دنیا میں کوئی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس
ملک میں انصاف نہ ہو؟جبکہ معاشرہ مظلوم کو انصاف فراہم کرنے اور جرم کرنے
والے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جن ممالک میں
معاشرہ اپنا فرض پورا کرتا ہے وہ ترقی کی منزلیں طے کرتا کرتا ترقی یافتہ
ملک بن جاتا ہے، برسر اقتدار آنے سے قبل موجودہ وزیر اعظم عمران خان بھی
بڑے بڑے دعوے کرتے تھے کہ وہ بر سر اقتدار آ کر ملک میں انصاف کا بول بالا
کریں گے؟ ظالم کو سزا اور مظلوم کو انصاف دلائیں گے؟ جو جرم کرے گا وہی سزا
پائے گا؟ بڑے افسروں کے کردہ جرم کی سزا چھوٹے عملہ کو دے کر مٹی پا?
پالیسی نہیں اپنائی جائے گی؟ کپتان نے اس طرح کے اتنے دعوے کیے کہ اگر
لکھنا شروع کریں تو کئی ماہ گزر جائیں مگر کپتان کے دعوے اور وعدے ختم نہ
ہوں، کپتان اس ملک کیلئے کیا کر رہے ہیں یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ
اپنے تئیں کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے دور اقتدار میں کچھ ایسا کر جائیں کہ
آنے والی نسلیں انہیں (عمران خان) کو یاد رکھیں۔ مگر ان کے گرد پرانے
کھلاڑیوں کا بچھا جال اور بیورو کریسی ان کی راہ میں رکاوٹ نظر آتی ہے،
بیورو کریسی چاہے تو حکومتیں کامیاب؟ بیورو کریسی نہ چاہے تو حکمران جتنی
مرضی کوشش کر لیں کبھی کامیاب نہیں ہو پاتے، یہ بھی بیورو کریسی کا خاصا ہے
کہ وہ اپنے ہم پلہ افسروں کا ہر مقام پر دفاع کرتے ہیں، اور افسر شاہی جو
چاہے کرے اس پر پردہ بھی بیوروکریسی ہی ڈالتی ہے۔
اس کی مثال آج کل ہر زبان زد عام خاتون کمشنر سرگودھا کا ایک واقعہ ہے،
جنہوں نے ہارن بجا کر اپنی گاڑی کراس کرنے کی پاداش میں تین روز تک ایبٹ
آباد کے ایک ایمبولینس ڈرائیور کو گاڑی سمیت تھانہ میں بند کروائے رکھا،
معاملہ میڈیا میں آیا تو ذرائع کے مطابق وزیر اعلی نے نوٹس لیا تو بجائے اس
کے کہ خاتون کمشنر کیخلاف کوئی کارروائی ہوتی، تھانہ ساجد شہید کے ایس ایچ
او اسد اویس کو معطل کر کے معاملہ پر انکوائری کرنے والوں نے اپنی ہم پلہ
خاتون کمشنر کو صاف بچا لیا اور نزلہ تھانہ کے ایس ایچ او پر ڈال دیا،
حالانکہ ایسا نہیں تھا، ایس ایچ او تھانہ نے تو خاتون کمشنر اور سیکرٹری آر
ٹی اے کے احکامات کی تعمیل کی تھی جو اسکی مجبوری تھی۔ عوام بھی اس فیصلے
پر ششدر ہیں کہ کیا دھرا تو خاتون کمشنر کا تھا،مگر سزا سب انسپکٹر/تھانہ
کے ایس ایچ او کو دے دی گئی، ایس ایچ او کو معطل کرنے پر پنجاب پولیس
بالخصوص سرگودھا ڈویڑن کیچاروں اضلاع کی پولیس میں بھی اضطراب پایا جا رہا
ہے کہ آخر سب انسپکٹر نے ایسا کونسا جرم کیا تھا؟کیا افسران کے حکم کی
تعمیل کرنا جرم ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو محکمہ پولیس کے ہر اہلکار کی زبان پر
ہے؟
یہاں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ معاشرے کی ترقی میں انسانی و اخلاقی روایات
کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے معاشرے کی ترقی میں پڑھے لکھے طبقے کا کردار
بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے اسی طرح حکومت وقت کا بھی فرض بنتا ہے کہ جس
