دہلی میں کسانوں کا تاریخی احتجاج جاری ہے ۔ کسانوں نے
وزیر اعظم کے من کی بات کو مسترد کردیا کیونکہ اس میں سے دھن کی بو آتی ہے۔
اس آر پار کی لڑائی میں کسانوں کو دہلی پہنچنے کے لیے بے شمار مصائب کا
مقابلہ کرنا پڑا ۔ اس دوران ایک کسان نے اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کیا
مگر اولین گرفتاری کا شرف شاہین باغ کی دبنگ دادی بلقیس بانو کو حاصل ہوا۔
سوال یہ ہے کہ آخر اتنے سارے مظاہرین میں ایک اور بوڑھی عورت شامل ہوجاتی
تو کیا فرق پڑتا؟ وہ اگر کوئی معمولی خاتون ہوتی تو کوئی فرق نہیں پڑتا
لیکن بلقیس بانو ایک ایسی مزاحمت کی علامت ہیں جو ۱۰۱ دنوں تک جاری رہی ۔
شاہین باغ کو بدنام کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ نے اپنے تمام حربے استعمال
کرلیے مگر ناکام رہا۔ اس منفرد تحریک پر فسطائی قوتوں کی دھمکیا ں بے اثر
ہوگئیں ۔ وہ سرکاری دباو میں نہیں آئی ۔ اس نے پستول سے حملہ کرنے کی کوشش
کرنے والوں کا بھی عزم و حوصلہ کے ساتھ مقابلہ کیا اور اس کو دہلی کے
فسادات سے جوڑنے کی مذموم کوشش بھی کامیاب نہیں ہوسکی ۔
شاہین باغ کی دبنگ دادی بلقیس نے جب اعلان کیا کہ ’’ ہم سبھی کسانوں کی
بیٹیاں ہیں۔ ہم آج کسانوں کی حمایت کرنے جائیں گے۔ ہم اپنی آواز اٹھائیں
گے، حکومت کو ہماری بات سننی پڑے گی ‘‘، تو انتظامیہ کی چولیں ہل گئیں ۔ اس
لیے انہیں سنگھو بارڈر پر جاری کسانوں کے مظاہرے میں پہنچتے ہی دہلی پولس
کے افسران نے گھیر کر خاتون پولس کی مدد سے حراست میں لے لیا۔ یہ ہے مہا
شکتی مان امیت شاہ کی پولس جو ایک 86 سالہ بلقیس دادی سے خوفزدہ ہوگئی ۔
دبنگ دادی کو جس دن گرفتار کیا گیا اسی روز پدم شری اور ارجن ایوارڈ یافتہ
پہلوان کرتار سنگھ، ارجن ایوارڈ یافتہ باسکیٹ بال کھلاڑی سجن سنگھ چیما اور
ارجن ایوارڈ یافتہ ہاکی کھلاڑی راجبیر کور نے ایوارڈ واپسی کا اعلان کیا ۔
ان کھلاڑیوں نے کہا ہے کہ 5 دسمبر کو وہ دہلی پہنچ کر راشٹرپتی بھون کے
باہر اپنا ’ایوارڈ‘چھوڑآئیں گے۔ یہ بہت مستحسن اقدام ہے کہ وہ قومی اعزاز
لوٹا رہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے ان تمام ناموں کے ساتھ یہ تعارف کروانا
پڑتا ہے کہ وہ پہلوان تھے یا ہاکی و باسکیٹ بال کے کھلاڑی تھے وغیرہ لیکن
بلقیس بانو کا تو ’صرف نام ہی کافی ہے‘
ہجومی تشدد میں محمد اخلاق کی ہلاکت کے بعد ایوارڈ واپسی کا سلسلہ شروع ہوا
تو مختلف انداز میں ان لوگوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اب اس کو
کیا کہیں گے کہ باسکیٹ بال کھلاڑی سجن سنگھ چیما کا بیان ہے ’’ہم کسانوں کے
بچے ہیں اور وہ گزشتہ کئی مہینوں سے پرامن مظاہرہ کر رہے ہیں۔ تشدد کا ایک
بھی واقعہ اس دوران نہیں ہوا۔ جب وہ (کسان) دہلی جا رہے تھے تو ان کے خلاف
آنسو گیس کے گولوں کا استعمال ہوا اور پانی کی بوچھاریں کی گئیں۔ اگر
ہمارے بڑوں اور بھائیوں کی پگڑی اچھالی گئی، تو ہم اپنے ایوارڈ اور اعزاز
کا کیا کریں گے؟ ہم اپنے کسانوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ہمیں ایسے ایوارڈ نہیں
