حال ہی میں بھارتی حکومت نے منڈیوں سے مڈل مین کے
اثرورسوخ کو ختم کرنے کے لیے تین آرڈیننس پاس کر کے ''ون نیشن، ون مارکیٹ''
کا تصور دیا ہے۔کہنے کو یہ آرڈیننس کسان کے مارکیٹنگ کے حقوق کے تحفظ کے
لیے ہیں لیکن کسانوں نے مستقبل کے خدشات کے پیش نظر ملک بھر میں ہڑتال کا
اعلان کر دیا ہے۔ان آرڈیننس کے تحت اے پی ایم سی یعنی زرعی منڈیوں کو ختم
کر کے کنٹریکٹ فارمنگ اور فری مارکیٹ کو فروغ دیا جائے گا۔عام طور پر بڑے
کاروباری ادارے اور کمپنیاں خام مال ٹریڈرز اور مڈل مین سے خریدتے ہیں لیکن
اس آرڈیننس کے بعد کسان مڈل مین کے چنگل سے آزاد ہوجائے گا اور اپنا مال
براہ راست برانڈز اورکاروباری کمپنیوں کو بیچ سکے گا۔مثال کے طور پر اگر
نیسلے کو جوس بنانے کے لیے آموں کی ضرورت ہے تو وہ آم پیدا کرنے والے کسان
سے براہ راست معاہدہ کرے گا جس کے باعث مڈل مین کی جیب میں جانے والا پیسہ
بھی کسان کو منافع کی صورت میں ملے گا۔
کاغذی کاروائی میں یہ آرڈیننس کسان کے لیے بہت فائدہ مند معلوم ہوتا ہے
لیکن کسانوں کے اس پر کئی تحفظات ہیں۔چونکہ 85فیصد سے زیادہ چھوٹے کسان ہیں
جنہیں مارکیٹنگ کی سمجھ بوجھ نہیں ہے اس لیے وہ بڑی کمپنیوں سے سودے بازی
میں مات کھا جائیں گے۔اس نظام کے حق میں سب سے بڑا دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ
مڈل مین کے چنگل سے کسانوں کو آزادی مل جائے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ بڑی
کاروباری کمپنیوں تک براہ راست کسانوں کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے عام
منڈیوں کے مڈل مین وہاں سے اٹھ کر اس سسٹم میں آجائیں گے اور کسانوں کا
استحصال جاری رہے گا۔حال ہی میں گجرات میں پیپسی کمپنی نے کسانوں کے خلاف
ہرجانہ کا کیس دائر کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر بڑی کاروباری کمپنیاں
کسانوں کو ان کا حق نہیں دیں گی تو چھوٹے کسان ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔سب
سے بڑھ کر یہ کہ اس طرح کی مارکیٹنگ میں میں کم تر امدادی قیمت (ایم ایس پی)
کا کوئی تصور نہیں ہے جس کی وجہ سے کسانوں کو نقصان کا خدشہ زیادہ ہے۔
ہریانہ میں اس آرڈیننس کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں کا کہنا ہے کہ
حکومت نے کسانوں کو کاروباری مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔زرعی
منڈیوں (اے پی ایم سی) میں پرائس ڈسکوری ہوتی تھی یعنی زرعی اجناس خریدنے
کے لیے بولی لگتی تھی اور کسان کو جہاں سب سے زیادہ ریٹ ملتا تھا وہ اپنی
پیداوار وہاں فروخت کردیتا تھا۔لیکن نئے قانون کے تحت کانٹریکٹر کو قیمت
متعین کرنے کا مکمل حق حاصل ہوگا جس کی وجہ سے کاروباری طبقہ مستقبل میں
اپنی من مانیاں کرسکتا ہے۔چونکہ یہ نظام فری مارکیٹ کے تصور پر ہے اس لیے
حکومت کی طرف سے اس میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی اور نہ ہی کوئی فنڈز
جاری کیے جائیں گی۔اس لیے ممکن ہے کہ شروع میں اس نظام کے تحت کسان کو
فائدہ ہو لیکن یہ سسٹم دیر پا نہیں ہے کیوں کہ کاروباری طبقہ ہمیشہ اپنے
پرافٹ مارجن کو کسانوں پر ترجیح دے گا۔کسانوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اے پی
ایم سی کو ختم نہ کیا جائے بلکہ اس کو ریگولیٹ کرتے ہوئے ڈیجٹلائز کیا جائے
تاکہ آن لائن منڈیوں میں کارٹلائزیشن کا سدباب کیا جاسکے اور کسانوں کا
استحصال کم سے کم ہو۔کانٹریکٹ فارمنگ کو فروغ دینا اگرچہ برا نہیں ہے لیکن
کسانوں کو اس میں کم تر امدادی قیمت(ایم ایس پی) دی جائے تاکہ بمپر پیداوار
ہونے کی صورت میں نقصان کا اندیشہ نہ رہے۔
پاکستان اور بھارت کی معیشت کا انحصار زراعت پر ہے اس لیے دونوں حکومتوں کو
سمجھنا چاہیے کہ اگر معیشت بچانی ہے تو کسان کو ان کی محنت کی بہترین قیمت
دینا ہوگی۔سرحد کے دونوں طرف کسانوں کے بڑھتے ہوئے مسائل نے انہیں احتجاج
کرنے پر مجبور کردیا ہے۔گزشتہ ماہ لاہور میں بھی کسانوں نے کھاد، بیج اور
زرعی ادویات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، زرعی بلز اورزرعی اجناس کی مناسب قیمتوں
کے حصول کے لیے احتجاج کیا لیکن حکومت کی طرف سے اس پرامن احتجاج کو دبانے
کی مکمل کوشش کی گئی۔بھارتی حکومت نے بھی کسانوں راہنماؤں کی گرفتاریاں کیں،
ان کے راستے بند کیے گئے لیکن پھر بھی ملک بھر سے ہزاروں کسان دہلی پہنچنے
میں کامیاب ہوچکے ہیں۔دہلی میں کسانوں کے احتجاج کی کامیابی سے جنوبی ایشیا
ء کی زراعت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے کیوں کہ ترقی پذیر ممالک میں کسان
طبقہ سب سے زیادہ استحصال کا شکار ہے۔ |