سائنس قرآن کی محتاج

کسی چیزکے وجودکونہ ماننااورکسی چیزکے وجود کاانکارکرڈالنا،یہ دومختلف باتیں ہیں۔ان کے محرکات بھی مختلف ہیں اورنتائج بھی۔کسی چیزکونہ ماننااس کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ہوتابلکہ آپ کی کم علمی کی دلیل ہوتاہے۔ہوسکتاہے وہ چیزموجودہومگرآپ کے علم میں نہ ہومگرکسی چیزکا انکارکرڈالناکم علمی کی دلیل نہیں بلکہ باقاعدہ ایک دعویٰ ہے۔اس دعوے کیلئے علم اورثبوت درکارہیں۔یہ دعویٰ اگرعلم کے ساتھ کیاجائے توقابلِ ستائش ہے اوراگربغیرکسی علم کے کیاجائے تواس سے بڑی جہالت اورکوئی نہیں۔
روح کیاہے؟انسانوں کی اکثریت روح کے تصوّرسے آشناہے لیکن مادّہ پرست روح سے انکاری ہیں۔روح ہے یانہیں یاکیاہے؟اس کی تشریح محض اپنی تمنّاپرنہیں کی جاسکتی بلکہ کائنات اورحیات کے تناظرمیں اس کاعقلی جائزہ ہی کسی قابل قبول رائے تک پہنچائے گاکیونکہ کسی بھی موقف کی درستگی کیلئے دلیل ہی جوازبنتی ہے۔ کیاسائنس اورالحادکے پاس حیات کاکوئی ٹھوس سائنسی جوازہے؟ کیاسائنس انسان کے اندرموجود متعدّد میکینزم کی سائنسی تشریح کافریضہ انجام دے چکی؟ حیات کے جوازکے علاوہ کچھ اہم ذیلی سوالات بھی اپنے جواب جدید سائنس سے مانگ رہے ہیں۔مثلاً شعورکیاہے؟کیا عقل ہے؟حواس کیوں ہیں؟ خیال کی حقیقت کیاہے یہ کیوں پیداہوتے ہیں؟نینداورخواب کیوں آتے ہیں؟یادداشت کیااور کیوں ہے؟
یہ سوالات اُن مظاہرکے بارے میں ہیں جوطبعی وجود نہیں رکھتے لیکن جن کاانکارممکن نہیں کیونکہ انسان ان کومحسوس کرتا ہے۔آپ کوجدید علوم کے تئیں ان سوالات کے جواب میں کسی ٹھوس جوازکی بجائے اُس متعلّقہ مظہرکی صرف تشریح ملے گی یعنی ان کی موجودگی کی لفظی وضاحت۔جوازکے اصرار پریہی جواب ملے گاکہ یہ ناقابل وضاحت مظاہرہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ جدیدمحقّق یااسکالران سوالات کے جوابات اپنے علم کی روشنی میں پانے میں ناکام ہوکران کونظراندازکردیتاہے اوردلیل یہ دی جاتی ہے کہ ان سوالات کاجواب سائنس کبھی نہ کبھی ڈھونڈ لے گی!ان کی یہ بات درست بھی ہوسکتی ہے لیکن ان سوالات کا جواب کیاملے گااس کاپتہ نہیں اورنہ یہ ضمانت کہ کسی کی مرضی کاہی ملے لہٰذا مستقبل کاانتظارتووہ کریں جنہوں نے آب ِحیات پی لیاہوکیونکہ ہمارے سامنے تومذہب ہمارے طرزِعمل کے تئیں ثواب وعذاب کے حوالے سے فکر مندکردینے والانظریہ لیے کھڑا ہے۔ہمیں کسی انجانے مستقبل میں نہیں بلکہ آج اپنی زندگی میں ہی ان سوالات کے جوابات تلاش کرناہیں تاکہ ہم اپنے مستقبل کافیصلہ خودکریں نہ کہ چندپُرامّید افراد کے فلسفے کی نظرکردیں جن کی نظرمیں فی الوقت انسان ایک بلبلے کی طرح ظاہراورفنا ہو رہاہے۔
عموماًزندگی کی وضاحت کم وبیش سطحی یاانتہائی پیچیدہ علمی مفروضات کی تشریحات ہوتی ہیں مگربے جان مادّے میں زندگی ظاہرہی کیوں ہوتی ہے اس کی سائنسی وضاحت ابھی تک کہیں نہیں ملتی۔حیات کی عاقلانہ تعریف میں ناکامی کی وجہ مادّہ پرست کی فکر ی محدودیت ہے جس کے باعث جدیدعلوم حیات کے منبع اورموجودگی کاکوئی ٹھوس جوازدینے سے قاصرہیں۔یہ جواز ہمیں اسی وقت ملے گاجب ہم اپنی سوچ کے اطراف کھینچی مادّیت کی فصیل کوڈھاکر ایک کھلے ماحول میں غورکریں گے۔اب یہی دیکھیں کہ تصّورات اورجذبات جیسے خوشی،غم، محبت،شہرت یاصفت وغیرہ طبعی وجودنہ رکھے بغیربھی ہمیں قبول ہیں کیونکہ ہم انہیں محسوس کرتے ہیں تواسی تناظرمیں کیاکچھ ایسی چیزیں موجود نہیں ہوسکتیں جنہیں نہ صرف ہم بلکہ ہمارے موجودہ سائنسی آلات ابھی ڈھونڈ نہ پائے ہوں!

