گونجتی ہوئی فی زمانہ ہندوستان کے طویل و عرض
میں گونج رہی ہے۔ وہ فکر انگیز شاعری سے مجلی خوبصورت آواز معروف وطن پرست
شاعر شاہد انجم کی ہے۔
عمر بھر پیڑوں سے شرمندہ رہے
اک ہری ٹہنی کو توڑا تھا کبھی
اس شعر کے خالق شاہد انجم کو بچپن ہی سے گھر کا ادبی ماحول ملا۔ دوسرے یہ
کہ شاعری اور شعر گوئی عطیہ خداوندی ہے یہی سبب رہا کہ بچپن ہی سے شاعری کی
طرف طبیعت مائل رہی۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن ’’ اونا‘‘ میں حاصل کی۔
پھرعصری اور دینی علوم کی حصول و تکمیل اترپردیش کے بریلی سے ہوئی۔
دو دہائیوں سے مسلسل چھوٹے بڑے مشاعروں میں شرکت کر رہے ہیں۔ بہت سارے
مشاعروں میں موصوف کی موجودگی مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت تسلیم کی جاتی ہے۔
بڑے مشاعروں کے قدآور شعرائ جن میں منور رانا،وسلیم بریلوی اور مرحوم راحت
اندوری جیسے بڑے شعرائے کرام شاہد انجم کو بغور سماعت کرتےہیں۔
ایک مشاعرہ میں جب شاہد انجم نے یہ شعر پڑھا۔۔۔۔کہ
جب تک ہم مٹی کے گھر میں رہتے تھے
گاوں کے سارے لوگ اثر میں رہتے تھے
اب اسلام آباد میں بھی محفوظ نہیں
اچھے خاصے رام نگر میں رہتے تھے
ان چار مصرعوں پر معروف شاعر منور رانا مائک پر آئے اور یہ اعتراف کیا کہ
شاہد انجم کے ان چار مصرعوں نے مجھے اس حد تک متاثر کیا کہ میں نے اس کے
بعد’’ ہجرت نامہ‘‘ تحریر کیا۔ شاہد انجم کے لئے یہ بہت بڑا اعزاز و اکرام
ہے کہ ان ہی چار مصرعوں کی گونج جب پاکستان پہنچی تو شاہد انجم کو پاکستان
کے مشاعروں میں شرکت کے لئے بلایا جانے لگا مگر زندہ باد۔۔۔۔۔ اس وطن پرست
شاعر نے صرف اس لئے پاکستان کے مشاعروں میں شرکت نہیں کی کہ وہ اپنے
پاسپورٹ پرپاکستان کا ٹھپہ نہیں لگوانا چاہتے تھے۔
پاکستان کا معروف شہر کراچی جو مہاجرین کا گڑھ کہا جاتا ہے وہاں کی سڑکوں،
گلیوں، چوک، چوراہوں پر شاہد انجم کے یہی چار مصرعے لکھے ہوئے ہیں۔جو
مہاجرین اور پاکستانی شہریوںکو عبرت دلانے اور کف افسوس ملنے کی دعوت دے
رہے ہیں۔
شاہد انجم کی شاعری کے اسلوب اور تیور بھی ملاحظہ کریں۔
عدالت میں دلالی کر رہے ہیں
وہ گوری گائے کالی کر رہے ہیں
وہ دلی سے جو ہجرت کرگئے تھے
کراچی کو بھی خالی کر رہے ہیں
شاہد انجم عہد حاضر کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
وفا کے دشت میں سونے کی اک ہرن کی طرح
یہ کون دینے لگا دعوت شکار مجھے
میں ایک بھیگے ورق پر لکھی عبارت ہوں
ہوا کا جھونکا بھی مجھے کردےگا تارتار مجھے
سوال اٹھنے لگا ہے مری وراثت پر
سمجھ رہا ہے زمانہ کرایہ دار مجھے
شاہد انجم کی جدیدلب و لہجے کی چاشنی سے بھی لطف اٹھائیں۔
اشارے ہجرتوں کے مل رہے ہیں
سفر کے ساتھ رستہ اگ رہا ہے
فرات عشق تر ے ساحلوں پر
لہو سے مرے سبزہ اگ رہا ہے
شاہد انجم کا یہ تیور بھی ملاحظہ کیجئے۔
پہلے وہ سبز باغ دکھاتا رہا ہمیں
پھر ہم کو اعتبار کے آہونے ڈس لیا
عصر حاضر میں اترپردیش میں یہ شعر ہر خاص و عام کی زبان پر ہے۔
کربلا کئی نئی تمثیل ہوا چاہتا ہے
لکھنو کوفے میں تبدیل ہوا چاہتا ہے
شاہد انجم کے یہ چار مصرعے بھی ارباب ذوق کی توجہ طلب ہیں۔
تمہیں تو کھیت ملے ہیں زراعتوں کے لئے
ہمیں تو آگ میں پیدا گلاب کرناہے
میرے حریف کو تیزاب سے نہیں مطلب
اسے تو میرا چہرہ خراب کرنا ہے
شاہد انجم کی شاعری عوام کی نہ صرف ترجمانی کرتی ہے بلکہ ان کی شاعری میں
عوام الناس اپنے دلی جذبات اور احساسات کو محسوس کرتے ہیں۔ آپ کے اشعار
ہندی اور اردو دونوں زبانوں کے لوگوں میں احساسات،محسوسات، جذبات، دکھ سکھ،
غم و ملال، جرات اظہار کے ساتھ ماضی کے تجربات اور مستقبل کے لائحہ عمل کے
لئے مشعل راہ ثابت ہو رہے ہیں۔ فکر و فن کا یہ سلسلہ مزید جاری و ساری رہے۔
’’ ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے‘‘
|