فاروڈ کہوٹہ تحصیل حویلی سے ضلع حویلی تک

عوامی مسائل اور ان حل کے امکانات

جوںجوں آزاد کشمیر اسمبلی کے الیکشن قریب آرہے ہیں سیاسی گہما گہمی نے خطہ کشمیر کی رونقوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے ۔ہر امید وار نے بلند و بالا دعوُؤں کے ساتھ عوام کواپنی طرف متوجہ کرنا شروع کردیا ہے یہ کس حد تک اس میں کامیاب ہو تے ہیں اس کے بارے میں اس وقت کچھ نہیں کہا جاسکتا اس کا اصل فیصلہ عوام نے کرنا ہے ۔سیاسی قائدین کا مقصد اپنے حلقے کا رخ کرناعوام سے ووٹ لیکر اسمبلی کے مزے لوٹنا یا عوام کی خدمت کرنا ہے اس کی حقیقت کا اندازہ عوام کو بھی ہے اور خود سیاسی قائدین پر بھی یہ بات عیاں ہے کہ سیاسی کامیابی عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرنے میں ہی ہے اصل عوامی نمائندہ عوام سے کئے گئے وعدے پورا کرتا ہے اور منتخب مدت کے بعد اپنے آپ کو عوامی عدالت میں پیش کرتا ہے اس کے بعد عوام اس کا انتخاب کرتے ہیں۔

آزاد کشمیر کے دیگر حلقوں کی طرح حویلی بھی ایک انتخابی حلقہ ہے حویلی ایک خوبصورت اور صحت افزاءمقام اور خوبصورت وادیوں پر مشتمل ایک خطہ ہے جو اپنے قدرتی حسن میں اپنی مثال آپ ہے حویلی کی تاریخ کے حوالے سے بات کی جائے تو اس کی اپنی تاریخ پرانی ہے اس کی تاریخ کچھ یوں ہے یہاں کے ایک مسلمان وزیر میاں نظام الدین گزرے ہیں جن کے نام سے ایک بڑی عظیم الشان عمارت میاں نظام الدین کی حویلی کے نام سے تعمیر ہوئی اس کے قریب ایک مسجد بھی انہی کے نام سے بنائی گئی۔ اس عظیم الشان عمارت کے نام پر پونچھ کی مرکزی تحصیل کا نام بھی حویلی پڑ گیا۔

ضلع حویلی باغ کے ساتھ ملحق ہے اس کی آبادی84دیہات اور 1,50,000سے زائد نفوس پر مشتمل ہے حویلی(کہوٹہ) کا کل رقبہ598مربع کلو میٹر ہے یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش کا شت کاری ہے آبادی کا ایک بڑا حصہ تدریس کے پیشے سے منسلک ہے یا پھر لوگ فوج میں جانا پسند کرتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو تحریک آزادی کشمیر میںحویلی کے سپوتوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے اور محاذ کشمیر پر بڑی جرات اور بہادری سے لڑے ہیں ۔

زیر تحریر صفحات میں میری کوشش ہوگی کہ آزادکشمیر کے نوزائیدہ ضلع حویلی کی سیاسی تاریخ ،سیاسی حقیقت اور آئندہ سیاسی موسم کو عوام الناس تک پہنچا سکوں۔ حویلی جو پہلے ایک تحصیل تھا اور کافی عرصے تک ضلع باغ کی تحصیل ہی رہا۔ ایک دور تھا جب حویلی کے انتظامات باغ سے چلائے جاتے تھے انتظامی مشینری کا سارا کنٹرول باغ سے کیا جاتا تھا ضلع باغ اور ضلع حویلی کے عوام کے ایک دوسرے سے گہرے تعلقات استوار ہوئے لیکن جب دونوں اضلاع کی آبادی بڑھی تو ایک نئے ضلع کی ضرورت محسوس کی گئی۔

تحصیل حویلی نے بہت سارے سپوتوں کو جنم دیا جن میں ممتاز حسین راٹھور مرحوم، مولانا عالم رضوی، چوہدری محمد انور سابقہ ایڈمنسٹریٹر، ٹاﺅن کمیٹی کہوٹہ، چوہدری محمد اختر ایڈووکیٹ ممبر بار کونسل آزادکشمیر اور موجودہ دور حکومت کے سینئر وزیر چوہدری محمد عزیز شامل ہیں۔