یہ بھی مدنظررہے کہ ایسی کسی بھی صورت میں جبکہ کوئی غیرمرئی شئے عقل اورمنطق سے اپناجوازثابت کرتی ہوتو سائنسی ردعمل یہی ہوتاہے کہ مفروضات کے بموجب اس کی تلاش کی جاتی ہے کیونکہ ایسے کسی اسرارکابلا استدلال مستردکرناعلمی تنگ نظری ہوگا۔اس کی بہترین مثال ہگزفیلڈ کی دریافت ہے۔سائنسدان پریشان تھے کہ جب ایٹم توانائی ہے تواس سے بنی چیزمیں وزن کیسے آتاہے۔اس پرایک سائنسدان نے یہ منطقی نظریہ پیش کیاکہ کائنات میں کوئی ایسی فیلڈ ہوسکتی ہے جس سے مس ہوکرہرایٹم کو وزن ملتاہو۔پھراس نظریے پرتحقیق ہوئی اورآخرکاراس فیلڈ کی تصدیق تجربات سے ہوگئی۔روح اورمذکورہ بالاسوالات کے تئیں ہم مذہبی عقائدکوایک طرف کرکے فطری حقائق اورانسان کی ہی تخلیقات اورتعمیرات کی روشنی میں اس مفروضے پرچھان بین کرتے ہیں کہ: کیا ہگز فیلڈ کی طرح انسان کے اندر کوئی پس پردہ کثیر جہتی سسٹم یاکسی انہونی قوت کامقناطیسی حصارموجودہے جو اندرونی نظام میں پیوست ہوکرپراسرارعوامل کوکنٹرول کرتاہے؟

اگرہم دنیاکودینی اورلادینی لوگوں میں تقسیم کریں تولادینی لوگ مزید فرقوں میں تقسیم ہوتے نظرآئیں گے جن میں ملحداوراگناسٹک قابلِ ذکر ہیں۔ اگناسٹک وہ ہوتے ہیں جواللہ کونہیں مانتے مگراللہ کاانکاربھی نہیں کرتے۔وہ صرف اپنی کم علمی اورکم فہمی کا اعتراف کرتے ہیں یعنی وہ علم جواللہ کے بارے میں مذہبیوں کے پاس موجودہے وہ اگناسٹکس کے پاس موجودنہیں۔جیسے ہی وہ علم آجائے گاوہ بھی اللہ کومان جائیں گے۔

ملحدوں کامعاملہ مختلف ہے۔وہ اللہ کابرملاانکارکرتے ہیں جس کیلئےثبوت درکارہیں۔یعنی ایک طرح سے ان کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم اس کائنات اور اس کے گردونواح کے چپے چپے کاعلم رکھتے ہیں اوراس میں اللہ کاہوناممکن نہیں ہے۔یہ دعویٰ اس وقت باطل قرارپاتاہے جب اس زمین پرموجود سمندرمیں ایک نئی مچھلی دریافت ہوتی ہے یعنی اس زمین پرابھی دریافتوں کاسلسلہ جاری ہو اورکوئی اٹھ کردعویٰ کردے کہ اس پوری کائنات میں یااس سے باہرکہیں اللہ کاوجودممکن نہیں۔سبحان للہ ۔

یہ ضروری نہیں ہوتاکہ کسی چیزکوماننے کیلئےاس کاسائنسی اصولوں پرپورااترناضروری ہو۔سائنس انسانوں کے علم پرصرف دو طرح سے اثرانداز ہوسکتی ہے ۔

