محترم قارئین کرام: جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ کل یعنی
کہ بروز جمعہ کو گریٹر حیدرآباد کے میونسپل کارپوریشن الیکشن کے نتائج کا
اعلان ہوا۔۔۔۔مجلس نے اپنے تمام وارڈوں کو تو محفوظ رکھا لیکن ٹی آر ایس کو
اپنی ۴۰نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ کیونکہ وہی بی جے پی جو پچھلی دفعہ
صرف ۴ سیٹوں پر محدود ہو کر رہ گئی تھی وہ اب کی بار۴۷ نشستوں پر قبضہ کرنے
میں کامیاب ہوگئی ہے۔ ایسے میں گودی چینلوں کاتو پوچھو ہی مت۔۔تعریفوں میں
آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔
یعنی کہ اب ہرے اور گلابی رنگ میں بھگوے رنگ نے اپنی واضح جگہ بنالی ہے۔
ہاں یہ بات ضرور ہے کہ مجلس اور ٹی آر ایس مل کر اقتدار تو حاصل کرلیں گے
لیکن کیا بی جے پی کی اتنی زیادہ اور زبردست کامیابی کو دیکھتے ہوئے انہیں
جشن منانا چاہئے یا پھر سے اپنے نتائج پر غور کرنا چاہئے۔۔۔مجلس نے پچھلی
بار کی طرح اپنے اتنے ہی سیٹوں پر کامیابی حاصل کرلی لیکن مزید ایک سیٹ سے
انہیں محروم ہونا پڑا۔ لیکن بی جے پی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اگلے
انتخابات میں حیدرآباد پر قبضہ ضرور کرسکتی ہے۔۔۔۔اگر خدانحواستہ ٹی آر ایس
کے کئی اراکین اگر بی جے پی میں شامل ہوجاتے ہیں تو پھر بی جے پی کا گریٹر
حیدرآباد میں میئر بننے کیخواب کو کوئی روک نہیں سکتا۔کیونکہ یہاں میں ایک
بات بتادوں کہ
کے سی آر اور کے ٹی آر کے بارے میں یہ شکایت حیدرآباد میں عام ہے کہ عام
آدمی تو دور کی بات ہے‘ان کی پارٹی کیایم ایل اے سے تک ملاقات نہیں کرتے۔
انہیں اب اپنا جائزہ بڑی سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ایسے میں اسد صاحب اور مجلس
کے تمام اراکین کی ٹی آر ایس کے تمام کاؤنسلرس کو اپنا بناکر رکھنے میں اہم
بھومیکا نبھانی ہوگی۔
ناظرین یہاں ایک سوال ہم سبھی کے ذہنوں میں بار بار آرہا ہے کہ آخر ٹی آر
ایس کو ۰۴ نشستوں پر ناکامی کا منہ کیوں دیکھنا پڑا۔جبکہ پچھلی دفعہ ان کے
۹۹ نشستوں پر قبضہ تھا۔ جبکہ ٹی آر ایس نے حیدرآباد میں یقینا ترقیاتی
اقدامات کئے تھے۔ریزرویشن دیا تھا۔ گورنمنٹ نوکریاں دی تھی اور بھی بہت
ساری سہولتیں دینے کے بعد بھی آخر کیا وجہ ہے کہ ٹی آر ایس کو نقصان اٹھانا
پڑا۔اعتماد اخبارکی خبر کے مطابق پوسٹل بیالٹس سے جو ووٹ ٹی آر ایس کو ملے
ہیں ان میں ۸۰ وارڈس میں بی جے پی کو سبقت حاصل ہوئی ہے۔میں آپ کو بتادوں
کہ یہ پوسٹل بیلٹس والے جو ووٹ ہوتے ہیں وہ سرکاری ملازمین کی جانب سے
روانہ کئے جاتے ہیں۔ یعنی کہ سرکاری ملازمین ٹی آر ایس سے ناراض تھے۔ یا
پھر بی جے پی نے سرکاری ملازمین کو اپنے کنٹرول میں کرلیا تھا۔۔۔۔اس کا
