ڈونلڈ ٹرمپ : یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا

امریکی انتظامیہ اتنا سنگدل بھی نہیں کہ اپنے سابق صدر کو گونتے نامو بےکی جیل میں بھیج دے ۔ جو بائیڈن اقتدار سنبھالنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے سارے قصور معاف کردیں گےلیکن پھر بھی اگر ٹرمپ کو ڈر لگتا ہے تو کہنا پڑے گا ’جو ڈر وہ مرگیا‘۔ انتظارِ بسیار کے بعد امریکہ کے صدارتی انتخابات 2020 کا آخری نتیجہ آ ہی گیا اور اس میں بھی ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن کامیاب قرار پائے ۔ ریاست جارجیا میں 12 ہزار سےزیادہ ووٹ کی جیت کے بعد جو بائیڈن کے الیکٹورل ووٹ میں مزید 16 کا اضافہ ہوا ۔ جارجیا کی جیت اس لیے بھی اہم تھی کیونکہ یہاں پر ڈیموکریٹک پارٹی کو 25 برس بعد کامیابی ملی ہے۔ 1996 کے بعد سے یہ ریاست ری پبلکن صدارتی امیدواروں کے زیر اثر تھی۔ اس قلعہ کو فتح کرکےبائیڈن اب 306پہنچ گئےہیں۔ یہ وہی جادوئی عدد جسے حاصل کرکے ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن کو شکست فاش سے دوچار کردیا تھا ۔ ہیلری کو یہ شکایت نہیں تھی کہ زیادہ مجموعی ووٹ حاصل کرنےکے باوجود انہیں فتح کیوں نہیں ملی ؟ 232 الیکٹورل ووٹ پا نے والی ہیلری نےاپنے حریف ٹرمپ کو فون پر مبارکباد دےکر ہارتسلیم کر لی لیکن ٹرمپ سےیہ نہیں ہوپا رہاہے۔ ٹرمپ کی بدحواسی سہیل احمد زیدی کےاس شعرمصداق ہے؎
دو پاؤں ہیں جو ہار کے رک جاتے ہیں
اک سر ہے جو دیوار سے ٹکراتا ہے

جارجیا کا چراغ کے بجھ جانےکے بعد یہ امید تھی کہ صدر ٹرمپ عقل کے ناخن لے کر دانشمندانہ بیان دیں گے لیکن انہوں نےپھر وہی پرانا راگ الاپتے ہوئے ٹوئٹٰ کردیا کہ جارجیا کی مختلف کاؤنٹیز میں ہزاروں ایسے ووٹ ملے ہیں جنہیں گنا نہیں گیا۔ یہ ووٹ کسے ملے ہیں یہ کوئی نہیں جانتا ؟ ممکن ٹرمپ نے خوابوں میں اسے دیکھا ہو اور وہ ہنوز مونگیری لال کے حسین سپنوں میں کھوئے ہوئے ہوں ۔ اس لیے کہ کوئی ہوشمند انسان تو یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ بہت جلد جارجیا کے نتائج ری پبلکن کے حق میں آ جائیں گے۔ اس دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مرتبہ بظاہر یہ تسلیم کیا تھا کہ جو بائیڈن صدارتی الیکشن جیت گئے ہیں لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ شکست تسلیم نہیں کریں گے۔صدر ٹرمپ کسی ثبوت کے بغیر ٹوئٹ کیے چلے جارہے تھے کہ اُن کے شکست کی وجہ دھاندلی ہے۔وہ انتخابی بے قاعدگیوںکے خلاف عدالتی چارہ جوئی کریں گے حالانکہ ان کے حامیوں کو ووٹوں کی گنتی میں بےقاعدگیکے تعلق سے کئی مقدمات میں بھی شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ یہ ایسی ہی حالت ہے گویا؎
اک موج فنا تھی جو روکے نہ رکی آخر
دیوار بہت کھینچی دربان بہت رکھا

صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ "ووٹوں کی گنتی کے لیے کسی کو مشاہدہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ووٹوں کو ایک بنیاد پرست بدنامِ زمانہ بائیں بازو کی پرائیویٹ پارٹی نے ترتیب دیا ۔ یہ عجیب بات ہے کہ اقتدار کی زمامِ کار ان کے ہاتھوں میں ہے اس کے باوجود کوئی اورر ترتیب کار میں کامیاب ہے۔ ذرائع ابلاغ نے بھی ٹرمپ کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے وہ اس کو بھی موردِ الزام ٹھہرا کر فرمانے لگے میڈیا جعلی اور خاموش اور بہت کچھ ہے۔ صدر ٹرمپ کے مطابق بائیڈن محض جعلی میڈیا کی نظروں میں جیتے ہیں ۔ وہ اپنی شکست نہیں مان رہےتھے اور کہہ رہے تھے کہ اب اس دھاندلی زدہ الیکشن میں طویل راستہ طے کرنا ہے۔ اس کے برعکس انتخابی عہدے دار فراڈ کے ثبوت کا انکار کرتے رہے۔کسی صدر کےذریعہ انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سےانکار چونکہ امریکہ کی سیاسی تاریخ کا منفرد واقعہ ہے اس لیے جوبائیڈن دھاندلی کے الزامات اور اقتدار منتقل کرنے میں روڑے اٹکانے کو 'اشتعال انگیز' قرار دیتے ہیں ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی انتخاب میں شکست کا علم ہے۔ بائیڈن فی الحال حکومت سازی کے لیے مشاورت میں مصروفِ ہیں تاکہ مستقبل کی کابینہ کے لیے وزراء نامزد کیے جاسکیں ۔بائیڈن کی20 جنوری کو حلف لینے کی تیاری بھی جاری رکھی ۔

اس بیچ پنسلوینیا میں ایک وفاقی جج نے ٹرمپ کا وہ مقدمہ خارج کردیا جس میں ریاست کی سرٹیفکیشن کو روکنے کی کوشش کی گئی تھی۔اس کے بعد مشی گن ریاست کی تصدیق بھی جو بائیڈن کے لیے ایک لاکھ 50 ہزار ووٹوں سے فتح لے کرآئی ۔حتمی طور پر جب چار اہم ریاستوں میں سے ایک اور جارجیا نے بھی سابق نائب صدر کے وائٹ ہاؤس میں دوبارہ داخلے کو یقینی بنانے کی تصدیق کردی تو ٹرمپ کےآپشنز ایک ایک کرکے ختم ہوتے چلے گئے۔ ایسے میں انہوں نے ایک طرف تو ٹوئٹ کیا کہ 'ہم لڑائی جاری رکھیں گے' مگر بحالت مجبوری اختیارات کے منتقلی کے عمل کو شروع کرنے کی اجازت بھی دے دی کیونکہ جو بائیڈن کے پاس فی الحال ٹرمپ کے 7 کروڑ 40 لاکھ ووٹ کے مقابلے میں تقریباً 8 کروڑ ووٹ ہیں جو امریکہ کی تاریخ میں سب سے بڑی تعداد ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ہنوز بائیڈن کو مبارکباد نہیں دی مگر جی ایس او کی سربراہ ایملی اور ان کی ٹیم کو ابتدائی پروٹوکول کے حوالے سے حسب ضرورت کارروائی کرنے کی اجازت دے دی ۔امریکہ میں وائٹ ہاؤس اور دیگر وفاقی دفاتر چلانے کی ذمہ داریاںجنرل سروسز ایڈمنسٹریشن( جی ایس اے) کے پاس ہیں۔ اس کی سربراہایملی مرفی نے نے اعلان کیا کہ وہ صدارت کی منتقلی کے آغاز کی اجازت دے رہی ہیں۔ ایملی نے اس سے قبل اس عمل کو روک دیا تھا تاہم اب انہوں نے جو بائیڈن کو ایک خط بھیج کر فاتح تسلیم کرلیا۔ اس مکتوب کے بعد جو بائیڈن کے لیے فنڈز، دفتر کی جگہ اور خفیہ بریفنگ تک رسائی کا راستہ کھل گیا ہے اور وائٹ ہاؤس میں دوسری مدت کے لیے ٹرمپ کی کوشش کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ ٹرمپ کی بیٹی اور داماد نیو یارک جا چکے ہیں ۔ تاہم ٹرمپ کی ناراضگی کا اظہار ان کے اس ٹوئٹ سے ہوتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’جی ایس اے کو ڈیمز کے ساتھ ابتدائی طور پر کام کرنے کی اجازت دینے کا ہمارے مختلف مقدمات کی پیروی جاری رکھنے سے کیا تعلق ہے جو امریکی سیاسی تاریخ میں سب سے زیادہ کرپٹ الیکشن کے لیے ہے۔ہم پوری رفتار سے آگے بڑھ رہے ہیں اور کبھی بھی جعلی رائے شماری کا اعتراف نہیں کریں گے‘‘۔ یہ ہٹ دھرمی کی انتہا ہے۔

