بیماری اور تندرستی میںکشمکش کا نام بحران ہے۔سراسیمگی ،دیوانگی
کی حالت، مدّوجزر اور تغیّروتبدّل آتا رہے تو اُسے بحران کہتے ہیں۔ ۔بحرانی
کیفیت میں اچھے اور غلط کی تمیز نہیں کی جا سکتی ہے۔عدم اعتماد کی فضا قائم
رہتی ہے۔ملک میں اس وقت قیادت کا بحران ہے۔
قیادت کے بحران میں خود ساختہ لیڈروں کے ریوڑ ہوتے ہیں۔سیاسی جماعتوںکی
بہتات ہوتی ہے۔ سیاست محض خود نمائی،الزام تراشی ،بلاضرورت اتحاد،بے مقصد
جلسے،غیرضروری تقریروں تک محدود ہوتی ہے۔قیادت کے بحران سے قیادت کافقدان
جنم لیتا ہے۔
ملک میں قیادت کا شدید فقدان ہے۔قیادت سے کیا مراد ہے اور حقیقی قیادت کیا
ہوتی ہے۔میرین کورز (Marine Corps) کی تعریف کے مطابق لیڈرشپ ذہانت، انسانی
تفہیم اور اخلاقی کردار کی ان صلاحیتوں کا مرکب ہوتا ہےجو ایک فردِ واحد کو
افراد کے گروہ کو کامیابی سے متاثر اور کنٹرول کرنے کے قابل بناتی ہیں۔
قیاد ت میں یہ اہلیت ہوتی ہے کہ وہ ایک ہدف کا تعین کریں، اس ہدف کو حاصل
کرنے میں دوسروں کو اپنی اعانت کرنے پر آمادہ کریں، اور پھر اپنی ٹیم کی
قیادت کرتے ہوئے اسے فتح سے ہمکنار کردیں۔
قیادت وژنری ہوتی ہے۔پس دیوار دیکھ سکتی ہے۔حالات و اقعات کا تجزیہ کرکے
آنے والے حالات کو بھانپ سکتی ہے۔ ملکی کے معاشی ،سیاسی ،سماجی اور
معاشرتی مسائل کا حل دیتی ہے اور ملک وقوم کو مشکلات سے نکال کر کامیاب و
خوشحال بناتی ہے۔
حقیقی لیڈر کی سب سے بڑی ذمہ داری نئے لیڈر تیار کرنا ہوتی ہے۔ حقیقی قیادت
کا تقاضا بھی یہی ہے کہ آپ اپنے ماتحتوں کو بھی لیڈر بنا دیں۔ ایک قائد کی
حیثیت سے آپ کے بنیادی مقاصد میں سے ایک اپنے ماتحتوں کی سرپرستی اور ان
کی نمو کرنا ہے تاکہ کسی بھی وقت ضرورت پڑنے پروہ آپ کی تمام ذمہ داریوں
کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو سکیں۔کمتر درجہ کے لیڈر، دوسروں کی قائدانہ
صلاحیتوں کی نمو نہیں کرتے۔ انہیں اندیشہ ہوتا ہے کہ آگے چل کر نئے لیڈر
ان کی اپنی حیثیت کے لئے خطرہ بن جائیں گے۔
ہم ماضی میں جائے بغیر آج کی قیادت کو دیکھتے ہیں ۔عمران خان وزیراعظم
ہیں۔بلاول بھٹو زرداری ملک کی سب سے بڑی عوامی جماعت پیپلزپارٹی کے چیئرمین
ہیں۔محترمہ مریم نواز دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ ن کو لیڈ کر رہی ہیں۔ تینوں
جماعتوں کی قیادت کا تجزیہ کرنے اور تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ملک
معاشی مشکلات کا شکار ہے۔کروناوائرس کی وباءانسانی جانیں نگل رہی ہے۔
عمران خان کا بطور وزیراعظم کلیدی کردار بنتا ہے کہ ملکی معاشی صورتحال کی
بہتری اور کرونا سے نبردآزما ہونے کےلئے قومی حکمت عملی اورمربوط پروگرام
دیتے ہیں ۔اپوزیشن کو اعتماد میں لیا جاتا ، جس طرح چودھری برادران کے پاس
گئے تھے۔اپوزیشن رہنماؤں سے بات کی جاتی مگر افسوس کہ وزیراعظم یہ کام
کرنے کی اخلاقی جرات کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
دوسری جانب اپوزیشن کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی قیادت ملکی معاشی
بدحالی اور عوامی مشکلات سے بے پرواہ اپنی سیاسی بقا کےلئے بھاگم بھاگ میں
لگی ہوئی ہے۔کرونا کےپیش نظرجلسوں واجتماع کا ضروری کام پی ڈی ایم موخر بھی
کرسکتی تھی ۔مگر ایسا نہیں کیا گیا ہے۔
مندرجہ بالا سطور میں حقیقی قیادت کی نشاندہی کا مقصد بھی یہی ہے کہ قارئین
سمجھ سکیں کہ قیادت کا فریضہ کیا ہوتا ہے اورحقیقی قیادت کیا کردار ادا
کرتی ہے۔عوام بخوبی دیکھ رہے کہ صرف اقتدار کے لئےرسہ کشی جاری ہے۔ حکمران
جماعت یہ سمجھتی ہے کہ اپوزیشن کے بیانات کا منہ توڑ جواب دینا ہی کامیابی
ہے۔ابھی تک کوئی ٹھوس قومی پالیسی ،وژن اور حکمت عملی سامنے نہیں آئی
ہے۔اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کی جانب سے بھی یہی بات سامنے آرہی ہے کہ
حکمران ناہل ہیں ۔ان سے اقتدار واپس لیا جائے۔
|