وزیر اعظم پاکستان سید یوسف
رضاگیلانی سے ہماری پرانی یاد اللہ ہے ۔ایک ہی شہر سے تعلق کی وجہ سے
گیلانی صاحب سے دیرینہ مراسم ہیں ۔ان سے ملاقاتیں تو کوئی نئی بات نہیں
لیکن جن حالات اور جس ماحول میں گزشتہ روز وفاق المدارس کے ایک وفد کے
ہمراہ وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی وہ خاصی اہمیت کی حامل ہے ۔اس ملاقات میں
چونکہ مدارس دینیہ کے حوالے سے ،جنوبی پنجاب کے مسائل اور دیگر کئی قومی
ایشوز پر تبادلہ خیال ہوا اس لیے اس ملاقات کی تفصیلات سے قارئین کو آگاہ
کرنا ضروری ہے ۔وزیراعظم سے ملاقات کے دوران ہمارے سترہ رکنی وفد میں
مولانا نجم الحق ، مولانا محمد نواز،مولانا عبدالحق مجاہد ،مولانا ارشاد
احمد ،مولانا زبیر احمد صدیقی ،مولانا محمد طیب حنفی،مفتی ظفر اقبال،قاری
محمد میاں ،مولانا عبدالرحمن جامی ،مولانا پروفیسر محمد مکی ،مولانا
عبدالمجید ،مفتی خالد محمود ،مولانا مفتی مظہر شاہ ،مولانا خلیل الرحمن
درخواستی ،مولانا عامر فاروق اور قاری امان اللہ شامل تھے۔رسمی گفتگو کے
بعد دینی مدارس کے کردار وخدمات کے حوالے سے بات چیت کا آغاز ہوا تو میں نے
وزیر اعظم سے کہا کہ اپنے خاندانی ،علاقائی ،سیاسی اور شخصی پس منظر کے
حوالے سے آپ مدارس کے کردار وخدمات سے تو بخوبی واقف ہیں لیکن ہم جس پہلو
کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ مدارس دینیہ کے خلاف
بالکل بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے ،مدارس پر دہشت گردی میں ملوث ہونے
کے جھوٹے الزامات عائد کیے جاتے ہیں ۔جب سے مدارس پر ان الزامات کا سلسلہ
شروع ہوا اس وقت سے ہم مسلسل کہہ رہے ہیں کہ بے بنیاد پروپیگنڈے اور جھوٹے
الزامات کی بنیاد پر اہلِ مدارس پر عرصہ حیات تنگ نہ کیا جائے لیکن ہماری
کسی نے نہیں سنی اور ان الزامات کا دائرہ وسیع ہوتے ہوتے اب صورتحال یہ ہے
کہ ہماری حکومت ،ہماری فوج ،آئی ایس آئی اور دیگر حساس ادارے حتیٰ کہ پوری
قوم طرح طرح کے الزامات کی زد میں ہے ۔اگر ہم پہلے مرحلے پر ہی مدارس کے
بارے میں الزامات اور پروپیگنڈے کو مسترد کر دیتے اور مدارس کے کردار
وخدمات کادفاع کرتے تونوبت یہاں تک نہ آتی ۔اس پر وزیر اعظم نے کہا کہ” ہم
مدارس دینیہ کے کردار وخدمات کے تہہ دل سے معترف ہیں اور ان اداروں کو دین
اسلام کی اشاعت کے مراکز سمجھتے ہیں ۔مدارس کے بارے میں پھیلائی جانے والی
غلط فہمیوں پر یقین نہیں رکھتے اور اربابِ مدارس کے ساتھ مفاہمت اور باہمی
تعاون کے خواہاں ہیں ۔“
اس موقع پر ہم نے زبانی اورتحریری طور پر وزیر اعظم کے سامنے جو معروضات
اور مطالبات پیش کیے وہ حسب ِذیل ہیں
٭....دینی مدارس کے بارے میں حکومتی پالیسیوں کو صحیح ٹریک پر لایا جائے ۔
ان پالیسیوں کومذہبی بنیادو ں پر استوار کیا جائے اور ان میں مفاہمت ،خیر
خواہی اور گفت وشنید کا عنصر شامل کیا جائے کیونکہ بعض اوقات اہلِ مدارس یہ
محسوس کرتے ہیں کہ مدارس کے بارے میں حکومتی پالیسیاں یا تو بیرونی ہدایات
وخواہشات کے زیرِ اثر ہیں یاپھر مخالفت ومخاصمت پر مبنی ہیں ۔یہ پالیسیاں
اہلِ مدارس کے ساتھ امتیازی سلوک اور دھونس ودباؤ کے گرد گھومتی ہیں