پہلا یہ کہ وہ ثبوتوں اورمشاہدوں کی بنیادپرکسی چیزکاوجودثابت کردے۔

دوئم یہ کہ وہ ثبوتوں اورمشاہدوں کی بنیادپرکسی چیزکے عدم وجودکوثابت کردے ۔

نہ توکسی چیزکوبغیرثبوتوں کے تسلیم کرناسائنس کادائرہ کارہے اورنہ ہی بغیرثبوتوں کے کسی چیزکاانکارکردینا سائنس کیلئے ممکن ہے۔ پہلاطریقہ آسان ہے ۔ مثال کے طورپر میں نے”ایفل ٹاور”دیکھاتواب میرے لئے اس کاوجودثابت کرنابہت آسان ہے۔میں اس کی تصاویردنیا کے سامنے پیش کرسکتا ہوں ۔اس کی موجودگی کی جگہ بتاسکتاہوں۔اس کے آس پاس موجود عمارات کوبطورثبوت پیش کرسکتاہوں۔اس کے کئی طریقے ہیں مگر اگر میں نے ایفل ٹاور نہیں دیکھاتوبغیر ثبوتوں کے میرایہ دعویٰ بھی باطل ہی ہوگاکہ ایفل ٹاورکاکوئی وجود ہی ممکن نہیں ۔ہوسکتا ہے موجودہومگرمیرے علم میں نہ ہو۔اس قسم کے دعوے کیلئےایک اوردعویٰ بھی درکارہے کہ میں نے دنیاکی ہرچیزدیکھ رکھی ہے اوران میں ایفل ٹاورکاکوئی وجودنہیں۔یہ دعویٰ کرناسائنس کیلئےبڑا مشکل کام ہے۔

میری معلومات کے مطابق سائنس ابھی تک روح کے وجودکوتسلیم نہیں کرتی مگرفی الوقت سائنس روح کاانکارکرنے جوگی بھی نہیں ہے کیوں کہ جس طرح سائنس کواسے ماننے کیلئےثبوت درکارہیں اسی طرح اس کاانکارکرنے کیلئےبھی ثبوت درکارہیں۔یہ دعویٰ بھی بے سودہوگاکہ ہم نے پورا جسم ٹٹول لیاروح نہیں ملی کیوںکہ روح کی بابت دعویٰ ہی ایک نہ نظرآنے والے جسم کاہے۔ یعنی جس طرح عقل کوبغیردیکھے تسلیم کیاجا سکتاہے اس طرح روح کوبھی مشاہدات کی بناءپرتسلیم کیاجاسکتاہے۔ایک مثال کششِ ثقل کی بھی ہے کہ جب تک دریافت نہ ہوگئی سائنس نے اس کے وجودکوتسلیم نہیں کیا مگراگرسائنس اس کا انکارکرڈالتی توجس دن نیوٹن نے قانونِ کششِ ثقل پیش کیاسائنس کواپناتھوکا چاٹناپڑتا لہٰذا کسی بھی ایسے وجودجس کے ہونے یانہ ہونے کاسائنس کے پاس کوئی ثبوت نہ ہواس پرسائنس کی خاموشی بہترہے۔نہ اقرارنہ انکار،جب تک مشاہدات سامنے نہیں آجاتے۔ اب مشاہدات کیا ہیں اس کاجائزہ لیتے ہیں ۔

سائنس ابھی تک اس بات کاتسلی بخش جواب دینے سے قاصرہے کہ انسانی جسم کاوہ کون ساعضوہے جس کے پیداہونے سے زندگی شروع ہوتی ہے اور جس کے ختم ہونے سے زندگی ختم ہوجاتی ہے۔مثال کے طورپرمیں اپنے لیپ ٹاپ کاپلگ آن کرتاہوں تو اس میں زندگی کی لہردوڑجاتی ہے اور جیسے ہی میں پلگ آف کرتاہوں توزندگی دم توڑدیتی ہے۔اس کاماخذکرنٹ ہے جواس میں زندگی کی لہردوڑارہاہے ۔

