گیارہ جماعتوں کا پی ڈی ایم (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ )
کے نام سے بنا ہوا اتحاد گزشتہ کئی ماہ سے ملک کے مختلف شہروں میں جلسے
جلوس کر رہا ہے جبکہ اس وقت جان لیوا وبائی مرض کرونا بھی اپنے عروج پر ہے،
اتنی مشکل صورتحال میں بھی جب اپوزیشن جماعتوں نے دیکھا کہ جلسے اور جلوس
کرنے سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچ رہا تو موجودہ اپوزیشن نے بھی ماضی
کی اپوزیشن کی پالیسی اپنائی اور استعفوں کا اعلا ن کردیا، قومی اسمبلی میں
اراکین کی تعداد 342 ہوتی ہے جس میں آئین کے آرٹیکل 51میں یہ واضح لکھا ہے
کہ جنرل نشستیں 272خواتین 60اور اقلیت کے لیئے 10نشستیں مختص کی گئی ہیں،
جولائی 2018کے عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے اقتدارسنبھالا
اور قومی اسمبلی کی اکثریت نے عمران خان کو اعتماد کاووٹ دیتے ہوئے
وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان چنا، 2018کے عام انتخابات سے لیکر آ ج تک
وہ سیاسی جماعتیں جو اپوزیشن میں ہیں انہوں نے دل سے اپنی ہار کو تسلیم ہی
نہیں کیا اور مسلسل کسی نہ کسی طرح حکومت کے لیئے مشکلات کھڑی کر رہی ہیں
اگر اپوزیشن جماعتیں ملکی بہتر ی اور عوام کی بھلائی کے لیئے حکومت کے
اقدامات اور پالیسیوں سے اختلاف رکھتیں اور ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا
کر رہی ہوتیں تو آ ج حالات اپوزیشن کے استعفوں تک نہ پہنچتے جبکہ اپوزیشن
کی استعفوں کی با ت کہنے کے بعد وزیراعظم عمران خان واضح الفاظوں میں کہہ
چکے ہیں کہ ضمنی انتخابات کروا دونگا، اب اگر دیکھا جائے تو اپوزیشن کے
150استعفیٰ آ بھی جائیں تو حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اکثریت ابھی
تک حکومت کے ساتھ ہی ہے اور قانونی ماہرین کا بھی یہی کہنا ہے کہ استعفوں
سے حکومت کو کچھ نہیں ہوگا، پی ڈی ایم کا بنیادی مقصد حکومت کودباؤ میں
لاکر اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنا تھا جس میں ابھی تک تو وہ مکمل طور پر
ناکام نظرآرہی ہے اور جہاں تک تعلق ہے اپوزیشن جماعتوں کے استعفوں کا تو اس
میں تمام اپوزیشن جماعتیں ایک صفحہ پر نہیں ہیں ، مسلم لیگ ن کے تمام لوگ
استعفیٰ دینے کو تیار ہیں کیونکہ ان کے پاس کچھ ہے ہی نہیں ، اس ہی طرح
دیگر جماعتوں کا بھی یہی حال ہے لیکن اس ساری صورتحال میں اگر نقصان ہوگا
تو پیپلز پارٹی کا ہوگا کیونکہ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور
وہ یہ صوبائی حکومت کسی بھی طور پر چھوڑنا نہیں چاہے گی ، یہی وجہ ہے جلسے
اور جلوسوں میں ساتھ ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی اندورنی طور پر اپنے
اتحادیوں کے ساتھ نہیں ہے، جبکہ پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری
صاحب کا استعفوں کا معاملہ سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اوپر ڈال د ینا بھی
مکمل طور پر استعفیٰ دینے کے حق میں نہ ہونے کا اشارہ دیتا ہے یہاں ایک بات
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اپوزیشن جماعتیں آج تک یہ بھی واضح نہیں کر پائیں کہ