جواب مجلس اور ٹی آر ایس کو ڈھونڈنا ہی ہوگا ورنہ بہت مشکل ہوجائے گی۔
ناظرین بی جے پی نے جس طرح سے آزادی کے بعد سے۳۰ سے ۴۰ سالوں کے دوران اپنی
دو سیٹوں کو ۰۰۳ سیٹوں میں بدلا ہے اسی طرح گریٹرحیدرآباد میں بھی دھیرے
دھیرے اس نے اپنے پنجے جمانا شروع کردئے ہیں۔۔۔۔ایک سروے کے مطابق حیدرآباد
کے نوجوانوں میں ایک تبدیلی آئی ہے وہ بی جے پی کی حمایت میں اتر آیا ہے
جبکہ پچھلی دفعہ یہی معاملہ ٹی آر ایس کے ساتھ پیش آیا تھا۔۔۔۔جب کہ اس بیچ
میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس بار بیلیٹ پیپر سے الیکشن کروائے گئے تھے
پھر بھی بی جے پی نے اتنی بڑھی سبقت حاصل کرلی ہے۔ جس طرح سے بی جے پی نے
ایک طرح سے حیدرآباد فتح کرلیا اس کے کارکنان میں ایک خاص بات یہ دیکھنے
ملی کہ وہ مستقل ایک دوسرے کے رابطہ میں رہ کر پچھلے تین سالوں سے کام
کررہے تھے۔ اور ٹی آر ایس خواب خرگوش کی طرح یہ سمجھ رہی تھی کہ وہ One
Side Victoryحاصل کرلے گی۔ لیکن کیا ہوا سب نے دیکھ لیا۔بی جے پی نے جس طرح
سے حیدرآباد کے الیکشن کو ملک کا الیکشن بنادیا تھایہی وجہ تھی کہ انھوں نے
اور ان کے کارکنان نے ذاتی طور پر وہاں قربانیاں دی تھی اور کوئی موقع
انھوں نے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
ایسا لگ رہا تھا کہ جس طرح سے بہار میں مجلس نے اپنا دم خم دکھا کر ۴ سیٹوں
پر الیکشن جیتا ہے۔۔۔یقینا یہ بہت بڑی کامیابی ہے لیکن اس سے اندازہ لگایا
جارہا تھا کہ حیدر آبادمیں وہ ایک ۵۱ سیٹوں پر کامیابی حاصل کرلیں گے لیکن
ایسا کچھ ہوا نہیں۔
اور پھر اگر کانگریس کی بات کی جائے تو یہ بات بالکل صحیح ہے جیسا کہ غلام
نبی آزاد اور دیگر کانگریسی سینئر لیڈران نے کہا کہ کانگریس میں فائیو
اسٹار کلچر پنپ رہا ہے یعنی کہ اونٹ پر بیٹھ کر بکریاں چرارہے ہیں۔ ویسے
بھی حیدرآباد میں کانگریس کئی سال پہلے ہی ختم ہوچکی ہے اور پھر ان نتائج
کو دیکھ کر تو لگتا ہیکانگریس ان دنوں وینٹی لیٹر ہے اور آنے والے سالوں
میں شاید کانگریس کے اراکین اپنی ضمانت بھی بچا پاتے ہیں یا نہیں یہ دیکھنے
والی بات ہوگی۔۔۔اور پھر بی جے پی کا کانگریس مکت بھارت خواب بھی شاید بہت
جلدشرمندہ تعبیر ہوجائے بتا نہیں سکتے۔۔۔مجھے تو لگنے لگا ہے کہ اب کانگریس
بی ٹیم کہنے کی بھی لائق نہیں رہی۔۔۔
خیر میں کہہ رہا تھا کہ اب ٹی آر ایس کوگریٹر حیدرآباد میں کافی مشکلات کا
سامنا ہوسکتا ہے۔ اس کی راہیں کانٹوں بھری ہے۔ کیوں کہ سب سے زیادہ نشستیں
حاصل کرنے کے باوجود ٹی آر ایس کیڈر میں مایوسی اور دوسری مقام پر پہنچنے
والی بی جے پی کی صفوں میں نیا جوش اور ولولہ ہے۔
