آنے والے ہفتے ملکی سیاست میں اہمیت کے حامل قرار دیئے
جارہے ہیں، سیاسی صورتحال میں کسی بڑی تبدیلی کے امکانات پر ان گنت قیاس
آرائیاں ہیں، لیکن حتمی طور پر کسی بھی پیش گوئی پر یقین بھی نہیں کیا
جاسکتا، کیونکہ سیاسی پنڈت خود شش وپنج میں ہیں کہ مستقبل میں کیا منکشف
ہونے والا ہے۔ اس نسبت باریک بینی کے ساتھ سیاسی صورتحال کی ان تمام چالوں
پر سمجھنا ہوگا، جو اس وقت سیاسی بساط پر بچھا جا رہی ہے۔تاہم اس بابت کسی
غیر منطقی سیاسی پیش گوئی کرنے سے بہتر ہے کہ زمینی حقائق کو پیش ِ نظر
رکھا جائے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ تو مولانا فضل الرحمن ہیں، لیکن جلسوں سے پی پی پی کو
سیاسی طور پرمتحرک ہونے کا موقع ملا، گوجرانوالہ میں ہلچل کے بعدکراچی میں
سانحہ 18اکتوبر کے موقع پر میزبانی کا سیاسی فائدہ پی پی پی کو ملا، اسی
طرح ملتان میں پی پی پی کے53ویں یوم تاسیس پر گرم سیاسی میدان جنگ کا سیاسی
فائدہ ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کو پہنچا۔ممکنہ 27دسمبر کولاڑکانہ میں
روایتی جلسہ بھی پی پی پی کے لئے سیاسی طور پر متحرک ہونے میں مزید فائدہ
مند ثابت ہوسکتا ہے۔13دسمبر لاہور جلسہ، پی ایم ایل (ن) کی مرکزی قیادت کے
بغیر سیاسی قوت اورمستقبل کی سمت کا حقیقی تعین بھی کرے گا۔ گوجرانوالہ کے
بعد دوسرا جلسہ ن لیگ کے لئے سیاسی حکمت عملی کا امتحان بھی ہے۔(مریم نواز
کی سیاسی ریلیاں اسی سمت اشارہ کررہی ہیں)۔ پشاور و کوئٹہ جلسہ پی ڈی ایم
کی باقی ماندہ نو علاقائی (صوبائی) جماعتوں کے لئے آئیڈیل نہیں بن سکا۔
لاہور جلسے کی حکومتی غیر مشروط اجازت کے باوجود، وزیراعظم کا حالیہ بیان
دوبارہ سیاسی تناؤ کی جانب اشارہ ہے، ان کا کہنا ہے کہ”پی ڈی ایم کے لاہور
جلسے کی اجازت نہیں دیں گے لیکن رکاوٹ بھی نہیں ڈالیں گے، مگر منتظمین اور
کرسیاں لگانے والوں کے خلاف مقدمہ درج ہوگا“۔ مریم نواز کی ضمانت ختم کرانے
و جیل بھیجنے کا عندیہ بھی وزرا ء و ترجمانوں کی جانب سے آچکا، دوسری جانب
اپوزیشن کی جانب سے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا ردعمل، سیاسی تناؤ میں
عدم برداشت کے رجحان کو بڑھانے کا سبب بنے گا۔ درحقیقت یہی وجہ ہے کہ عوام
کرونا کو سنجیدہ نہیں لے رہے، کیونکہ سیاسی جماعتوں کے قول و فعل میں واضح
تضاد ہے، اس کے مظاہر کو ٹی وی پر دیکھ دیکھ کر عوام، تما م جماعتوں کو
یکساں بد اعتمادی کی صف میں کھڑے کررہے ہیں۔
ملتان جلسے میں تین واقعات یکے بعد دیگر ایسے رونما ہوئے، جس پر سنجیدہ
حلقوں نے سخت تشویش کا اظہار کیا، پہلے یہی اندازہ لگایا گیا کہ یہ جذباتی
و غیر دانستہ عمل تھے۔ ملتا ن میں پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن،
غیر محفوظ کنٹینر پر بغیر کسی سیکورٹی کے براجمان ہوئے، سابق صدر کی
صاحبزادی آصفہ اور سابق وزیراعظم کی بیٹی مریم نواز نے بھی تمام سیکورٹی و
احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، ریلی کے دوران اپنی گاڑیوں کی
چھتوں پر بیٹھ اور کھڑے ہوکر کارکنان کے جوش و جذبے کو بڑھایا۔ یہ بہت
سنگین سیکورٹی رسک تھا۔ ماضی میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہادت کا اہم پہلو
یہی تھا کہ انہیں سیکورٹی حصار ٹوٹنے پر محفوظ گاڑی سے باہر نہیں نکلنا
چاہیے تھا۔
آصفہ بھٹو زرداری اور مریم نواز شریف نے جب سیکورٹی حصارکو بالائے طاق
رکھا، تو مقتدور حلقوں میں شدید تشویش کی لہر دوڑ چکی تھی کہ خدا نخواستہ
اس بے احتیاطی میں کوئی بڑا جانی نقصان ہوجاتا تو عوامی ردعمل کو پورے ملک
میں روکنا ناممکن ہوتا۔ محترمہ کی شہادت کے بعد ملک گیر سطح پر شدید ردعمل،
بے امنی و پر تشدد واقعات رونما ہوئے، جو بڑی مشکل سے کنٹرول ہوئے، ملکی
انتخابات بھی داؤ پر لگے تو چند معروف سیاست دانوں نے ملک توڑنے کے نعرے
بھی لگائے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے انتخابات میں شرکت سے انکار کردیا اور
سنگین سیاسی خلا ہوچکا تھا۔ پی پی پی نے اس موقع پر جہاں ’پاکستان کھپے‘کے
بیانیہ کو اپنایا تو دوسری جانب میاں نواز شریف کو راضی کیا کہ وہ ایسے
عناصر کی سازشوں کو ناکام بنائیں جن کا مقصد پاکستان کے سلامتی و بقا کو
خطرے میں ڈالنا تھا۔ آصف زاردی کے سیاسی مخالفین و ناقد بھی معترف ہیں کہ
اُس نازک موقع پر انہوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔
موجودہ سیاسی حالات میں کچھسیاسی کوہ پیما اپنے مفادات کے لئے ملکی سلامتی
کو خطر ے میں ڈالنا چاہتے ہیں، جس طرح محترمہ شہید کو گاڑی سے باہر نعروں
کا جواب دینے سے روکنے کی کوشش شاید نہیں کی گئی، اسی طرح ملتان میں مریم
نواز اور آصفہ بھٹو کو بھی نہیں روکا گیا۔ یہ اگرذاتی فیصلہ تھا تو غلط و
خطرناک، یا پھر ریاستی اداروں کو پیغام دینا تھا کہ تنگ آمد بجنگ آمد، تو
بھی اسے درست نہیں قرار دیا جاسکتا۔ دونوں سیاسی خواتین نے انتہائی غیر ذمے
داری کا مظاہرہ کیا، یا پھر ان کے سیاسی اتالیق نے انہیں مشورہ دیا تھا، تو
یہ ایڈونچر خطرناک تھا۔ شاید یہی وجہ بنی کہ لاہور جلسے میں رکاؤٹ نہ ڈالنے
کا حکومتی بیان فوراََ سامنے آیا۔ تاہم وزیراعظم کے حالیہ بیان نے ایک بار
پھر اس تشویش میں اضافہ کردیا ہے کہ اگر لاہور جلسہ روکنے کے لئے ناخو ش
گوار اقدامات کئے گئے اور پی ڈی ایم کو آزادنہ سیاسی ماحول فراہم نہ کیا
گیا تو، خدانخواستہ سیاسی کوہ پیماؤں کی کوئی نئی مہم جوئی، کرونا سے زیادہ
سنگین ہوسکتی ہے۔ وزیراعظم سمیت ریاست جانتی ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک کو
ان حالات میں کم ازکم بزور طاقت دبانا ممکن نہیں، ملتان جلسہ اس کی واضح
مثال ہے، لاہور میں ایکشن ری پلے نہیں ہونا چاہیے۔ جلسے کے آرگنائزر و
کرسیاں فراہم کرنے والوں کو کسی بھی نوعیت سے روکنے کی کوشش، سیاسی طور پر
درست فیصلہ نہیں۔
پی ڈی ایم کے رہنماؤں کو بھی ادارک ہونا چاہیے کہ کئی دہائیوں بعد مملکت
میں دہشت گردی کے بڑے واقعات میں کمی واقع ہوئی،ماضی میں کئی قیمتی جانوں
کے ناقابل تلافی نقصانات ہوئے ہیں، ان حالات میں تمام سیاسی جماعتوں کے اہم
رہنماؤں کو بے احتیاطی و جذبات سے کام لینے سے گریز کرنا ہوگا، کیونکہ
مملکت اس وقت کسی بدترین ناگہانی سانحہ کی متحمل نہیں ہوسکتا۔ سیکورٹی
فورسز کو انتہا پسند مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں، لہذا سیاسی رہنماء تدبر کا
مظاہرہ کریں۔ پی ڈی ایم کوسیکورٹی رسک لینے سے گریز کرنا چاہیے، تمام اسٹیک
ہولڈرزسیاست کو ذاتی جنگ نہ بنائیں، کیونکہ اَنا پرستی شخصیت کو کھوکھلا
کردیتی ہے تو دوسری جانب یہ کسی کے حق میں بہتر بھی نہیں۔
|