اس نے ایک غریب آدمی کو ایسا دھتکارا کہ وہ
آدمی رو پڑا ۔ مگر اس نے اس غریب کو نظر انداذ کردیا ِ وہ غریب آدمی بولا ٌ
جب ہم غریبوں کے احساسات کا خیال ہی نہیں رکھنا تو کیا فائدہ ایسی نیکی کے
ڈھونگ کا ٗ وہ اس آدمی کو نظر انداز کرتے ہوۓ باقی سب کو راشن دینے میں
مصروف رہا ِ وہاں ایک عورت آئ ٗ جس نے کاٹن کا رنگ برنگے پھولوں والا
خوبصورت سوٹ (جوڑا) پہنا تھا اور سر پر خوبصورت سی چادر اوڑھی ہوئی تھی ِ
اور پاؤں میں پہنی ہوئی جوتی بھی سستی نہیں لگ رہی تھی۔ یعنی کہیں سے بھی
مستحق نہیں لگ رہی تھی ِ وہ گیٹ سے اندر داخل ہوئی اور اس لڑکے سے مخاطب
ہوئی ٌ علی بیٹا ! میں زرا جلدی میں ہوں تو پہلے مجھے دے دو ٌ علی نے اپنے
پاس سے ایک تیار شدہ پیکٹ اٹھا کر اس عورت کی طرف بڑھا دیا ِ وہ پیکٹ اس
قدر بڑا اور وزنی تھا کہ اس عورت سے نہیں اٹھایا گیا ِ علی نے اس عورت سے
وہ پیکٹ پکڑا اور خود باہر چھوڑ آیا۔
اس بات سے وہاں کھڑے سب غریبوں کے دل پر چوٹ لگی کیوں کہ وہ باقی سب سے بہت
برا سلوک کر رہا تھا۔ صاف دکھ رہا تھا کہ وہ مطلبی شخص یہ سب صرف مشہور
ہونے کے لۓ کر رہا تھا کہ ٌ دیکھو غرباء کی کتنی مدد کر رہا ہے ٗ مگر آپ
خود بتایٔں کہ غرباء کو دھتکار کر ان کو ذلیل کر کے کونسی مدد ہے ؟ کیا یہ
راشن جو غریبوں کے لۓ امید کی کرن کو اجاگر کرتا ہے جس کو فی سبیل اللہ کا
نام دیا گیا ہے اسے غرباء تک صحیح طریقوں سے پہنچایا جاتا ہے ؟ اور جس پر
صرف جن کا حق ہے (جو مستحق ہیں) صرف ان کو فراہم کیا جا رہا ہے ؟ تو امید
ہے میری طرح آپ سب کا جواب بھی نہ ہی ہوگا۔ مگر افسوس ! اگر انسان کو اس
بات کی سمجھ آجاۓ کہ جو کام وہ کر رہا ہے ٗ اگر اسے خوش دلی سے انجام دے گا
تو اللہ اس کے لۓ بھی آسانی پیدا کرے گا۔ ارے انسان ! تو ہے کیا ؟ کبھی
سوچا ہے ؟ مٹی کے ڈھیر کے سوا ۔۔۔
کسی نے کیا خوب کہا :
مٹی دا ٌ توں ٌ مٹی ہونا کاہدی ٌ بلے بلے ٌ
اج مٹی دے ٌ اتے ٌ بندیا کل مٹی دے ٌ تھلے ٌ
|