ایل جے پی رہنما رام ولاس پاسوان نے سن ۲۰۰۰ سے بی جے پی
کی حتی الوسع خدمت کی اور آخری دم تک این ڈی اے کا حصہ بنے رہے۔8؍اکتوبر
کو ان کے انتقال پر تعزیت کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہاتھا کہ ،
"میں اپنی مایوسی کو الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔ ہمارے ملک میں ایک کمی
پیدا ہوگئی ہے جو شاید کبھی پوری نہیں ہوگی۔ اس کی موت میرے لئے ذاتی نقصان
ہے۔ میں نے اپنا ایک دوست ، ایک اہم ساتھی اور ایک ایسا آدمی کھو دیا ہے ۔
" خیر موت کے بعد اس کمی کو پورا تو کرنا ہی تھا اس لیے اپنے ذاتی نقصان کی
بھرپائی کے لیےوزیر اعظم کو اس دوست اور اہم ساتھی کی پارٹی کا کوئی ممبر
نہیں ملا۔ وزیر داخلہ نے بھی بہت ساری چکنی چپڑی باتیں کرنے کے بعد آخر
میں کہا کہ’’ ہم سب کے پیارے رام ولاس پاسوان جی نے ہمیشہ اپنی قومی مفاد
اور عوامی فلاح و بہبود کو اوپر رکھا۔ ان کی موت نے ہندوستانی سیاست میں
ایک خلا پیدا ہوگیا ہے‘‘ اور اس خلا کو پر کرنے کے لیے سیاسی مفاد کو سامنے
رکھ کر ان کی جگہ بی جے پی نے اپنے سابق نائب وزیر اعلیٰ سشیل کمار مودی کو
امیدوار بنا دیا حالانکہ یہ ایل جے پی کا حق تھا۔ اس دغابازی پر ایل جے پی
کا نشان گھر اور یہ نغمہ یاد آتا ہے ؎
اچھا صلہ دیا تو نے میرے پیار کا
یار نے ہی لوٹ لیا گھر یار کا
ایک ہفتہ قبل نامزد کیے جانے والے سشیل مودی بالآخر راجیہ سبھا کیلئے
بلامقابلہ منتخب کر لئے گئے ۔ راجیہ سبھا کی ایک سیٹ کے ضمنی انتخاب میں ان
کے علاوہ ایک واحد آزاد امیدوار شیام نندن پرساد تھے ۔ پرچوں کی جانچ کے
بعد مسٹر پرساد کے پرچے میںتجویز کنندوں کانام نہیں ہونے کی وجہ سے ان اسے
خارج کر دیا گیا۔ اس طرح ایوان پارلیمان میں رام ولاس پاسوان کے جاتے ہی
ایل جے پی کا چراغ گل ہوگیا ۔ اس بار اسمبلی انتخاب میں کانگریس کی ناکامی
کا بڑا چرچا ہوا مگر اس سے بھی بڑی ناکامی ایل جے پی کے ہاتھ آئی ہے۔ چراغ
پاسوان نے بڑے طمطراق سے جملہ 137 امیدوار کھڑے کیے تھے ۔ ان میں سے 1کو
کامیابی ملی اور باقی سب ہار گئے ۔ لوک جن شکتی پارٹی کا قیام 2000کے اندر
عمل میں آیا۔ اس کے بعد اس نے تین مرتبہ اکیلے انتخاب لڑنے کا تجربہ کیا ۔
فروری 2005 میں ایل جے پی نے اپنے بل بوتے پر 178 امیدوار کھڑے کیے تھے اور
29 مقامات پر اسے کامیابی ملی۔ یہ اس کی سب سے بڑی کامیابی تھی لیکن پھر اس
میں گراوٹ شروع ہوگئی ۔ اس غیر معمولی کامیابی کے وقت اس کو حاصل ہونے ووٹ
کا تناسب 18فیصد تھا۔ اسی سال اکتوبر میں پھر انتخاب ہواتو وہ صرف
10امیدواروں کو کامیابی کر سکی جبکہ اس نے 203 کو الیکشن لڑایا تھا اور ووٹ
کا تناسب بھی گھٹ کر 11.1 فیصد پر آگیا تھا۔ 2015 میں ایل جے پی نے نتیش
کے بغیر بی جے پی کے ساتھ مل کر انتخاب لڑا تو اس کے صرف دو امیدوار جیتے
جبکہ ووٹ کا تناسب 4.83 فیصد پر چلا گیا ۔ اس بار چراغ پاسوان نے پھر سے
