اِس میں یقیناکوئی شک نہیں کہ
حکمرانوں اورسیاستدانوں کی نااہلی کے باعث ملک مسائلستان بن چکاہے عوام
اپنے مسائل کی چکی میں پستے پستے اپنی زندگیوں سے بیزارآچکے ہیں اِس لئے
عوام یہ سمجھتے ہیں کہ اَب ایسی زندگی کا خاتمہ ہی بہتر ہے کیوں کہ قوم
اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں کواپنا مدعاسُناسُناکر تھک کر اِن سے مایوس
ہوچکی ہے مگر ہمارے حکمرانوں اور سیاستدان ہیں کہ کانوں پر جوں تک نہیں
رینگ رہی ہے یہ تختِ حکمرانی پر کسی جونک کے مانند چپکے بیٹھے ہیں اور ایسے
چکنے گڑھے بن چکے ہیں جن پر قوم کی کوئی فریاداثر نہیں کررہی ہے تواِسی
حوالے سے ہم اپنے آج کے کالم کی ابتداءجامع ترمذی کی ایک ایسی حدیث مبارکہ
سے کررہے ہیں جس میںنوع انسانی کو ایک ایسی راہ دکھائی اور سمجھائی گئی ہے
کہ اگر اِس پر صدق دل سے عمل کیاجائے تو کئی مسائل خود بخود حل ہوسکتے ہیں
اور کسی بھی مسلم معاشرے میں ایک ایسا اسلامی انقلاب برپاکیاجا سکتاہے کہ
جو رہتی دنیا تک دوسروں کے لئے مشعلِ راہ بھی ثابت ہوسکتاہے۔
جامع ترمذی شریف کی وہ حدیث مبارکہ جس سے متعلق ہم نے مندرجہ بالاسطور میں
عرض کیاہے وہ یہ ہے کہ” حضرت ابوہرہؓ سے روایت ہے کہ نبی آخری الزماں حضرت
محمدمصطفیﷺنے فرمایاکہ جب تمہارے حاکم نیک اور پسندیدہ ہوں تمہارے مال دار
کشادہ دل اور سخی ہوں اور تمہارے معاملات باہمی مشورے سے طے ہوں تو تمہارے
لئے زمین کی پست اِس کے پیٹ سے بہتر ہے(یعنی مرنے سے جینابہترہے)جب تمہارے
حاکم شریرہوںتمہارے مال داربخیل ہوں اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہوں
توتمہارے لئے زمین کا پیٹ اِس کی پست سے بہترہے(یعنی زندگی سے مرجانابہترہے)“۔
یہاں ہمارے ذہن میں ایک سوال یہ اُبھرکر آیاہے کہ اِس حدیث مبارکہ کی روح
کو سامنے رکھتے ہوئے آج اگر ہمارے موجودہ حکمران،سیاستدان(جوبرسرِ اقتدار
ہیںیا جواپوزیشن میں ہیں یہ سب ہی) اور اِسی طرح وہ صاحبِ ثرورت(مال دار)
حضرات جنہیںربِ کائنات نے اِن کی سوچوں سے بھی کئی گنا زیادہ اِنہیںدے
رکھاہے یہ سب کے سب اپنااحتساب خودکرلیں... )تو کیا....؟یہ اِس حدیث مبارکہ
میں بیان کئی گئی اُن افضل و اعلی ٰ صفات اور درجات میں )خود کو اپنی اپنی
جامع خصوصیات کے حوالے سے مکمل پائیں گے....؟ جن کا اِس حدیث ِمبارکہ میں
ذکر کیاگیاہے اوراگراِن تینوں میں یہ اچھائیاں موجود نہ ہوئیں تو کیا...؟؟یہ
خود کواِس زمرے میں لائیں گے جن سے متعلق حدیث مبارکہ میں نیچلی سطور
میںذکرکیاگیاہے...؟اوراِسی طرح تو کیاہم پر اَب یہ بات پوری آتی ہے جس سے
متعلق کہاگیاہے ...؟اور ہم وہی کچھ کریں جیساکرنے سے متعلق ہمارے لئے
فرمادیاگیاہے....؟؟
بہرکیف !ہم یہاں یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کے موجودہ حاکموں کی خصلت کا اگر
باریک بینی سے جائزہ لیاجائے تو خود بخودیہ بات کھل کر سامنے آجائے گی جوحق
ا ور سچ پر مبنی ہےکہ ہمارے حکمران اپنے قول وفعل کے لحاظ سے واقعی شریرنظر
آتے ہیں اور شرارت اِ ن کے انگ انگ میں کچھ اِس طرح سے سرایت کرگئی ہے کہ
اگر کسی نے اِنہیں شرارت سے یاشرارت کو اِن سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی تو
اِن کا وجود ختم ہوکررہ جائے گا....اور یہ کسی کام کے نہیں رہیں گے گو کہ
اَب اِن کی بقاوترقی اور اِن کی حکمرانی کا دارومدار ہی شرارت سے جڑاہواہے۔
اوراِسی طرح ہمارے ملک کے مال دار طبقے سے متعلق کیاکہنے اِن کے لئے تو بس
صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ اپنی دولت سے دولت بنانے اور امیر سے امیر
ترہونے کے چکر میں ایسے مبتلادکھائی دیتے ہیں کہ اِنہیں دیکھ کر ایسالگتاہے
کہ جیسے اِن کے اندر سے سخاوت کا جذبہ بالکل ختم ہوکررہ گیاہے اور آج یہ
ایسے بخیلوں کی صفوں میں اپنے سینے پھولا کر اوراپنی اپنی مونچھیں تان
کرکھڑے نظرآتے ہیں کہ اِنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتاہے کہ جیسے یہ اپنے اِس
قول وفعل سے یہ بتاناچاہتے ہیں کہ اِس وقت اِن سے زیادہ نہ توکوئی مالدار
ہے اور نہ ہی اِن سے زیادہ کوئی بخیل.....یہ اسی میں خوش ہیں اور اپنی دولت
کے غرور اور تکبر میں مبتلاہوکر اللہ کی زمین پر اکڑ کر چلنے میں فخرمحسوس
کررہے ہیں۔اور جہاں تک بات ہے ہمارے معاملات نمٹانے کی تو اِس سے بھی کوئی
انکار نہیں کرسکتاہے کہ ہم دولت کمانے اور اپنے معاشی رکھ رکھاو کو
بلندکرنے کی دوڑ میں پڑکر اتنے لاپرواہ ہوگئے ہیں کہ اِب ہم نے اپنے ذاتی
اورہمارے حکمرانوں نے اپنے غیر ملکی دوروں کی وجہ سے ملکی اُمورکے معاملات
کی انجام دہی کی تمام ترذمہ داریاں اپنی عورتوں کے سپردکردی ہے جنہیں یہ
اپنی سُوجھ بُوجھ کے مطابق جیسے تیسے اداکررہی ہیں ۔تو ایسے میں یہ حقیقت
ہے کہ ہمارے لئے زمین کا پیٹ اِس کی پست سے بہترہے (یعنی زندگی سے
مرجانابہترہے)۔
جبکہ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ” اِس بھائی چارگی میں کوئی خوبی نہیں جس میں
ایک دوسرے کی مدد نہیں کی جاتی “ اور اِسی کی روشنی میں ہمیں یہ کہنے دیجئے
کہ اے انسان! اچھے اعمال کرلے اور نیکی کرنے کے لئے اپنی عمرکو غنیمت سمجھ،
اِس وقت سے پہلے کہ یہ آواز لگ جائے کہ فلاں شخص اَب دنیا میں نہیں رہااِس
لئے اپنے آپ کو خوب صورت بنانے کے ساتھ ساتھ خوب سیرت بھی بناؤ اِس لئے بھی
کہ عملِ صالح خود بخودانسان کو قابلِ تعریف بنادیتاہے۔جبکہ یہ حقیقت ہے کہ
ہر زمانے میں انسان کی شرافت اور قابلیت اِس کے لباس سے نہیں اِس کے کردار
اور فعل وگفتار سے ہوتی ہے اور اِسی طر ح ہر معاشرے میں اِس نقطہ نگاہ کو
ہی بڑی اہمیت حاصل رہی ہے کہ اچھے ارادے اور بلندمقاصدانسان کو کردار کی
بلندی عطاکرتے ہیں اور بلندکردار اِنسان کو دنیاوالے ایک عرصے تک یادرکھتے
ہیں۔اوراِس میں کوئی شک نہیں کہ اِنسان ایک ہی باواآدم علیہ اسلام کی
اولادہیں اورہرذی ہوش کو انسانیت کی بہتری کے لئے ہر دم سرگرمِ عمل
رہناچاہئے۔(ختم شد) |