حالانکہ آپ کی حکومت اور آپ کی پارٹی کی جو قومی مفاہمت کی پالیسی ہے اس کے
تحت بھی یہ لازمی امر ہے کہ مدارس دینیہ اور مدارس سے منسلک مذہبی طبقے کے
ساتھ بھی وہی مفاہمانہ رویہ روا رکھا جائے ۔
٭....دینی مدارس چونکہ تعلیمی ادارے ہیں اس لیے مدارس کے معاملات اور
پانچوں مکاتب فکر کے مدارس کی نمائندہ تنظیموں پر مشتمل اتحاد کے مذاکرات
وغیرہ کے امور وزارت داخلہ یا کسی اور وزارت کی بجائے وزارت تعلیم کے سپر د
کیے جائیں ۔
٭.... اب تک وزارت داخلہ اور دیگر حکومتی اداروں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات
اور معاہدات پر عملدآمد کو یقینی بنایاجائے ۔
٭....ایسے غیر ملکی طلباءجن کے پاس این اوسی اوردیگر جملہ مطلوبہ دستاویزات
موجود ہوں ان کی مدارس میں داخلوں اور پاکستان آمد میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے
۔
٭.... طے شدہ معاہدوں کے تحت مدارس پر بلاوجہ چھاپوں اور قانون نافذ کرنے
والے اداروں کی بے جا آمد ورفت بند کی جائے ۔اگر کسی مدرسہ کے کوائف مطلوب
ہوں یا کسی مدرسہ کی انتظامیہ یا طلباءمیں سے کسی کے بارے میں کو ئی شکایت
ہو تو ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ وفاق المدارس سے رجوع کیا جائے ۔براہ راست اور
بلاوجہ کے چھاپوں ،آئے روز کی کوائف طلبی اور قانون نافذکرنے والے اداروں
کی بے جا مداخلت کی وجہ سے باہمی اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے اور حکومت
اور مذہبی طبقے کے درمیان محاذ آرائی کی فضا بھی پیدا ہوتی ہے جو اس نازک
دور میں بہت تشویشناک اور خطرناک ہے ۔
٭.... ملک بھر میں اہلِ مدارس قیامِ امن اور استحکام پاکستان کے لیے قانون
نافذکرنے والے اداروں سے ہر ممکن تعاون کررہے ہیں بالخصو ص شورش زدہ علاقوں
میں مدارس کی انتظامیہ کا تعاون مثالی ہے۔ اس لیے آپریشن سے متاثرہ اضلاع
میں طلباءکے تعلیمی سلسلے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالی جائے اور نہ ہی
اقامتی مدارس کو ختم کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں ۔
٭....بعض یونیورسٹیاں اور دیگر سرکاری ادارے مدارس کی شہادة العالمیہ
(مساوی ایم اے ) کی ایچ ای سی سے منظور شدہ سند کو عملاً تسلیم نہیں کرتے
اور مدارس کے طلباءکے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتے ہوئے مدارس کے فضلا ءکے
لیے تعلیم اور ملازمت کے دروازے بند کر دیتے ہیں ۔اس صورتحال کا نوٹس لیا
جائے اور سند کی تسلیم شدہ حیثیت کو عملا ً بھی منوایا جائے ۔
٭....طالبات کی عالمیہ کی سند کو بھی طلباءکی طرح ایم اے کے مساوی تسلیم
کیا جائے ۔
٭....دینی مدارس کے خلاف میڈیا کے پروپیگنڈے کا نوٹس لیا جائے بالخصوص
جنوبی پنجاب سے تعلق اور یہاں کے حالات اور کلچر سے اچھی طرح آگاہی کی بنا
پر اس خطے کے مدارس کے بارے میں بے بنیاد میڈیا مہم کے اثرات زائل کرنے کے
لیے اقدامات کیے جائیں ۔خصوصی طورپر ایسے ڈراموں ،فلموں ،رپورٹوں ، ٹاک شوز
اور دیگر نشریاتی مواد پر پابندی عائد کی جائے جو مدارس کے بارے میںبے
بنیاد مفروضوں ،غلط اطلاعات اور جھوٹے الزامات پر مبنی ہو۔
وزیراعظم نے ہمارے تمام مطالبات کو انتہائی توجہ اور انہماک کے ساتھ سنا