دوستو جہاں تک اسد الدین اویسی صاحب کی پارٹی مجلس اتحاد المسلمین کا تعلق
ہے اس نے۵۱امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا جس میں سے انہیں ۴۴ نشستوں پر
شاندار کامیابی حاصل ہوئی۔یعنی کہ پرانے حیدرآباد میں بی جے پی سیندھ نہیں
لگا پائی۔۔حالانکہ ہم نے دیکھا کہ کس طرح سے بی جے پی کی جانب سے کی جارہی
زہریلی تقریروں کے بعد گرین بیلٹ میں ایک جوش وولولہ پیدا ہوجاتا تھا لیکن
وہ جوش اور ولولہ اس بار حیدرآباد میں دیکھنے کو نہیں ملا۔۔۔جس طاقت کے
ساتھ کام کرنا چاہئے تھا شاید اس میں تھوڑی سی کمی رہ گئی۔۔۔حالانکہ یہ بات
ضرور ہے کہ اس نے اپنے تمام پرانے قلعوں پر کامیابی حاصل کرلی لیکن وہ جوش
اور ولولہ دیکھنے نہیں ملا جو اس بار ہونا چاہئے تھا۔کیونکہ اس بار بی جے
پی نے اپنی پوری اعلی کمان حیدرآباد میں اتار دی تھی۔
مجھے لگتا ہیقصور کہیں نہ کہیں ہمارے اپنے لوگوں کا ہے کیونکہ مجلسی ذمہ
داران نے حد سے زیادہ محنت کی لیکن لوگوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ اس بار
تو ایسا ہونا چاہئے تھا کہ۵۱ کی ۵۱ سیٹیں مجلس جیت جاتی کیوں کہ جس طرح سے
اس ملک میں اقلیتوں کا دائرہ تنگ سے تنگ کردیا جارہا ہے کبھی سی اے اے
قانون ، این پی آر اور این آر سی کو زبردستی تھونپا جارہا ہے ، گائے کے نام
پر مسلمانو ں کی ماب لنچنگ ہورہی ہوں ،مسلم بچیوں کے ساتھ ریپ یوگ کیا
جارہا ہوں اور ہر بار اس طرح کا احساس دلایا جارہا ہے کہ وہ دوسرے درجہ کے
شہری ہیں ایسے میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ٹی آر ایس پچھلی بار سے زیادہ
نشستوں پر کامیاب ہوتی اور مجلس اپنے ۵۱ کی۵۱ سیٹوں پر قبضہ جما
لیتی۔۔۔ووٹنگ فیصد اتنا بڑھ جانا چاہئے تھا کہ سب کی نظریں پھٹی کی پھٹی رہ
جاتی۔۔۔مگر بجائیجمہوریت کے دستوری حق کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیاجاتا
وہاں ہمارے اپنے سوتے رہے۔۔انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلم
ووٹرس کی تعداد ہربار گھٹتی جارہی ہے۔
لیکن خواب غفلت میں سوئی ہوئی ہماری قوم کو فی الحال اور سونے دیا جانا
چاہئے تاکہ جب معاملہ ان کی گردن تک نہیں پہنچتا تب تک وہ جاگیں گے نہیں۔
صبح توسٹ دوپہر میں گوشت اور شام میں بیہوش۔۔۔۔بس یہی کام اب ہمارے رہ گئے
ہیں۔۔۔۔
خیر ہماری قوم کا یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔۔۔خیر میں یہ نہیں کہہ رہا کہ
مجلس نے اچھی کامیابی حاصل نہیں کی بلکہ بہت زبردست کامیابی حاصل کی۔۔۔لیکن
وہ مزہ نہیں آیا جو ٹی آر ایس کی شاندار جیت کے ساتھ آسکتا تھا۔۔۔کیونکہ
بھروسہ نہیں کب ٹی آر ایس کے پلیئر اپنا خیمہ چھوڑ کر بی جے پی کے خیمہ میں
