حیدرآباد میں کیا ہوا؟ کیوں ہوا ؟ اور کیسے ہوا؟

حیدر آباد کا شمار ملک 14 بڑی میونسپل کارپوریشن میں ہوتا ہے۔ اس کا سالانہ بجٹ 6ہزار 150 کراڈ روپئے ہے۔ اس کی آبادی تقریباً ۸۰ لاکھ ہے۔ اس شہر میں 5 پارلیمانی اور 24 اسمبلی کی نشستیں ہیں۔ یہاں پر40 فیصد سے زیادہ آبادی مسلمان ہے۔ 2007 سے اس کی میونسپلٹی کو گریٹر حیدر آباد نگر نگم کا نام دیا گیا۔ اس کے 7 زون ہیں ۔ یہاں پر ایک میئر ہوتا اور ایک ڈپٹی میئر بھی ہوتا ہے ۔ فی الحال ٹی آر ایس کے ڈاکٹر بونتھو رام موہن میئر ہیں اور ان کے ڈپٹی کی ذمہ داری بابا فصیح الدین ادا کررہے ہیں ۔ اب وہ نقشہ بدل جائے گا ا اور ٹی آر ایس کے ساتھ مجلس اتحاد المسلمین ڈپٹی آجائے گا ۔ بی جے پی نے اگر اس اس انتخاب میں ٹی آر ایس کی یہ در گت نہیں بنائی ہوتی تو ایم آئی ایم کو یہ موقع نہیں ملتا ۔ بی جے پی تقدیر فی الحال اس کا ساتھ نہیں دے رہی ہے۔ بہار میں اپنا وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے نتیش کی ٹانگ کھینچ کر ان کو تیسرے نمبر پہنچایا مگر انہیں کو وزارت اعلیٰ کی کرسی سونپنی پڑی۔ حیدرآباد میں ایم آئی ایم کو تیسرے مقام پر ڈھکیلا مگر اس کو ڈپٹی میئر کے عہدے کا حقدار بنا دیا ۔ اس طرح جےڈی یو اور ایم آئی ایم کا تو بھلا ہوگیا لیکن اس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا خیر سیاست میں یہ سب لگا رہتا ہے۔ ویسے ماضی میں تو حیدرآباد کے اندر ایم آئی ایم کا میئر بھی رہا ہے۔

حیدر آباد کے حالیہ انتخاب میں جو کچھ ہوا وہ اکثر لوگوں کے توقع کے خلاف تھا ۔ امیت شاہ تو اس قدر پرامید تھے کہ انہوں نے اعلان کردیا بی جے پی اپنی طاقت بڑھانے کے لیے انتخاب نہیں لڑ رہی ہے بلکہ اس بار میئر اسی کا ہوگا ۔بی جے پی کے مخالفین یہ سوچ رہے تھے یہ ان کی گیدڑ بھپکی ہے وہ لوگ 4 سے بڑھ کر زیادہ سے زیادہ 14 تک پہنچ جائیں گے لیکن ۴۸ نشستوں پر کامیاب ہوجائیں گے یہ بات کسی کے خواب و خیال میں نہیں تھی۔ 12 گنا اضافہ غیر معمولی ہے اور اس کے لیے بی جے پی مبارکباد کی مستحق ہے۔ اس بار 44 کے عدد نے بڑا کمال کیا ۔ اتحاد المسلمین کے 2016 میں 44 کونسلرس تھے وہ 44 رہے کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی ۔ٹی آر ایس کے 44 کم ہوئے اور بی جے پی کے 44بڑھ گئے اس طرح ایک 99 سے گھٹ کر 55 پر پہنچ گئی اور دوسری 4 سے بڑھ کر 48 تک چلی گئی ۔ کانگریس بھی ایم آئی ایم کی مانند 2 پر جمی رہی اس کی تعداد کوئی کمی یا زیادتی نہیں ہوئی تلگو دیسم کا ایک تھا وہ بھی ختم ہوگیا ۔

اب آئیے دیکھیں کہ یہ کیسے ہوا؟ اس کے لیے 2009کے انتخابی نتائج کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔ ٹی آر ایس چونکہ 2010 کے اندر عالم وجود میں آئی اس لیے وہ موجود ہی نہیں تھی ۔ تلنگانہ بھی نہیں بنا تھا اس لیے آندھرا پردیش کی علاقائی جماعت تلگو دیسم پارٹی تھی اور وہاں پر کانگریس کا وزیر اعلیٰ تھا ۔ اس وقت حیدر آباد میں کانگریس کو 52اور ٹی ڈی پی کو 45نشستوں پر کامیابی ملی تھی ۔ ایم آئی ایم 43 پر کامیاب ہوئی تھی اور بی جے پی 4پر تھی۔ تلنگانہ بن جانے کے بعد کے چندر شیکھر راو وزیر اعلیٰ بن گئے اور ان کی قیادت میں2016 کا الیکشن ہوا تو انہیں 99 نشستیں مل گئیں ۔ بی جے پی 4پر رہی ، ایم آئی ایم نے ایک کا اضافہ کیا اور 44 پر پہنچ گئی مگر کانگریس 2 پر اور ٹی ڈی پی ایک پر آگئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کانگریس اور ٹی ڈی پی دونوں کے تقریباً تمام ووٹ ٹی آر ایس کے کھاتے میں چلے گئے ۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہےکہ2016 میں بھی مسلمان ووٹرس تو ایم آئی ایم کے ساتھ مجتمع رہے لیکن ہندو رائے دہندگان نے بی جے پی کا رخ کرنے کے بجائے ٹی آر ایس کو ترجیح دی ۔

سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا ؟ ۲۰۱۶ میں ہندو ووٹرس نے کے سی آر کا دامن کیوں تھاما؟ وہ وزیر اعظم نریندر مودی کی بی جے پی کی جانب کیوں نہیں گئے؟ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ تلنگانہ کی تشکیل کے وقت کانگریس اور ٹی ڈی پی دونوں نے زبردست مخالفت کی اس لیے صوبے کے عوام ان سے بدظن ہوگئے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کے سی آر ماضی میں کانگریس اور ٹی ڈی پی دونوں سے منسلک رہے تھے ۔ کے چندر شیکھر راو نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز میدک ضلع میں یوتھ کانگریس کے اندر کیا تھا ۔ اس کے بعد 1983 سے 2001 تک وہ ٹی ڈی پی میں رہے ۔ اپریل 2001 میں ٹی آر ایس بناکر وہ ٹی ڈی پی سے الگ ہوگئے۔ 2004 کا انتخاب انہوں نے کانگریس کے ساتھ مل کر لڑا۔منموہن سنگھ کی یو پی اے سرکار میں ٹی آر ایس شامل تھی۔2006 میں انہوں نے کانگریس سے دامن چھڑا کرٹی ڈی پی کے ساتھ انتخاب لڑا ۔ اس کا مطلب وہ ان دونوں جماعتوں کے رائے دہندگان کی خاطرایک جانا پہچانا چہرہ تھے ۔ ان سے اس وقت بہت ساری امیدیں بھی وابستہ تھیں اس لیے کانگریس اور ٹی ڈی پی کا ووٹر ان کے ساتھ چلاگیا ۔

کے چندر شیکھر راو نے ابتدا میں تو بی جے پی سے فاصلہ بنائے رکھا لیکن وقت کے ساتھ وہ دوریا ں کم ہوتی چلی گئیں ۔ اس کا فائدہ بی جے پی کو ہوا۔ 2014کے قومی انتخاب میں بی جے پی کو صرف ایک نشست ملی تھی جو 2019میں بڑھ کر 4ہوگئی ۔ کانگریس کی 2سے بڑھ کر 3 ہوگئی اور ایم آئی ایم کی ایک نشست محفوظ رہی ۔ اس طرح وائی ایس آر کی سیٹ گویا کانگریس کے حصے میں آگئی اور ٹی آر ایس کی 2 اور ٹی ڈی پی کی ایک سیٹ بی جے پی میں چلی گئی ۔ بی جے پی کو احساس ہوگیا کہ صوبے کے عوام کے سی آر سے بیزار ہونے لگے ہیں اس کا دوسرا ثبوت اس سال نومبر کے ضمنی صوبائی انتخاب میں سامنے آیا ۔ 2018 میں بی جے پی اسمبلی کے اندرصرف ایک نشست جیت پائی تھی ۔ اس نے دوبک سےرگھو نندن راو کو امیدوار بنایا اور انہوں نے ٹی آر ایس کی امیدوار ایم سجاتا کو 1079 ووٹ سے ہرا دیا ۔ بی جے پی نے طےکیا کہ ٹی آر ایس کے خلاف عوام میں جو ناراضگی پائی جاتی اس کا حیدر آباد کے میونسپل کارپوریشن انتخاب میں فائدہ اٹھایا جائے۔ اس لیے اس نے اپنی تمام طاقت جھونک کر پورے صوبے میں ایک زبردست پیغام دے دیا۔

دوبک کی سیٹ جیتنے کے لیے بی جے پی کے نئے ریاستی صدربندی سنجے کمار نےیہ حکمت عملی اختیار کی تھی کہ گھر گھر جاکر ہندو ووٹرس کو سمجھایا ٹی آر ایس اندرونی طور پر ایم آئی ایم سے ملی ہوئی ۔ یہ حربہ کامیاب رہا اس لیے اسے حیدر آباد میں بھی آزمایا گیا ۔ انتخابی مہم کے دوران ساری توجہ ہندو رائے دہندگان پر مرکوز کی گئی۔ امیت شاہ نے ایک طرف کے سی آر کے تئیں ناراضگی کو بڑھانے کے لیے یہ کہا کہ وہ حیدرآباد کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور دوسری جانب ٹی آر ایس اور ایم آئی ایم کے پوشیدہ سمجھوتے کو انتخاب کا مدعا بنانے کی بھر پور کوشش کی ۔ بئ جے پی نے ایم آئی ایم کے رہنما اسدالدین اویسی کو جناح کہا گیا ۔ اویسی برادران کوروہنگیاا ور بنگلا دیشی دراندازوں کو پناہ دینے والا بناکر پیش کیا گیا ۔ اس طرح مقامی مسائل کو درکنار کرکے قومی مدعوں پر الیکشن لڑا گیا یہاں تک کہ پاکستان اور سرجیکل اسٹرائیک کا بھی ذکر ہوگیا۔ یوگی نے ہندوستان کے نام سے گریز اور حیدرآباد شہر کو بھاگیہ نگر بنانے کا شوشہ چھوڑا ۔ اس طرح جذباتی جنون نے بی جے پی کو فائدہ پہنچایا اور وہ ۴ سے بڑھ کر ۴۸ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی ۔

بی جے پی کی اس کامیابی کے دو پہلو اور ہیں اول تو کانگریس کی متبادل بن کر ابھرنے میں ناکامی ۔ بی جے پی چونکہ قابل ذکر قوت نہیں تھی اس لیے تلنگانہ میں ساری جماعتوں کی مخالفت کا وہ مرکز بنی رہی۔ بی جے پی کی وہ قومی حریف ہے مگر ٹی آر ایس او رایم آئی ایم کو بھی کانگریس سے ہی خطرہ ہے ۔ ان کا ووٹر کانگریس کی جھولی سے آتا ہے اور بی جے پی کے مقابلے کانگریس میں واپس جاسکتا ہے۔ اس لیےکانگریس کی مخالفت دونوں کی مجبوری تھی ۔ اب بی جے پی کے طاقتور ہوجانے سے صورتحال قدرے بدل سکتی ہے اور بی جے پی کو روکنے کے لیے ٹی آر ایس اور کانگریس میں الحاق ہوسکتا ہے۔ دوسری وجہ کے سی آر کی بی جے پی سے قربت ہے۔ ۲۰۱۹ میں اس نے تین طلاق بل کے وقت ایوان بالہ میں ووٹ دینے سے خود کو روک کر بی جے پی کی بلا واسطہ مدد کی ۔ اس کے بعد کشمیر کی دفع ۳۷۰ پر تو کھل کر بی جے پی کی حمایت کی ۔ سی اے اے کے معاملے میں بھی ٹی آر ایس پہلے ڈھل مل تھی اور قومی مفاد میں حمایت کی بات کررہی تھی لیکن پھر احتجاج کے دباو میں اس نے این پی آر کے خلاف فیصلہ کیا ۔

ایسی صورتحال میں ایک ہندو ووٹر سوچتا ہے کہ بی جے پی کے خلاف ایسی جماعت کو ووٹ دینے کا کیا فائدہ جو ایوان پارلیمان میں اس کی حمایت کردے تو کیوں نہ بی جے پی کو ہی ووٹ دے دیں ؟ اس سوال پر اگر کے سی آر نے غور نہیں کیا اور بی جے پی کی حمایت جاری رکھی تو اس کی حالت بھی مہاراشٹر کی شیوسینا یا بہار کی جے ڈی یو جیسی ہوجائے گی جو ماضی میں پہلے نمبر تھیں مگر اب دوسرے نمبر پر آگئی ہیں بلکہ نتیش تو فی الحال تیسرے پر ہیں ۔ کے سی آر کو حیدر آباد کی شکست سے عبرت پکڑنا ہوگا ورنہ وہ بھی کرناٹک کےجے ڈی ایس کی طرح ہوجائیں گے۔ بہار میں نتیش کمار 2010 میں 115 پر تھے پھر 2015میں گھٹ کر 71 اور اب 43 پر آچکے ہیں ۔ بی جے پی کے ساتھ کھلے بندوں پینگیں بڑھانے کی وجہ سے انہیں یہ دن دیکھنا پڑا۔ اب دیکھیے بی جے پی سے پس پردہکے سی آر کیدوستی کیا گل کھلاتی ہے؟ نتیش اور راو میں بہت کچھ مشترک ہے مثلاً دونوں علاقائی رہنما ہیں اور ماضی میں بی جے پی مخالف رہےہیں مگر اس کے ساتھ دوستی کرکے اپنا مستقبل تباہ کررہے ہیں ۔ نتیش نے تو خیر 15 سال حکومت کر چکے ہیں لیکن چندر شیکھر راو تو ابھی سے ہانپنے لگے۔ وہ تو خیر ایم آئی ایم نے اپنا قلعہ محفوظ رکھا ورنہ امیت شاہ کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوجاتا اور حیدر آباد میں بی جے پی کا میئر براجمان نظر آتا۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1226051 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.