تاریخ ِ انسانی کے سب سے بڑے ولی اﷲ کا با رعب خطاب جاری تھا آپ کی پر جلال
آواز گو نج رہی تھی اہل بغداد کا ہزاروں کا مجمع تصویر حیرت سے ساکت آپ کا
خطاب سن رہے تھے کہ اچانک آسمان پر کالے بادل چھا گئے اور پھر طوفانی مو
سلا دھا ر بارش برسنے لگی بزرگ نے آسمان کی طرف دیکھا اور نہایت درد ناک
لہجے میں خدا کو عرض کی اے مالک بے نیاز میں تو صرف تیری مخلوق کو اکٹھا کر
تا ہوں اور تو انہیں منتشر کر نا چاہتا ہے بزرگ کی زبان مبارک سے جیسے ہی
الفاظ نکلے بارگاہِ الہی میں قبول ہو ئے تو پھر اہل بغداد نے اپنی آنکھوں
سے حیرت انگیز منظر دیکھا جہاں پر لوگ تقریر سننے کے لیے جمع تھے وہاں بارش
برسنا بند ہو گئی جبکہ میدا ن کے چاروں طرف موسلا دھار بارش اسی طرح ہو رہی
تھی ہزاروں انسانوں نے اپنی آنکھوں سے بزرگ کی زندہ کرامت دیکھی کہ جب تک
بزرگ تقریر کر تے رہے اہل مجمع پر بارش نہیں ہو رہی تھی جبکہ اطراف میں
بارش زوروں سے ہو رہی تھی اِس کرامت کی شہرت چاروں طرف پھیل گئی پھر پورا
ملک آپ کا وعظ سننے کے لیے امڈ آتا ملک کے دور دراز علاقوں سے ہدایت کے
متوالے اپنی اندھی بے نورو حوں کے ساتھ تقریر سننے آتے اور پھر کثافتوں کو
لطافتوں میں تبدیل کر کے گھر لوٹتے ۔اِسی طرح ایک روز آپ خطاب فرمانے لگے
ہزاروں لوگ عقیدت و احترام سے آپ کا وعظ سننے کے لیے جمع تھے ابھی آپ نے
تقریر شروع نہیں کی تھی حاضرین مجلس آپس میں گفتگو کر رہے تھے حاضرین میں
ایک اور بہت نیک بزرگ شیخ علی بن ابی نصر بھی موجود تھے جو آپ کے بلکل
سامنے بیٹھے تھے کیونکہ ابھی تقریر کا آغاز نہیں ہو ا تھا اِس لیے اچانک
شیخ علی پر غنودگی طاری ہو ئی اور آپ کو نیند آگئی بزرگ تقریر کے لیے منبر
پر جلوہ افروز ہو ئے تقریر شروع کر نا چاہی ایک نظر ہزاروں لوگوں کو دیکھا
پھر بزرگ کی نظر ایک طرف ٹھہر گئی آپ شیخ علی کو دیکھ رہے تھے پھر اچانک
بزرگ بو لے خا موش ہو جا خاموش ہو جا بزرگ کی زبان سے یہ الفاظ جیسے ہی
حاضرین کی سما عتوں سے ٹکرائے تو حاضرین مجلس فورا خا موش ہو گئے ہزاروں لو
گ تصویر حیرت بنے خاموش تھے لوگوں کی سانسوں کے سوا کوئی آواز نہیں آرہی
تھی پھر اہل مجمع نے ایک اور حیرت انگیز منظر دیکھا کہ بزرگ اپنے منبر سے
نیچے اتر کر آئے اور سوئے ہو ئے شیخ علی کے سامنے نہایت ادب و احترام سے
کھڑے ہو گئے حاضرین اِس غیر متوقع واقع سے حیران تھے کیونکہ ان کی نظروں نے
آج سے پہلے کبھی ایسا منظر نہ دیکھا تھا ۔ بزرگ نہایت پیار، ادب و غور سے
شیخ علی کے چہرے کو دیکھ رہے تھے حاضرین حیران تھے کیونکہ کا فی دیر ہو گئی
تھی لیکن بزرگ نہایت خا موشی اور ادب سے کھڑے تھے اورپھر جب شیخ علی نیند
سے جاگے تو انہوں نے اپنی زندگی کے حیران کن منظر کو دیکھا کہ جس بزرگ کا
وہ خطبہ سننے آئے تھے جن کے وہ دیوانے تھے وہ احتراما ان کے سامنے کھڑے ہیں
شیخ علی کو کچھ بھی سمجھ نہ آیا وہ گھبرا کر فوری کھڑے ہو گئے لیکن بزرگ نے
اپنا دستِ شفقت شیخ علی کے کندھے پر رکھا اور دلنواز تبسم سے فرمایا علی آپ
بیٹھ جا لیکن شیخ علی نے عقیدت و احترام سے لبریز لہجے میں کہا یا شیخ آپ
کھڑے ہوں تو میں کیسے بیٹھ سکتا ہوں میں عاجز مسکین یہ گستاخی کیسے کر سکتا
ہوں ۔ لیکن بزرگ نے کندھے پر ہا تھ رکھا اور کہا بیٹھ جا علی جب میں کہہ
رہا ہوں کہ بیٹھ جا تو عقیدت کا تقاضہ یہی ہے کہ بیٹھ جا اب شیخ علی نہ
چاہتے ہو ئے بھی حکم شیخ پر بیٹھ گئے تو بزرگ مشفقانہ تبسم سے بولے اے علی