تنہا انتخاب لڑا اور اپنے ووٹ کا تناسب بڑھا کر 5.63 فیصد پر پہنچایا لیکن
صرف ایک کو کامیاب کرسکے ۔ اس طرح اپنی بدترین شکست سے دوچار ہوگئے۔
یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ ایل جے پی نے اس بار بی جے پی کے ایسے 25
لوگوں کو بھی ٹکٹ دیا جو جے ڈی یو سے الحاق کے سبب اپنی پارٹی کے ٹکٹ سے
محروم کردیئے گئے تھے ۔ مثلاً آر ایس ایس کے پرانے کارکن راجندر سنگھ کو
دینار حلقۂ انتخاب سے الیکشن لڑایا گیا اور وہ ہار گئے۔ بھاگلپور میں ایل
جے پی نے بی جے پی کے سابق میئر کو الیکشن لڑایا اور وہ بھی ہار گئے۔ اس کے
باوجود نتائج کے بعدچراغ پاسوان نے کہا ہر پارٹی کی طرح میں بھی زیادہ سے
زیادہ مقامات پر جیتنا چاہتا تھا لیکن اس الیکشن میں میرا مقصد بی جے پی کو
مضبوط پارٹی بنانا تھا اورجو اثرات ہم نے ڈالے ہیں ان سے میں مطمئن ہوں۔ وہ
فی الحال عوام سے اظہار تشکر ادا کرنے کے لیے کارواں نکالنے کی تیاری کررہے
ہیں۔چراغ پاسوان کے اس دعویٰ سے بہار میں بی جے پی کے ترجمان بھوپندر یادو
اتفاق نہیں کرتے ان کا کہنا ہے کہ ’ایل جے پی نے اپنی الگ راہ چن کر این ڈی
اے کو ایک طرح سے دھوکہ دیا ہے ۔ بہار کی عوام نے انہیں ریاستی سیاست میں ا
ن کی حیثیت کا احساس دلا دیا۔‘‘۔
جے ڈی یو کے رہنما کے سی تیاگی نے ایل جے پی کو بدترین دشمن قرار دیا اور
اس کے ترجمان ڈاکٹر اجئے آلوک نے مرکزی سطح پر اسے این ڈی اے سے نکال باہر
کرنے کا مطالبہ بھی کردیا لیکن اب وہ دن لد گئے جب بی جے پی والے نتیش کمار
کی کے آگے جھک جایا کرتے تھے۔چراغ پاسوان نے این ڈی اے کا کتنا نقصان کیا
؟ اس بابت بڑا اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک رائے تو یہ ہے کہ 42 نشستیں ایسی
ہیں جن پر این ڈی اے کو چراغ پاسوان کے سبب ہار کا منہ دیکھنا پڑا۔ ان میں
سے 36 جے ڈی یو کی ہیں اور 4 وکاس شیل انسان پارٹی(وی آئی پی) کی ہے۔ اس
کے علاوہ ایک پر بی جے پی اور ہندوستانی عوام پارٹی (ہم) کو بھی نقصان
اٹھانا پڑاہے۔ اس قیاس کو اگر درست مان لیا جائے تو ایل جے پی کی دشمنی نہ
ہوتی تو جے ڈی یو 77 نشستیں جیت کر آرجے ڈی سے بھی بڑی پارٹی بن سکتی تھی۔
ایل جے پی چونکہ 54 مقامات پر تیسرے نمبر پر تھی اس لیے دوسرا قیاس یہ ہے
کہ اس نے جہاں 30 مقامات پر این ڈی اے کو نقصان پہنچایا وہیں 24 نشستوں پر
مہاگٹھ بندھن کا بھی خسارہ کیا اس لیے اس کی وجہ سے تیجسوی کے محاذ کو جملہ
6 نشستوں پر ہی فائدہ ہوا۔ رام ولاس پاسوان کی جگہ سشیل مودی کا انتخاب اس
بات کا ثبوت ہے کہ بی جے پی نے چراغ پاسوان کا استعمال ٹیشو پیپر کے طور
کیا اور اس کے بعد انہیں کوڑے دان کی نظر کردیا ۔ ایسے بے دریغ استعمال
ہونے والوں کا یہی انجام ہوتا ہے ۔ مہاراشٹر میں راج ٹھاکرے اور بہار میں
چراغ پاسوان یکساں انجام سے دوچار ہوئے۔ کوئی سیاستداں اگر اپنا عزت و وقار
داوں پر لگا کر اپنے آپ کو متاع کوچہ وبازار بنالے تو اس کا یہی انجام
ہوتا ہے۔
|