افیسر کو جس علاقہ میں تعینات کر رہے ہوتے ہیں یا اختیارات دے رہے ہوتے ہیں
تو آفیسر کے ذہنی، اخلاقی سوچ کو بھی جانچنا ضروری ہونا چاہئے، یہاں خاتون
کمشنر سرگودھا کا ایک اور واقعہ یاد دلاتا چلوں کہ عظیم صوفی بزرگ حضرت
بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اﷲ علیہ کے سالانہ عرس مبارک میں 776
سال سے کسی بھی خاتون نے بہشتی دروازہ نہیں کھولا اور نہ ہی خاتون کو مزار
شریف کے اندر جانے کی اجازت ہوتی ہے لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ
رہا ہے کہ دو سال قبل 2018 میں سابقہ کمشنر ساہیوال موجودہ کمشنر سرگودھا
میڈم فرح مسعود اور سابقہ ڈی پی او پاکپتن میڈم ماریہ محمود نے سالانہ 776
ویں عرس مبارک حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اﷲ علیہ کے موقعہ
پر سات محرم الحرام کی شب تیسرے روز بہشتی دروازہ کھول کر 766 سالہ تاریخ
توڑنے کا موجب بنیں، بہشتی دروازہ کھلتے ہی بابا فرید الدین مسعود گنج شکر
رحمتہ اﷲ علیہ کے عقیدت مندوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی دربار شریف پر میڈم
کمشنر فرح مسعود کے خلاف احتجاج شروع ہو گیا دربار شریف کی دیوان فیملی نے
مداخلت کرتے ہوئے بہشتی دروازہ کو دوبارہ احتجاجا بند کرکے تالے لگا دیئے
اور کمشنر کے تبادلے کے مطالبے پر بہشتی دروازہ کھولا گیا جس پر پنجاب
حکومت نے کمشنر ساہیوال میڈم فرح مسعود کا فوری تبادلہ کر دیا تھا، جناب
کپتان سرگودھا ایمبولینس واقعہ نے ایک بار پھر اپنی تاریخ کو دہرایا ہے، جس
سے عوام کے زخم تازہ ہو گئے ہیں، آپ ریاست مدینہ کے دعوے دار حکمران ہیں ،
عام شہری کو انصاف دئیے بغیر آپکا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا؟ جناب
وزیر اعظم عمران خان صاحب آپ نے تو برسر اقتدار آنے سے پہلے بڑے بڑے دعوے
کیے تھے اور کہا تھا کہ برسر اقتدار آ کر انصاف کا بول بالا کروں گا، جناب
کپتان یہ سب کچھ آپ کے دور اقتدار میں ہو رہا ہے، خاتون کمشنر کو بچانے
کیلئے ایک ایس ایچ او کو بھینٹ چڑھا کر معطل کر دیا گیا ہے، جناب کپتان آپ
کو اس معاملے کا خود نوٹس لینا چاہئے، کیونکہ جس خاتون کمشنر کے کہنے پر
ایمبولینس ڈرائیور اور گاڑی تین روز تک بند رہی وہ اس وقت بھی اپنی سیٹ پر
براجمان ہیں اور نا کردہ گناہوں کی سزا میں ایک ایس ایچ او کو معطل کر دیا
گیا ہے، آپ کو اس واقعہ کو مثال کے طور پر لینا ہو گا،اور اسکی غیر
جانبدارانہ انکوائری کراکے مثالی فیصلہ کرنا ہو گا؟۔ تب انصاف کا بول بالا
ہو گا اور ملک ترقی کرے گا۔ ورنہ اسی طرح افسر شاہی اپنی من مانیاں کرتی
رہے گی اور اس کی سزا ماتحت بھگتتے رہیں گے؟ اس واقعہ کے رونما ہونے پر
افسوس ہی کیا جا سکتا ھے باقی بد قسمتی سے وطن عزیز میں جہاں جہاں بھی
خواتین بڑے عہدوں پر فائز ھیں وہاں پر ایسے واقعات معمول کی بات ھیں کیونکہ
یہ محترم خواتین قانون ،پالیسی ، حالات ، انصاف یا دماغ کی بجائے اپنے غصے
اور جذبات سے کام لیتی ھیں اس پر بھی نظرثانی کی اشد ضرورت ھے۔؟
انسان خدا بننے کی کوشش میں ہے مصروف
لیکن یہ تماشا بھی خدا دیکھ رہا ہے
|