کیا ابھی تمہا رے خواب میں سر تاج الانبیا سرور کائنات ﷺ نہیں تشریف لائے
تھے تو شیخ علی عقیدت سے سر شار اور حیرت سے بو لے جی ہاں آپ درست فرما رہے
ہیں ابھی کچھ دیر پہلے ہی جب سو رہا تھا تو مجھے محبوب خدا سردار الانبیا ﷺ
کی زیارت کی سعادت نصیب ہو ئی ہے توبزرگ بو لے میں سرورِ کو نین ﷺ کے
احترام میں ہی تو کھڑا تھا ۔ شیخ علی عقیدت اور رقت آمیز لہجے میں بو لے یا
شیخ کیا سرور دو جہاں ﷺ نے آپ کو کو ئی ہدایت بھی فرمائی ہے ؟ تو بزرگ بو
لے جی ہاں مجھے شہنشاہ دو جہاں ﷺ کا حکم تھا کہ میں آپ کی خدمت میں احتراما
کھڑا رہوں ۔ شیخ علی کے سامنے کھڑے ہو نے والے بزرگ تا ریخ انسانی کے سب سے
بڑے بزرگ شیخ عبدالقادر جیلانی تھے ۔ آپ کی شان اور آقائے دو جہاں ﷺ کی
مجلس میں حاضری اور حضوری کا یہ مقام تھا کہ آپ کی مجلس اور وعظ سننے والوں
پر بھی زیارت رسول ﷺ کی سعادت نصیب ہو تی تھی۔ مو رخین لکھتے ہیں کہ حضرت
شیخ عبدالقادر جیلانی کے وعظ سننے والوں کی تعداد ستر ہزار تک پہنچ جا تی
تھی۔ آپ کے دور کے ایک اور بڑے بزرگ شیخ ابو الحسن انصاری شیخ عبدالقادر
جیلانی کے وجدان اور حالت ِ کشف کا واقعہ اِسطرح بیان کر تے ہیں کہ میں آپ
کا وعظ سننے کے لیے بغداد پہنچا میرے پہنچنے سے پہلے ہی میدان حاضرین سے
بھر چکا تھا لہذا مجھے آخری صفوں میں جگہ ملی حضرت شیخ کا زہد پر وعظ جا ری
تھا میں نے دل میں سو چا کاش آپ معرفت پر ارشاد فرمائیں تو آپ نے معرفت پر
مدلل اور پر تاثیر فکر انگیز تقریر فرما دی جو اِس سے پہلے میں نے کبھی نہ
سنی تھی پھر میرے دل میں خیال آیا کاش حضرت آج شرک کے موضوع پر بھی اظہار
خیال فرما دیں اور پھر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب شیخ جیلانی نے پہلا
موضوع بد ل کر شرک پر ایسی جاندار علمی تقریر فرمائی کہ میں حیرت کے سمندر
میں ڈوبتا چلا گیا ۔ شیخ عبدالقادر جیلانی کے منہ سے الفاظ و معانی کا
آبشار ابل رہا تھا علم و حکمت کے مو تی لٹا رہے تھے ایسا خطاب میں نے پو ری
زندگی کبھی نہ سنا تھا ۔ شرک کے اسرار و رموز پر ایسی گفتگو جو میں نے پہلے
کبھی نہ سنی تھی میرے ہوش و حواس گم ہو چکے تھے میں تحیر کے آخر ی درجے پر
تھا پھر میں نے سو چا کہ کاش شیخ فنا و بقا کے پیچیدہ مسئلے پر روشنی فرما
دیں اسی لہجے جناب شیخ نے فنا و بقا پر سیر حاصل تقریر فرمائی الفاظ معانی
کا سیلاب جا ری تھا ۔ مجھے لگ رہا تھا آج کی محفل جناب شیخ نے میرے لیے ہی
سجا ئی ہے میں جو دل میں سوچتا تھا آپ اسی پر پر مغز تقریر فرما دیتے مجھے
جناب شیخ عبدالقادر جیلانی کے مقام، شان اور کشف کا اندازہ ہو رہا تھا کہ
ہزاروں کے مجمع میں جو میں دل میں سوچ رہا ہوں آپ اس کا جواب دے رہے ہیں
پھر میں نے سوچا کا ش حضرت شیخ آج غیب و حضور کے مشکل مسئلے کو بھی آج آسان
کر دیں اور پھر میری حیرت آخری حدوں کو چھونے لگی جب شہنشاہ ِ بغداد نے غیب
و حضور جیسے مشکل مو ضوع کو اِسطرح بیان فرمایا کہ میری سالوں کی تشنگی دور
ہو ئی میرے دل دماغ کو سکون نصیب ہوا ۔اور پھر شہنشاہِ بغداد کی تقریر ختم
ہو ئی تو جناب شیخ نے حاضرین کی آخری صف پر نگاہ ڈالی اور براہِ راست مجھے
مخاطب کیا اور کہا اے ابو الحسن کیا تیری تسلی ہو ئی کیا یہ تیرے لیے کا فی
ہے ؟ شہنشاہِ بغداد کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے میرے سماعت سے ٹکرائے
اور میری حالت غیر ہو گئی حالتِ وجد میں گریبان چاک کر ڈالا اور دھاڑیں مار
کر رونا شروع کر دیا۔
|