اس موقع پر جبکہ ٹرمپ کی سفاکی کا دور دم توڑ رہا اس کی ابتدا کا ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ آج کل جو صدر جیل جانے کے ڈر سے تھر تھر کانپ رہا ہے اس کا چار سال قبل بغیر سوچے سمجھے بے قصور لوگوں کی سزا کو طول دے دینے کی یاد آتی ہے۔ ٹرمپ کے ظلم کا آغاز عہدہ سنبھالنے سے دو ہفتے پہلے ہی ہوگیا تھا جبکہ اس رعونت پسند انسان نے ایک ٹویٹ میں لکھ دیا ’گوانتا نامو بے سے مزید رہائیاں نہیں ہوں گی ۔ یہ انتہائی خطرناک لوگ ہیں، اور ہمیں ان کو جنگ کے میدان میں واپس آنے کی اجازت نہیں دینی چاہیئے۔‘ ٹرمپ کا یہ ٹوئٹ سرزمین امریکہ پر قانون کی حکمرانی کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی ہےلیکن اب جبکہ ٹرمپ کے اقتدار کا نشہ ہوا ہونے لگا ہےتو اس گھمنڈی صدر کا یہ حال ہوگیا ہے کہ ؎
وہ ایک رات کی گردش میں اتنا ہار گیا
لباس پہنے رہا اور بدن اتار گیا

ٹرمپ کی اس کا احمقانہ سفاکی کا نتیجہ یہ ہوا کہ گونتے ناموبے میں رہائی کی تیاری کرنے والے عبد الطیف ناصر کی ساری امیدوں پر اوس پڑ گئی ۔ ان کو اس بدنام زمانہ جیل میں 14 سال بطور قیدی گزارنے کے بعد آزادی کا پروانہ مل چکا تھا ۔ وہ اپنی مرتب کردہ 2 ہزار الفاظ کی انگریزی عربی لغت کے ساتھ آزاد فضاوں میں سانس لینے کی تیاری کررہے تھے ۔ مراکش میں ان کے بھائی نے ناصر کے لیےملازمت تک تلاش کرلی تھی اوراہل خانہ نے دلہن بھی دیکھ لی تھی۔ سبھی لوگ رہائی کے منتظر تھے کیونکہ ۶ حکومتی ایجنسیاں ان پر کوئی الزام تک عائد نہیں کر سکی تھیں۔ ٹرمپ کے ایک ٹوئٹ نے ان سب کے سارےخواب چکنا چور کردیئے۔ اس موقع پرناصر نے اپنے وکیل سے کہا تھا ’کسی کی آزادی کو سلب کرنا، جب اس کو جانے کی اجازت بھی مل گئی ہو، انتہائی درد ناک عمل ہے۔‘ ناصر کے علاوہ مزید ۴ قیدیوں کی رہائی کا اجازت نامہ بھی بلا کسی جوا ز کے رد کردیا گیا۔ دوسروں کو بلاجواز جیل کی سلاخوں پر ٹھونس دینے والا ظالم صدر آج خود جیل جانے کے خوف سے کانپ رہا ہے۔یہ اللہ کی لاٹھی ہے جس میں آواز نہیں ہے ۔ دنیا میں اس کی سزا عارضی مگر آخرت میں لامتناہی ہے۔ یہاں تو انسان بچ بھی جاتا ہے لیکن قیامت کے دن کوئی اقتدار اور کوئی فوج ظالموں اور جابروں بچا نہیں سکے گی ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے عبرتناک انجام پر افتخار عارف کا یہ مشہور شعر صادق آتا ہے؎
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449641 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.