جمعہ نامہ : فہم ِدین کی شاہِ کلیداللہ کی محبت ہے

 ارشاد ربانی ہے:’’اے پیغمبرو، کھاؤ پاک چیزیں اور عمل کرو صالح، تم جو کچھ بھی کرتے ہو، میں اس کو خوب جانتا ہوں‘‘ اس آیت مبارکہ میں انبیاء علیہ السلام کو جو پاک چیزویں کھانے کا حکم دیا گیا اس ترجمہ بعض مترجمین نے اکل حلال بھی کیا ہے ۔ یعنی اپنی محنت و مشقت سے کماکر کھایا جانے والا رزق ۔ نبی ٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ’’کوئی نبی ایسا نہیں جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں لوگوں نے پوچھا آپ سمیت ؟ آپؐ نے فرمایا ہاں میں بھی چند قیراط پر اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا ؟ حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) اپنے ہاتھ کی محنت کا کھایا کرتے تھے۔ ویسے تو یہ بھی ایک عمل صالح ہے لیکن اس کی اہمیت کے سبب ممتاز کرکے توجہ دہانی کی گئی ۔

سورۂ مومنون کی آگے والی آیت یہ اصولی بات بتائی گئی کہ :’’ اور یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، پس مجھی سے تم ڈرو ‘‘۔ اس آیت کا دوسرا ترجمہ اس طرح ہے کہ :’’یقیناً تمہارا یہ دین ایک ہی دین ہے اور میں ہی تم سب کا رب ہوں، پس تم مجھ سے ڈرتے رہو‘‘۔ یعنی مشترکہ دین کی نسبت سے سارے نبی ایک ہی امت کے افراد ہیں ۔اس طرح ان کے پیرو کاروں کو بھی ایک امت ہونا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہے ۔ اس کی وجہ آگے والی آیت میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ:’’مگر بعد میں لوگوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیا ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے اُسی میں وہ مگن ہے‘‘۔ اس آیت کے آخر میں جس نفسیاتی کیفیت کا اظہار کیا گیا ہے وہی اصلاح حال کی دشمن ہے یعنی دین کا جو ٹکڑا کسی گروہ نے الگ کرکے اپنے لیے مختص کیا اسی میں کھویا ہے اس کو کُل سمجھتا ہے۔

بدقسمتی سے یہ کیفیت مختلف مذاہب کے ساتھ ساتھ مسالک کے درمیان بھی پیدا ہوگئی ہے۔ باہمی احترام و محبت کی جگہ تحقیر و نفرت نے لے لی ہے۔ہم نے اپنی ہی ملت کےافراد کو اپنا حلیف سمجھنے کے بجائے حریف سمجھنا شروع کردیا ہے ۔ متحد ہو کر باطل سے نبرد آزما ہونے کے بجائے آپس میں الجھ کر رہ گئے ہیں ۔ یہ دراصل غفلت کی بدترین شکل ہے ۔ اس سے نجات کی کوشش ہونی چاہیے لیکن اگر لوگ اس پر اڑے رہتے ہیں تو رب کائنات خبردار کرتا ہے:’’اچھا، تو چھوڑو انہیں، ڈوبے رہیں اپنی غفلت میں ایک وقت خاص تک ‘‘۔ کیونکہ مہلت عمل تو محدود مختصر اس کے بعد جب یوم الحساب آئے گا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ اس آیت کے بعد دنیا میں پھلنے پھولنے والی باطل طاقتوں کے حوالے سے فرمایا :’’کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو انہیں مال و اولاد سے مدد دیئے جا رہے ہیں تو گویا انہیں بھلائیاں دینے میں سرگرم ہیں؟ نہیں، اصل معاملے کا انہیں شعور نہیں ہے ‘‘۔ یہ دوآیات اس عام عدمِ شعور کا ازالہ کرتی ہے جس میں باطل کے علمبردار دنیا میں ملنے والی ڈھیل کو خدا کی خوشنودی و نصرت سمجھ لیتے ہیں اور اہل ایمان ہر آزمائش کو عذاب کے خانے میں ڈال دیتے ہیں ۔
 
سورۂ تو بہ میں ارشادِ حق ہے :’’تمہیں ان کے اموال اور اولاد حیرت میں نہ ڈال دیں بس اللہ کاارادہ یہی ہے کہ ان ہی کے ذریعہ ان پر زندگانیدنیا میں عذاب کرے اور حالت ِکفر ہی میں ان کی جان نکل جائے‘‘۔ نبی ٔ کریم ؐ فرماتے ہیں:’’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اخلاق بھی تم میں اسی طرح تقسیم کئے ہیں جس طرح روزی تقسیم فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا تو اسے بھی دیتا ہے جس سے محبت رکھے اور اسے بھی دیتا ہے جس سے محبت نہ رکھے ہاں دین صرف اسی کو دیتا ہے جس سے پوری محبت رکھتا ہو پس جسے اللہ دین دے سمجھو کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھتا ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے ،بندہ مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دل اور زبان مسلمان نہ ہوجائے اور بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے پڑوسی اس کی ایذاء(دھوکے بازی و ظلم )سے بےفکر نہ ہوجائیں‘‘۔ یہ حدیث ہر اہل ایمان کو خود احتسابی کی دعوت بھی دیتی ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1453714 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.