اور فوری طور پر تمام مطالبات کی منظوری دیتے ہوئے ہدایات جاری کیں ۔انہوں
نے وزیر داخلہ سے کہا کہ وہ مدارس کی قیادت کو اعتماد میں لیں ،بالخصوص
مدارس اور حکومت کے مابین طے شدہ معاہدوں پر عملدرآمد کی فوری حکمت عملی
وضع کی جائے اور آئندہ کے لیے مدارس کے بارے میں جملہ مذاکرات ومعاملات میں
وزارتِ تعلیم کے ذمہ داران اور عہدیداران کو بھی شامل کیا جائے ۔وزیر اعظم
نے ملک کے مختلف علاقوں میں مدارس پر بلاجواز چھاپوں اور کوائف طلبی کے نام
پر اہل مدارس کو ہراساں کرنے کا بھی سختی سے نوٹس لیا اور کہا کہ اس قسم کے
اشتعال انگیزاقدامات سے گریز کیا جائے اور مدارس کے جملہ معاملات افہام
وتفہیم اور وفاق المدارس کو اعتماد میں لے کر حل کیے جائیں ۔وزیراعظم نے
وفاق المدارس کے وفد کو یقین دہانی کروائی کہ این او سی اور مطلوبہ
دستاویزات کے حامل غیر ملکی طلباءکی پاکستان آمد اور داخلوں میں کسی قسم کی
رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی ۔انہوں نے کہا کہ تمام سرکار ی اداروں بالخصوص
تعلیمی اداروں کو اس بات کا پابند بنایا جائے گا کہ وہ مدارس کی درجہ
عالمیہ کی سند کو ایم اے کے مساوی تسلیم کریں اورمدارس کے فضلاءکے ساتھ
امتیازی سلوک نہ کریں ۔انہوںنے آپریشن سے متاثرہ علاقوں کے مدارس کے تعلیمی
عمل اور اقامتی مدارس کے حوالے سے کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالنے کا بھی وعدہ
کیا۔
اس موقع پر دینی مدارس کے مسائل ومشکلات کے علاوہ بھی چند قومی اور مذہبی
نوعیت کے امور زیر بحث آئے ۔ایک تو ہم نے یہ مطالبہ کیا کہ اٹھارویں ترمیم
کے تحت وزارتِ تعلیم کی صوبوں کو منتقلی وفاق پاکستان اور قومی ہم آہنگی کے
منافی ہے اس لیے کم از کم نصاب سازی کا عمل وفاقی سطح پر ہی سرانجام دیا
جانا چاہیے۔وزیر اعظم نے اس مطالبے پر بھی سنجیدگی سے غور کرنے اور اسے
تسلیم کرنے کا عندیہ دیا۔ اس کے علاوہ جنوبی پنجاب کے حولے سے ایک اہم
عوامی اور مذہبی مسئلے کی طرف وزیر اعظم کی توجہ مبذول کروائی گئی کہ
سرکاری اور پرائیویٹ حجاج کرام کی بڑی تعداد جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتی ہے
اور انہیں لاہور ،کراچی اور اسلام آبا د جاتے ہوئے کافی مشکلات کا سامنا
کرنا پڑتا ہے اس لیے ملتان سے براہِ راست حج پروازیں شروع کی جائیں اور
ملتان میں حجا ج کمپلیکس قائم کیا جائے۔ وزیر اعظم نے ان دونوں امور کا بھی
فوری اعلان فرمایا ۔
یوں مجموعی طور پر یہ ملاقات انتہائی خوشگوار اور کامیاب رہی ۔اب ضرورت اس
اَمر کی ہے کہ وزیر اعظم کی طرف سے تسلیم کیے گئے تمام مطالبات ،ان کے جملہ
وعدوں اور ان کی تمام یقین دہانیوں پر عملدآمدکو یقینی بنایا جائے اور
ریاست کے تمام کل پرزے بالخصوص بیوروکریسی اورقانون نافذ کرنے والے ادارے
اس ملاقات کی روشنی میں مدارس کے بارے میں درست نہج پر اپنی پالیسیاں تشکیل
دیں ۔ ان وعدوں اور ارادوں کی تکمیل کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی بجائے ان
پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں تب انشاللہ اس ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔ |