انتہائی اقدام عمومی حالات میں
نہیں اٹھائے جاتے ہرگز نہیں اٹھائے جاتے ۔کوئی دنیاسے تنگ ہوتا ہے یا کسی
سے دنیاوالے تنگ۔سچ کم ہو جاتا ہے یا جھوٹ کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگتا
ہے۔تب تین ہی صورتیں بنتی ہیں۔اس قوم میں سے اچھے دماغ ہجرت کر جاتے
ہیں‘مارے جاتے ہیں ‘یا خرید لیئے جاتے ہیں اور وہ قوم محکوم ہو جاتی ہے ۔اور
پھر بھی جو قوم نہیں جاگتی اس کا ذکر کتابوں میں ملتاہے۔
میں نے اپنی زندگی کی خاطر میں نے ایسا کیا ہے۔اور کروں بھی کیوں نہیں ہر
کسی کو اپنی زندگی عزیز ہوتی ہے۔یہ فیصلہ کرنے کے بعد مجھے اپنے آپ پر حیرت
ہورہی ہے۔کیونکہ مولا علی ؓ کا فرمان ہے ”موت زندگی کی حفاظت کرتی ہے“۔لیکن
ہمارے ایمان کمزور ہوگئے ہیں۔عجب دوراہے پر آکھڑے ہیں۔رعایا بھوک سے مر رہی
ہے۔رعایا سے خطاب کیئے جاتے ہیں فقط خطاب ۔اور خطاب میں بیشتر رہنماء ایک
دوسرے کو مطعون کرنے کی سعی کرتے ہیں۔صدیوں پہلے خلیل جبران نے کہا تھا”اگر
بھوکے کو گانا سناﺅ گے تو وہ اپنے پیٹ سے تمہار ا گانا سنے گا“۔ رعایا کے
راہنماءبلٹ پروف جیکٹوں اور بلٹ پروف شیشوں کے پیچھے اپنے آپ کو محفوظ کرکے
غیر محفوظ رعایا سے مخاطب ہوتے ہیں”ہمیں آپ سے محبت ہے“۔حیف ہے ایسے
انسانوں پر ‘حد ہوتی ہے ہر شہ کی ایک حد ہوتی ہے دروغ گوئی کی بھی اور اس
پر یقین کرنے کی بھی۔ہم اب شاید قوم نہیں رہے ہجوم کی شکل اختیار کرتے
جارہے ہیں ۔اور جب قوم ہجوم میں بدلتی ہے تو اس کے پاس اچھے صحافی نہیں
ہوتے یا بہت کم ہوتے ہیں۔آٹے میں نمک کے برابر۔صحافت ایک مقدس پیشہ ہے لیکن
اپنوں کی بے نوائی نے اسے کھوکھلا کر دیا ہے۔سقراط نے حق کی خاطر زہر کا
پیالہ پیاتھا۔لیکن اصول شکن نہیں بنا ۔پنجابی کا ایک خوبصورت شعر ہے
میں زہر پیالہ پیتا بن کے ویلے دا سقراط
سچ نوں زندہ رکھن لئی میں جندڑی دتی ہار
سقراط جان دے کے امر ہوگیا۔لیکن اس کے بعد یونان میں سقراط پید ا نہیں
ہوا۔ہمارے ہاں صحافی جان دے دیتے ہیں لیکن خلا باقی رہ جاتا ہے۔محض اہل
صحافت ہی ہیں جن کے قاتل پردے میں رہتے ہیں۔۔صحافتی دنیا کی نگہداشت کرنے
والی عالمی تنظیم ‘comitte of protect journalistsکی رپورٹ کے مطابق
اکیسویں صدی کے ابتدائی عشرہ و مابعددنیامیں 450جرنلسٹ متشدد واقعات میں
اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔جن ممالک میں صحافیوں کو خطرات درپیش ہیں ان
میں وطن عزیر۴۳صحافیوں کی جانی قربانی دے کرتیسرے نمبر پر ہے۔148صحافیوں کے
ساتھ پہلے نمبرپر عراق اور 63صحافیوں کے ساتھ دوسرے نمبرپر فلپائن فائز
ہے۔صومالیہ چوتھے‘افغانستان پانچویں‘روس چھٹے اور میکسیکو‘سری
لنکا‘کولمبیا‘بھارت بالترتیب ساتویں ‘آٹھویں ‘نویں اور دسویں نمبر
پرہیں۔اگر عوام کو حقیقی صحافت درکار ہے تو یہ گھروں میں بیٹھنے سے نہیں
ملے گی ۔ساتھ دینا ہو گا۔آواز بلند کرنا ہوگی۔جو آپ (عوام)کے حقوق کی خاطر
لڑتے ہیں ان کی خاطر احتجاج کیجئے ‘صدادیجئے پرامن طریقے سے مسلسل مگر
مسلسل ۔ بلاجوازایجنسیوں کو موردالزام ٹھہرانے کے بجائے آزادانہ سپریم کورٹ
کی سطح پر تفتیش کے لیئے مطالبہ کیا جاناچاہیئے۔وگرنہ صحافی ازم کو ناقابل
تلافی زک پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ہمت و جانثاری اور اتحاد کا وقت ہے ۔پوائنٹ
سکورنگ اگر ہم نہ بھلا پائے تو مبادا(خدا نہ کرے)دنیا ہمیں بھلادے۔جس قوم
میں حدت نہیں ہوتی ‘جانثاری نہیں ہوتی وہ قوم کہلانے کی ہرگز حقدار نہیں
ہوتی۔پھر اس کا تذکرہ عبرت آموز واقعات کے ساتھ کیاجاتاہے ۔عبرت بننے سے
پہلے نصیحت پکڑ لینا بدرجہابہتر ہے۔
وگرنہ صحافت بکنا شروع ہو جائے گی ۔میں نے بھی اپنی بقاءکی خاطر کالم فروخت
کرنا شروع کردیئے ہیں۔کیونکہ میں ساٹھ ستر برس نہیں جینا چاہتا۔یہ کالم آپ
نہیں خرید سکتے ۔کیونکہ یہ پہلے ہی شہید صحافت کے ہاتھوں فروخت کر
چکاہوں۔میں بھلے حقیر صحیحح مگرسودا انمول گاہک کے ہاتھوں فروخت کرتا ہوں۔
شاید یہ میرا انتہائی اقدام ہے۔
انتہائی اقدام عمومی حالات میں نہیں اٹھائے جاتے ہرگز نہیں اٹھائے جاتے ۔کوئی
دنیا سے تنگ ہوتا ہے یا کسی سے دنیاوالے تنگ۔سچ کم ہو جاتا ہے یا جھوٹ کا
جادو سر چڑھ کر بولنے لگتا ہے۔تب تین ہی صورتیں بنتی ہیں۔اس قوم میں سے
اچھے دماغ ہجرت کر جاتے ہیں‘مارے جاتے ہیں ‘یا خرید لیئے جاتے ہیں اور وہ
قوم محکوم ہو جاتی ہے ۔اور پھر بھی جو قوم نہیں جاگتی اس کا ذکر کتابوں میں
ملتاہے۔ |