چاہئیں، اس لیے انھیں لوٹا رہے ہیں۔‘‘پنجاب پولس کے انسپکٹر جنرل عہدہ سے
سبکدوش ہو نے والے سجن سنگھ سوال کرتے ہیں ’’اگر کسان ایسے قانون نہیں
چاہتے ہیں تو مرکزی حکومت ان پر یہ کیوں لاد رہی ہے؟ ‘‘
یہ بہت ہی آسان منطق ہے کہ جس کو ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے۔ جمہوری نظام
میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عوام کی حکومت ، عوام کے ذریعہ اور عوام کے
لیے ۔ اب اگر عوام یعنی کسان ایک زرعی قانون کا اطلاق نہیں چاہتے تو حکومت
ان پر یہ قانون کیوں تھوپ رہی ہے؟ کیا دھنوانوں کے نمائندے وزیر اعظم کو
کسانوں کے مفادات کا علمان سے زیادہ ہے؟مودی جی کا یہ دعویٰ نامعقول ہے کہ
کسان دوسروں کے بہکاوے میں آکر اس کی مخالفت کررہے ہیں ۔ سچ تو یہ کہ وہ
سرمایہ داروں کے جھانسے میں آکر اس طرح کے ظالمانہ قوانین بنارہے ہیں لیکن
اب ملک کا کسان اس فریب میں نہیں آئے گا۔ کسانوں کی اس تحریک کو پہلے تو
نظر انداز کیا گیا اور پھر اسے تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ہریانہ کے وزیر
اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے اعلان کیا کہ یہ ہمارے کسان نہیں ہیں لیکن اب تو
ہریانہ کی کھاپ پنچایت نے بھی تحریک کی حمایت کا اعلان کردیا ۔ اب کھٹریہ
نہ کہہ دیں کہ کھاپ بھی ہماری نہیں ہے۔ انہوں نے اگر ایسی حماقت کردی تو ان
کا گاوں میں گھسنا مشکل ہوجائے گا ۔ ویسے جے جے پی ڈھل مل ہورہی ہے اگر اس
نے بھی اکالی دل کی پیروی کی تو ہریانہ کی سرکار اوندھے منہ گر جائے گی ۔
ہریانہ سے ایسی خبریں بھی موصول ہورہی ہیں کہ وہاں کے ہر کسان خاندان اپنے
گھر سے مظاہرین کے لیے کھانا پینا اور ایک فرد خانہ کو احتجاج میں روانہ
کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے بانٹنے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئی
ہیں۔ اب مظاہرین کو خالصتانی کہہ کرکے بھی عوام کو بد ظن کرنا ناممکن ہوگیا
ہے ۔ یہ لوگ جب پنجاب سے دہلی کی سرحد پر پہنچے تو ان کے لیے گردواروں کے
ساتھ ساتھ مساجد کے دروازے بھی کھول دیئے گئے ۔ ان کےلیے لنگر سکھوں کے
ساتھ مسلمانوں نے بھی لگائے۔ اس سے پہلے جب شاہین باغ کی تحریک کو پاکستان
سے منسوب کیا جارہا تھا اس وقت سکھوں نے آگے بڑھ کر حمایت کی اس بار
کسانوں کی تحریک کا کشادہ دلی تعاون کررہے ہیں ۔ سنگھ پریوار ا کی فواہوں
کی مدد سے لوگوں ڈرا دھمکا ایک دوسرے کی حمایت سے روکنے کی حکمت عملی دم
توڑ رہی ہے۔ سارے مظلوم اپنا بھید بھاو مٹا کر متحد ہورہے ہیں ۔ آسمان
گیتی دنیا بھر کے مظلومین کے ایک ہونے کا منظر دیکھ رہا ہے ۔ اسی سبب
سےسرکاری ایوانوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ دبنگ دادی بلقیس بانو کو حراست
میں لینے کی یہی وجہ ہے۔ وہ جبر واستبداداور آمرانہ رحجانات کے خلاف
جدوجہد کی ایک نہایت توانا آواز ہیں ۔دبنگ دادی اب صرف شاہین باغ اور
مسلمانوں کی ہی نہیں بلکہ کسانوں اور پورے ملک کی دادی بن گئی ہیں جن کی
آمد سے ظالموں کی نانی مر جاتی ہے۔
|