اپوزیشن کے جلسے حکومت اور عوام

اگر موجودہ سیاسی منظر نامے کا مطالعہ کریں تو دکھائی دیتا ہے کہ اس وقت ملک کے سیاسی درجہ حرارت میں بہت زیادہ اضافہ ہوچکا ہے،اپوزیشن جماعتیں جلسوں پر جلسے کر رہی ہیں، جو کہ اپوزیشن کرتی ہے، اپوزیشن جماعتوں نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے جو تحریک شروع کی ہے وہ فی الحال تو کامیابی کے ساتھ جاری ہے اور اس میں شامل تمام جماعتیں یک زبان ہوکر حکومت کے خلاف سرگرم ہیں اور عوامی طاقت کے ذریعے حکومت کو گھر بھیجنے کیلیے پرعزم ہیں،اپوزیشن جماعتیں اچھے خاصے بڑے جلسے کررہی ہیں جن میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہورہے ہیں۔ پہلا جلسہ گوجرانوالہ میں کیاجس میں عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور اپوزیشن جماعتوں کے حوصلے بلند ہوئے،اس کے بعد کراچی کا جلسہ بھی کامیاب رہا جبکہ ملتان جلسے کی اجازت نا ملنے کی صورت میں بھی جلسہ کیا گیا اور اب اپوزیشن لاہور جلسے کے لیے بھی سرگرم ہے اور ھکومت کو گھر بھیجنے کے لیے پر عزم نظرآتی ہے، اپوزیشن جماعتیں مزید جلسے کرکے حکومت کے خلاف تحریک کو مزید تیز کرنے کیلیے پرجوش ہیں، جو حکومت کیلیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے،اپوزیشن جماعتیں جلسوں میں کیا تقاریر کرتی ہیں یا میاں نواز شریف نے اداروں بالخصوص فوج کے خلاف کیا زبان استعمال کی؟ فی الوقت تو اس گفتگو کا موقع نہیں ہے، ابھی تو میں فوج کے ان جوانوں کیلیے غمزدہ ہوں جو چند روز قبل وزیرستان اور گوادر میں دہشتگردوں کی کارروائیوں میں جام شہادت نوش کرگئے اور یقیناً ہر پاکستانی اپنے ان جوانوں کیلیے فکرمند ہے جو دہشتگردوں کے خلاف محاذ پر ہیں، اﷲ رب العزت ان کی حفاظت فرمائے،یہاں اس گفتگو کو میں زیادہ ضروری سمجھتا ہوں کہ اپوزیشن تو جلسے کر رہی ہے اور حکومت پر تنقید بھی کر رہی ہے، جو کہ ہمیشہ ہوتا ہے۔ لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ حکومت کیا کر رہی ہے؟ ہمارے وزرا ء کو کس کام میں لگا رکھا ہے؟ وہ بس اپوزیشن کے جلسوں پر تبصرے کر رہے ہیں، کوئی تو ان کے اعداد و شمار جاری کر رہا ہے اور کوئی اپوزیشن رہنماؤں کی تقاریر کا پرچار کررہا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ کوئی شخص اپوزیشن رہنماؤں کی تقاریر نہیں سن سکتا یا ان کی طوالت کی وجہ سے سننا پسند نہیں کرتا تو وہ وفاقی وزرا ء کے بیانات سن لے، اپوزیشن رہنماؤں کی تمام تقاریر کا خلاصہ سمجھ میں آجائے گا۔ اپوزیشن رہنما جلسہ کرکے گھروں کو چلے جاتے ہیں، اس کے بعد دو چار روز تک وزیر اور مشیر اس پر بیانات دیتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ گلاا جلسہ آجاتا ہے اور وزرا ء کو نیا کام مل جاتا ہے، وہ جلسوں کے بعد ان کے متعلق بیانات داغتے رہتے ہیں۔حکومت کیلیے کرنے کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ اپوزیشن کے جلسوں میں جو لوگ شریک ہورہے ہیں ان کے مسائل کیا ہیں؟ وہ ہماری جماعت کو چھوڑ کر دوسری جماعتوں میں کیوں اتنی بڑی تعداد میں شرکت کرتے ہیں؟ کیونکہ عوام کی بڑی تعداد جلسوں میں موجود ہوتی ہے چاہے حکومت مانے یا نہ مانے حکومت کی طرف سے جو تعداد بتائی جاتی ہے اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوتی ہے اور اپوزیشن کی جانب سے جو تعداد بتائی جاتی ہے اصل تعداد اس سے کم ہوتی ہے اس لیے اصل تعداد کو ان دونوں کے درمیان میں سمجھنا چاہیے، بہرحال ہزاروں لوگ اپوزیشن کے جلسوں میں شریک ہوتے ہیں اور لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں، کیونکہ لاتعداد افراد ایسے ہوتے ہیں جو جلسوں میں شرکت کرنے والوں کی طرح ستائے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کی طرح کے نظریات رکھتے ہیں لیکن کسی وجہ سے جلسوں میں شرکت نہیں کرسکتے یا نہیں کرنا چاہتے، اس لیے شرکت کرنے والے افراد ان کی بھی نمائندگی کررہے ہوتے ہیں، اگر اپوزیشن کے حالیہ جلسوں میں عوام کی شرکت کی وجہ جاننے کی کوشش کی جائے اور وہاں موجود افراد کی اکثریت مہنگائی کا رونا روتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ ہم مہنگائی کے ستائے ہوئے ہیں، اس لیے اس حکومت سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔وزیراعظم صاحب اور وزرء ا تو انہیں اپوزیشن جماعتوں کے کارکن سمجھتے ہیں اور یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ انہیں لالچ دے کر یا بہکا کر یہاں لایا گیا ہے لیکن ان کی حالت زار دیکھیں تو وہ کچھ اور ہی بتاتی ہے،یہ تمام افراد جیالے نہیں ہوتے، نہ ہی اپوزیشن جماعتیں انہیں نکلنے پر مجبور کرتی ہیں، بلکہ حکومت خود ہی انہیں نکلنے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ اس طرح کہ حکومت کی غلط پالیسیاں جب ملک کے حالات خراب کرتی ہیں تو عوام تنگ ہوجاتے ہیں اور وہ حکومت کے خلاف نکلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ان میں بہت سے افراد ایسے بھی ہیں جنہوں نے گزشتہ انتخابات میں حکمران جماعت کو ہی ووٹ دیے لیکن اب وہ حکومت کی نااہلیوں کو دیکھ کر اپنے کیے پر شرمسار ہیں اور حکومت سے چھٹکارا پانے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ دے رہے ہیں،یہاں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت بنی ہی اپوزیشن کی زبانی مخالفت کیلیے ہے، بس ان کی حرکات پر نظر رکھو اور بیانات داغتے رہو، اس کے سوا کوئی اور کام نہیں کرناحکومت کو چاہیے کہ وہ اب تو سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور عوام کے حال پر رحم کھا کر کوئی ذرا سی کارکردگی تو دکھا دے۔ اپوزیشن کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑنے سے ان کی نااہلی نہیں چھپے گی، بلکہ اپنے کام پر دھیان دیجئے، اپنے اپنے محکموں کی کارکردگی کو بہتر بنائیے، عوام کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کیجئے، مہنگائی پر قابو پانے کیلیے موثر اقدامات کیجئے، بیروزگاری کے خاتمے کیلیے کام کیجئے، معیشت کو بہتر بنائیے۔ ان اقدامات سے آپ پر عوام کا اعتماد بڑھے گا اور وہ اپوزیشن کا ساتھ دینے کے بجائے حکومت کا ساتھ دیں گے اور خودبخود اپوزیشن کی تمام تحاریک ختم ہوجائیں گی۔
 

Mian Muhammad Arshad Saqi
About the Author: Mian Muhammad Arshad Saqi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.