اگر شرح خواندگی کے حوالے سے بات کی جائے تو حویلی کو اس میں بھی اعزاز حاصل ہے کہ علم و دانش کا گہوارہ رہا ہے اس سرزمین نے بہت سی علمی شخصیات پیدا کیں ان میں چراغ حسن حسرت جیسی علمی شخصیت کا پیدا ہونا کسی اعزاز سے کم نہیں ہے جنہوں نے تحریر وبیان سے اس علاقے کی نیک نامی میں اضافہ کیا سردار محمد اقبال خان ریٹائرڈ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بھی تحصیل حویلی کے ہی ایک سپوت تھے اور ملک کے اعلیٰ پائے کے قانون دانوں میں شمار کئے جاتے ہیں اسی خاک عزیمت نے حافظ محمد یعقوب ہاشمی جیسے ذہین و فطین افراد پیدا کیے۔

تحصیل حویلی سے ضلع حویلی کا سفر ایک کٹھن سفر تھا یہ ایک پر خطر تحریک تھی ضلع حویلی کی تحریک کے محرک ممتازحسین راٹھور تھے لیکن ان کی زندگی میں یہ خواب ہی رہا دلچسپ بات ہے کہ ان کے خواب کو ان کے سیاسی حریف نے شرمندہ تعبیر کر کے یہ ثابت کردیا کہ کشمیریوں میں سیاسی اختلاف تو ہوسکتا ہے لیکن عوامی مسائل کو یکساں طور پر اہمیت دی جاتی ہے اور عوامی مسائل کے لیے قائدین کی سوچ ایک جیسی ہے۔

ضلع حویلی کا سرکاری نوٹی فیکیشن موجودہ حکومت کے عہد میں کیا گیا اور اس طر ح حویلی کے عوام کا ایک درینہ مطالبہ پورا ہو گیا چوہدری محمد عزیز اس حلقے سے منتخب ایم ایل ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ان کی کاوشوں کا نتیجہ ہے اور انہوں نے ایک بڑا عوامی مطالبہ اور وعدہ پورا کیا ہے لیکن اس عوامی تحریک کی کامیابی میں ان کو اپنے سیاسی حریفوں کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے اور ایک ٹیم کی طرح کام کیا گیا کہ کریڈٹ کے اصل حقدار چوہدری صاحب ہی ہیں جنہوں نے اس عوامی مطالبے کو حکومتی سطح پر اٹھایا اور اس کی منظوری لینے میں کامیاب ہوئے اس عظیم مقصد میں سر خروئی پر وہ واقعی طور پر قابل مبارکباد ہیں۔

کم وپیش تین مرتبہ قائم مقام وزیراعظم آزادکشمیر رہ چکے ہیں ان کی کوشش اور لگن سے حویلی کو ضلع تو بنا دیا گیا لیکن حویلی کے مسائل آج بھی ان کی خاص توجہ کے طالب ہیں ضلع کا درجہ ملنا ایک بڑا کام ہے لیکن بنیادی سہولیات کا فقدان ایک بہت بڑ ا المیہ ہے اور توجہ کا طالب ہے۔جناب چوہدری صاحب کے عرصہ اقتدار میں وہ تعلیمی میدان میں کوئی ایسا کام نہیں کر سکے جو قابل ذکر ہو ما سوائے سیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر من پسند لوگوں کو نوازنا چوہدری صاحب کاایک بڑا سیاسی کارنامہ ہو سکتا ہے لیکن کیا اس سے نیچے طبقے کے لوگوں کو کوئی فائدہ پہنچا ہے ؟اس سوال کا جواب شاید موصوف کے پاس ہے نہیں یا کسی سیاسی مصلحت کی بنیاد پر وہ دینا گوارہ نہیں کرتے۔

آج کے ترقی یافتہ دور میں ہر چیز انسان کی دسترس میں ہے لیکن یہاں کے لوگوں کی زندگیوں کو دیکھ کر ہر باشعور انسان با آسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ لوگ پتھر کے زمانے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں یہاں کے غیور عوام آج بھی دئیے کی روشنی میں اپنی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے پن بجلی کا منصوبہ گزشتہ کئی دہائیوں سے کھٹائی کاشکار ہے یا اخبارات کی سرخیوں کی زینت بنا ہوا ہے اس سے پہلے حویلی کی عوام کے لیے ہجیرہ اور عباسپور کے گرڈ سٹیشن سے بجلی سپلائی کی جاتی تھی جوسیاسی کشمکش کا شکار ہے اگر پن بجلی کا منصوبہ جو کہ چھانجل کے مقام زیر تکمیل ہے اگر عوام الناس کو اس سے صحیح طور پر مستفید کیا جائے تو یہاں کے مسائل کو کسی حد تک حل کیا جا سکتاہے ۔

حویلی میں اس وقت ایک 15-20بیڈز پر مشتمل ہسپتال ہے جو ایک تحصیل کے مریضوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی ناکافی ہے دوسری طرف ہسپتال میں موجود سہولتوں کی بات کی جائے تو ہسپتال میں نمایاںسہولت ایک میڈیکل سٹور ہی کی نظر آتی ہے جس میں صرف گنی چنی ادویات ہی دستیاب ہیں حتی کہ زندگی بچانے والی ادویات نایاب ہیں جبکہ ہسپتال کا عملہ بھی مریضوں کے لیے دستاب نہیں ہوتا ہے دور دراز سے آئے ہوئے بزرگ مرد و خواتین و بچے پورا پورا دن انتظار کرتے ہیں اگرا تفاق سے ڈاکٹر صاحب کرسی پر براجماں ہوں تو مریضوں کی خوش قسمتی ، نہیں تو ہسپتال کا عملہ ہی کافی ہے۔ اس طرح اگر زچہ بچہ کے لیے خواتین ڈاکٹرز کی بات کی جائے تو یہاں کے لوگوں کے لیے مذاق سے کم نہیں ہوگا۔ ایمبولینس کی سہولت موجود تو ہے لیکن ایمبو لینس مریضوں کے بجائے ڈاکٹر صاحبان کے گھریلو مسائل حل کرنے میں زیادہ مصروف رہتی ہے۔ اگر اتفاق سے ایمبولینس فارغ ہو تو عام لوگوں کی دسترس سے باہرہے۔ ہسپتال کی نئی عمارت ایراءنے تعمیر کی جو کہ نہایت ہی خوبصورت ہے لیکن چراغ تلے اندھیرا والی صورتحال عام ہے۔

فارورڈ کہوٹہ کے علاوہ اس کے مضافات میں خوبصورت اور دلکش ڈسپنسریاں موجود ہیں مریض تو علاج کی غرض سے ڈسپنسری کا رخ کرتے ہیں لیکن وہاں پر ڈاکٹرز موجود ہیں نہ ہی ڈسپنسرز ۔ڈسپنسری کا چھوٹا عملہ مریضوں کا استقبال کرتا ہے اور مریض مایوس ہو کر پرائیویٹ کلینک کا رخ کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ٹاﺅن کی تعمیر کا کام بھی غیر تسلی بخش ہے ٹاﺅن کے لوگوں کے لیے پانی کی کوئی سکیم نہیںہے ٹاون اےرےا کی واحد واٹرسپلائی سکےم جو واٹر سےکم تو بنا دی گئی لیکن سپلائی سکیم نہ بن سکی اس بڑی واٹر سپلائی سکیم کے پانی کا نلکہ چوہدری صاحب کی رہائش گاہ کے قریب ہی نصب کر دیا گیا جہاں عوام ایک قطار کی صورت پانی کے لیے اپنی باری کا انتظار کرتے رہتے ہیں لیکن اب تک ان کا یہ مسئلہ جناب چوہدری صاحب کی نظر کرم کامحتاج ہے کہوٹہ روڈ کی تعمیر بھی مایوس کن ہے اور فارورڈ کہوٹہ کے مرکزی بازار میں صفائی کا انتظام بھی غیر تسلی بخش ہے۔

چوہدری صاحب نے حویلی کو ضلع بنا کر لوگوں پر بڑا احسان کیاہے لیکن محض ضلع بنانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ضلع کے برابر سہولتیں دینا بھی موصوف کی ذمہ داری ہے اگر یہی حالت رہی تو یہ ضلع ایک دن ویران حویلی بن جائے گا ہم امید کرتے ہیں چوہدری صاحب پورے عزم و یقین سے اس کی تعمیر و ترقی اور مسائل کے حل کے لیے دن رات کا م کریں گے۔
Ashfaq Ahmed Chohan
About the Author: Ashfaq Ahmed Chohan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.