ماں کے پیٹ میں بچے کے تمام اعضاءشروع کے چارمہینوں میں باری باری بنتے ہیں۔دوسرے مہینے میں دل اوردماغ کی تشکیل شروع ہوجاتی ہے۔ ہروہ عضوجس کے نہ ہونے سے جان جاسکتی ہے وہ بن جانے کے باوجودزندگی کی لہرنہیں دوڑرہی؟کس کا انتظارہے؟کون ساکرنٹ دوڑے گاجو زندگی کاآغاز ہوگا؟پھرچوتھے مہینے میں بچے کی حرکت شروع ہوجاتی ہے۔اس میں زندگی کی لہردوڑجاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ وہ کونساعضوہے جس کی تشکیل چوتھے مہینے میں ہوئی اورجس کی وجہ سے انسان میں زندگی کی لہردوڑگئی؟توجواب ہے ایساکوئی عضونہیں ہے۔چوتھے مہینے میں جن اعضاءکی تشکیل ہوتی ہے وہ سارے کے سارے بے جان۔بال،ناخن اوردیگراعضاء۔ان میں سے کسی کابھی تعلق زندگی سے نہیں۔تووہ کیاچیزتھی جوچوتھے مہینے میں شامل ہوئی اورجسم میں کرنٹ دوڑگیا؟سائنس اس سوال کاجواب دینے سے قاصرہے۔

موت کے معاملے میں بھی یہی اسرارورموزہیں۔ ایساممکن ہے کہ کچھ اعضاءکاتباہ ہوجانافوری موت کاسبب بن جائے، جیسے دل ودماغ مگرپھران کی موجودگی کے باوجودموت کاواقع ہوجاناسمجھ نہیں آتایعنی اگریہ فرض کرلیاجائے کہ دماغ کی موت پورے جسم کی موت کاسبب بن جاتی ہے لہٰذادماغ ہی وہ عضوہے جوزندگی کی لہردوڑاتاہے توسوال پیداہوتاہے کہ بہت سے لوگ صحیح الدماغ ہونے کے باوجودکیوں مرجاتے ہیں؟یہی معاملہ باقی اعضاءکے ساتھ بھی ہے۔سائنس اب تک موت کی حتمی وجہ کاتعین کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام کے مطابق موت جسم سے روح نکل جانے کانام ہے۔یہ عمل قلیل مدتی بھی ہوسکتاہے اورطویل مدتی بھی ۔

اوروہی توہے جورات کو(سونے کی حالت میں)تمہاری روح قبض کرلیتاہے اورجوکچھ تم دن میں کرتے ہواس سے خبررکھتاہے پھرتمہیں دن کواٹھا دیتا ہے تاکہ(یہی سلسلہ جاری رکھ کرزندگی کی)معین مدت پوری کردی جائے پھرتم(سب)کواسی کی طرف لوٹ کرجاناہے(اس روز) وہ تم کو تمہارے عمل جوتم کرتے ہو(ایک ایک کرکے) بتائے گا﴿الانعام:60﴾

اللہ لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتاہے اورجومرے نہیں(ان کی روحیں)سوتے میں(قبض کرلیتاہے)پھرجن پر موت کاحکم کرچکتاہے ان کوروک رکھتاہے اورباقی روحوں کوایک وقت مقررتک کیلئےچھوڑدیتاہے۔جولوگ فکرکرتے ہیں ان کیلئےاس میں نشانیاں ہیں ﴿الزمر:42﴾

پھر جب تمام ارواح تخلیق کی گئیں تو ان سے توحید کا وعدہ لیا گیا:
اور(یاد کیجئے!)جب آپ کے رب نے اولادِ آدم کی پشتوں سے ان کی نسل نکالی اوران کوانہی کی جانوں پرگواہ بنایا(اورفرمایا): کیامیں تمہارارب نہیں ہوں؟وہ(سب)بول اٹھے:کیوں نہیں؟(توہی ہمارارب ہے)ہم گواہی دیتے ہیں تاکہ قیامت کے دن یہ(نہ)کہوکہ ہم اس عہد سے بے خبرتھے”۔ (الاعراف:172)

جس طرح روح کاانکارممکن نہیں اس طرح روح کی صحیح توجیہ بھی ایک مشکل کام ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

اورتم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہہ دوکہ وہ میرے پروردگارکاایک حکم ہے اورتم لوگوں کو(بہت ہی)کم علم دیاگیا ہے ﴿بنی اسرائیل:85 ﴾

انسان کی سمجھ بوجھ کاماخذسائنس ہے مگراللہ تعالیٰ ہرعلم سے واقف ہے۔سائنس ان میں سے صرف ایک چھوٹاساعلم ہے جو انسان کودیاگیاہے۔ اس آیت سے ایسالگتاہے کہ عین ممکن ہے کہ روح کے علم کاتعلق انسان کی محدودعقل سے بالاترہو۔اس لئے یہ کہنابالکل درست ہوگاکہ سائنس بھی تمام علوم کی طرح قرآن کی محتاج ہے۔
 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 316929 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.