‎میرا لاکھوں کا کاون جائے

کہتے ہیں کہ زندہ ہاتھی لاکھ کا تو مرا ہؤا سوا لاکھ کا ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہاتھی کے کھانے اور دکھانے دونوں ہی طرح کے دانت بہت قیمتی ہوتے ہیں اور آرائشی اشیاء تیار کرنے کے کام آتے ہیں ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ اس کے مرنے کے بعد ہی نکالے جا سکتے ہیں جیتے جی تو نہیں نکال سکتے ۔ اور ہاتھی کی عمر بھی اچھی خاصی یعنی اوسطاً 70 سال تک ہوتی ہے ۔ اس لیے اکثر ہی اس کے مرنے کا انتظار کرنے کے بجائے اسے مار دیا جاتا ہے تاکہ غریب مقتول کے دانت ہتھیائے جا سکیں اور دام کھرے کیے جائیں ۔ ہاتھی پر آفرین ہے کہ مر کے بھی پہلے سے زیادہ قیمتی ہو جاتا ہے ۔ جبکہ ایک ہوتا ہے سفید ہاتھی ، ناہنجار کام کا نا کاج کا دشمن سماج کا ۔ دیس میں بکثرت پایا جاتا ہے ننگی بھوکی عوام کا خون چوسنا اس کا پسندیدہ مشغلہ ہے اور انہی کے ٹیکس کے پیسوں پر پلتا ہے اور مرتا بھی آسانی سے نہیں ہے ۔ اب تو ہاتھیوں کی اس نسل کو پالتے پالتے خود عوام کا جنازہ نکلنے کو ہو گیا ہے ۔ کمبخت ماری عوام کو جانور بھی تو خوب مہنگے والے پالنے کا شوق ہے ، ہاتھی شیر ہرنی چیتے نسلی کتے گینڈے اور بھی پتہ نہیں کیا کیا کچھ ۔ اور ان کے عشق میں خود باندر بنے ہوئے ہیں پتہ نہیں انہیں عقل کب آئے گی کب ان کی صبح ہو گی ۔

ہمارے چڑیا گھر مرغی زار میں پلنے والا ہاتھی اس لحاظ سے بہت خوش نصیب تھا کہ وہاں سے زندہ سلامت نکلنے میں کامیاب ہو گیا ۔ سال بھر کا بچونگڑا وہیں پل بڑھ کر تگڑا جوان ہؤا ہمارے ایک ٹوٹے ہوئے بازو سے اسے بازو بھی ملا ۔ پھر بائیس برس کی دوستی منٹوں میں ٹوٹ گئی موت کے ظالم ہاتھوں ۔ بچوں بڑوں بوڑھوں سب کا من بھاون کاون اب کسی کارن جوگا نہ رہا ۔ سبھی کا دل بہلانے والا کاون خود اپنے ٹوٹے دل کے ساتھ قید تنہائی میں اپنی زندگی کسی سزا کی طرح کاٹنے پر مجبور تھا ۔ مرغی زار میں اس کی جو حالت زار تھی وہ آخرکار بیرون ملک زیر تعلیم ایک طالبہ پر آشکار ہوئی اور اسی کی کاوشوں کی بدولت کاون دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا اور ایک کافر گانے بجانے والی کی طرف سے بھاری مالی تعاون کا مستحق ٹھہرا ۔ پھر بالآخر بہت سے غیروں پرایوں کی مدد اور تعاون سے کاون اپنے جہنم زار سے بخیر و عافیت اپنی ایک محفوظ و پرسکون پناہ گاہ میں پہنچ گیا ۔ جہاں اس کے لیے اس کی فطرت کے مطابق آزاد و سازگار ماحول ہے اور ایک ساتھی کے سنگ جیون خوشگوار ہے ۔ طبعی اعتبار سے ابھی اس کی آدھی زندگی باقی ہے خدا کرے کہ نئی سرزمین اسے راس آئے وہ وہاں دودھوں نہائے پوتوں پھلے ۔ یہاں ہم نے اسے کیا دیا؟

کسی پر بھاری تو وہ ویسے بھی کبھی نہیں تھا ہر حال میں کما کر ہی دیا ۔ وہ کوئی سفید ہاتھی نہیں تھا ۔ لوگ اس کی بےکسی کا تماشا بھی پیسے دے کر ہی دیکھتے تھے مفت میں نہیں ۔ اس کے منہ کے نوالوں اور گھونٹوں سے اور بھی بہت سوں کا بھلا ہوتا تھا وہ تو اپنی زندگی ہی میں سو لاکھ کا تھا ۔ اور اگر خدانخواستہ مر جاتا تو بھی بےحس ریاست کو اپنے دانت تحفے میں دے جاتا ۔
Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 228 Articles with 1854495 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.