پی ڈی ایم کے نام سے بننے والے اتحاد کا سربراہ کون ہے اور اس کو بنانے کے
مقاصد کیا تھے ، اب اگر ہم ماضی میں جائیں تو وہ لوگ جو پہلے حکومت میں تھے
وہ آج اپوزیشن میں ہیں اور اپوزیشن والے آج حکومت میں ہیں، جب اس وقت عمران
خان نے استعفوں کی بات کی تھی تو اس دور کے حکومتی وزراء نے ا ن کو شدید
تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے استعفوں کو جمہوری نظام کو خراب کرنے کی
سازش قرار دیا تھا کہتے ہیں کہ وقت گھومتا ہے اور پلٹ کر واپس آتاہے لیکن
آج دیکھ بھی لیا جب استعفوں کو جمہوری نظام کو متاثر کرنے کی کوشش کرنے کا
عمل قرارد ینے والے لوگ آج خود استعفوں کی جانب بڑھ رہے ہیں، یہ بھی سب
جانتے ہیں کہ اپوزیشن کے اراکین کس بے دلی کے ساتھ استعفیٰ دینے کی بات کر
رہے ہیں کیونکہ کچھ بھی ہو قومی یا صوبائی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفیٰ ہونا
کسی بھی سیاسی شخصیت کے لیئے مشکل ترین فیصلہ ہوتا ہے اور ابھی تک جتنے بھی
استعفیٰ آئے ہیں وہ سب سوشل میڈیا کی حد تک ہی ہیں جو شاید اپنے ووٹروں اور
سپورٹروں کو یہ ثابت کرنے کی کوشش ہے کہ ہم نے قائدین کے حکم پر استعفیٰ
دیا اور ہماری ساری وفاداریاں بھی پارٹی قائدین کے ساتھ ہیں یا شاید یہ بھی
دیکھنے کی کوشش ہو کہ ہمیں اس عمل کے بعد سوشل میڈیا پر کتنی پذیرائی حاصل
ہوتی ہے، استعفیٰ دینے کا صحیح اور قانونی طریقہ جو تھا وہ پاکستان کے
پندرہویں منتخب ہونے والے وزیراعظم (مرحوم) جناب میر ظفراﷲ خان جمالی صاحب
نے اپنایا تھا ، حکومت اپوزیشن جماعتوں کے جلسوں کو روکنے کے لیئے اقدامات
کر رہی ہے جس کی وجہ کرونا وائرس کے بڑہتے ہوئے کیسز ہیں اور یہ کافی حد تک
ٹھیک بھی ہے کیونکہ جلسوں اور جلوسوں میں حفاظتی تدابیر اختیار کرنا ناممکن
عمل لگتا ہے ، اس لیئے پی ڈی ایم کی تمام اتحادی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ
موجودہ صورتحال میں جلسے اور جلوس نہ کریں کیونکہ اس سے ان کوکوئی فائدہ
ہوگا اس کے تو کوئی آ ثار نظر نہیں آرہے لیکن کرونا کیسز میں لازمی اضافہ
ہوجائے گا جس کا نقصان صرف عوام اور حکومت کو ہی ہوگا، یہ بات بھی واضح ہے
کہ اپوزیشن کے استعفے حکومت کو نقصان نہیں پہنچا سکتے کیونکہ استعفے دینے
والوں میں بھی کافی حد تک اختلاف پایا جارہا ہے وہ واضح نہیں ہے وہ ایک الگ
بات ہے لیکن یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اپوزیشن نے جنوری کے آخر میں
لانگ مارچ کا اعلان بھی کیا ہے یعنی کسی حد تک ان کو بھی اس بات کا یقین ہے
ہمارے استعفوں سے حکومت نہیں جائے گی اس ہی لیئے انہوں نے لانگ مارچ کرنے
کا اعلان بھی کردیا ہے، ہاں استعفوں کے اعلان کے بعد یہ ضرور ممکن ہے کہ
حکومت اپوزیشن کے ساتھ بات چیت اور مذاکرا ت کی جانب آجائے جو کہ نہایت
اچھا اور جمہوری عمل ہے مذاکرا ت سے جو مسائل حل ہوجائیں وہ سب سے بہتر
ہونگے لیکن استعفوں کا اپوزیشن کا فیصلہ شاید درست ثابت نہ ہو اور اگر
وزیراعظم عمران خان نے ضمنی الیکشن کروا دیئے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ
نشستیں بھی حکومت کے پاس چلی جائیں جو ضمنی الیکشن سے قبل اپوزیشن اراکین
کے پاس تھیں۔ ختم شد |