جابسے۔۔۔۔اسی لئے یہ چیز میں بار بار بول رہا ہوں۔۔۔
کیونکہ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ ملک میں اکثر پارٹیاں نظریاتی اختلاف کے
باوجود جب کسی ایک طاقت کو ابھرتی ہوئی دیکھتی ہے تو اس کی ہوکر رہ جاتی ہے
بظاہر وہ آپ کو ایسا لگے گا کہ دیگر پارٹیاں ایک دوسرے کی مخالفت کرتی ہے
ایک دوسرے کو کاٹنے کے لئے دوڑتی ہے لیکن جب وقت آتا ہے تو سب اس طاقت کو
او رمضبوط کرنے کے لئے ایک جگہ اکٹھے ہوجاتے ہیں۔۔۔کیونکہ کافر کیا ہوتا ہے
یہ ہم سب کو اچھی طرح سے معلوم ہے۔۔۔
بہر حال اسد الدین اویسی اور اکبر الدین اویسی کی جتنی تعریف کی جائے اتنی
کم ہے کیوں کہ انھوں نے بہت ہی دانشمندی اور ہوشیاری سے کام لیا۔کیونکہ
انہی حلقوں اور واڈروں سے اپنے امیدوار اتارے جہاں سے انہیں کامیابی کا
یقین تھا۔۔اس کے باوجود دونشستوں سے انہیں ہاتھ دھونا پڑا۔خیر کوئی بات
نہیں اب دوبار نئے دم خم کے ساتھ ہوش اور دانشمندی کے ساتھ میئرکے انتخاب
پر توجہ دینا ہوگی۔
کیونکہ دوستو زعفرانی سائے ہمیشہ خطرناک ثابت ہوئے ہیں یہ ہمیشہ کسی طوفان
کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ اب ایسے میں ٹی آر ایس اور مجلس کو مل بیٹھ کر اپنی
انا کو ختم کرتے ہوئے ایسی حکمت عملی تیار کرنا ہوگی کہ میئر بھلے ہی ٹی آر
ایس کا ہو لیکن ڈپٹی میئر مجلس کا ہی بنے۔۔۔۔اور اس سے پہلے ٹی آر ایس کے
ذمہ داران کو اور اسد الدین اویسی کو اس بات کی طرف زیادہ توجہ دینی ہوگی
کہ کوئی اپنی لنکا کو ہی آگ نہ لگادے۔
بہر حال مجلس اتحاد المسلمین کو جیت کی بہت بہت مبارکباد اور ٹی آر ایس کے
لئے محترم ندیم شاد کا ایک شعر عرض ہے کہ
سبب تلاش کرو اپنے ہار جانے کا۔۔۔کسی کی جیت پہ رونے سے کچھ نہیں ہوتا
جی ہاں دوستو ہمیں اور ٹی آر ایس کو بھی ہر معاملے میں سامنے والی کی جیت
پر رونے کے بجائے اپنی ہار کا سبب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اور پھر ایک نئے
جوش اور ولولہ کے ساتھ پھر ایک نئی منزل کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔ میری
جانب سے پھر ایک بار مجلس کے تمام سپاہیو ں کو بہت بہت مبارکبادپیش کرتا
ہوں اورمستقبل کے لئے نیک تمنائیں دیتا ہوں۔
اﷲ سے دعا ہے کہ اﷲ ظالموں کو یاتو ہدایت دے دے یا پھر ان کے جلدی خاتمہ کے
فیصلے فرمادے۔اور مسلمانوں کو سیاسی شعور عطا فرمانے کے ساتھ ساتھ ہر
اعتبار سے چاق وچوبند رہنے کی توفیق عطا فرما۔۔۔اﷲ آپ تمام کو اپنی حفظ
امان میں رکھے۔۔۔بولا چالا معاف کرا۔۔۔زندگی باقی تو بات باقی۔۔۔رہے نام اﷲ
کا۔۔۔۔اب سید فاروق احمد کو دیجئے اجازت۔۔۔اﷲ حافظ۔۔۔السلام علیکم ورحم? اﷲ
وبرکاتہ۔۔۔۔
|