مہاراشٹر کے سابق وزیراعلی اور بی جے پی رہنما دیویندر
فردنویس نےمجلس قانون ساز کے ضمنی انتخاب میں اپنی شکست کا اعترافکر تے
ہوئے اس کا سارا کریڈٹ مہا وکاس اگھاڑی کو دے دیا جو غلط ہے۔ سیاسی جماعتوں
کے طاقت میں اضافہ یا کمی کا تعلق اقتدار میں رہنے یا اس سے محروم ہوجانے
سے نہیں ہوتا بلکہ داخلی قوت سے بھی ہوتا ہے اس لیے اکثر یہ دیکھنے میں
آیا ہے کہ حکومت چلے جانے کے بعد پارٹی زیادہ مضبوط ہوجاتی ہے۔ دیویندر
فردنویس نے کہا وہ مہا وکاس اگھاڑی کی مشترکہ طاقت کا اندازہ لگانے میں
ناکام رہے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے کیونکہ کسی انسان کے دماغ میں جب کبرو
غرور گھس جاتاہے تو اس کے سارے اندازے غلط ہوجاتے ہیں ۔ فردنویس نے نامہ
نگاروں سے کہا ’’ اب ہم جان چکے ہیں کہ وہ کتنی بڑی لڑائی لڑ سکتے ہیں۔ ہم
اگلے انتخابات کے لئے بہتر تیاری کریں گے۔‘‘ اس بات کو جاننے میں فردنویس
نے ایک سال لگا یا خدا کرے آگے اس کا خیال رکھیں۔
فردنویس نے ویسے ناکامی کا ٹھیکرا ادھو ٹھاکرے انتظامیہ کے سر پھوڑتے ہوئے
کہا کہ اس مرتبہ ریاستی انتظامیہ نے ایم ایل سی انتخابات کے لئے ووٹرز کی
رجسٹریشن کروایا تھا جس میں ان کے خاندان کے کچھ افراد سمیت مرکزی وزیر
نیتن گڈکری کا نام بھی انتخابی فہرست میں شامل نہیں تھا جبکہ فہرست میں نام
شامل کرنے کے لئے وقت پر فارم جمع کرواے گئے تھے۔ رائے دہندگان کی فہرست
الیکشن کمیشن نے انٹرنیٹ پر شائع کی تھی۔ وہ لوگ اگر اس میں اپنانام جانچ
کرنے کی تھوڑی سی محنت کرتے تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا تھا اس لیے اب کفِ افسوس
ملنا بے معنیٰ ہے۔ فردنویس کو چاہیے کہ اس طرح کی بہانے بازی کا سہارا لینے
کے بجائے وہ شکست کی داخلی وجوہات کا کھلے د سے جائزہ لیں ۔مہاراشٹر میں بی
جے پی کی حالتِ زار پر ڈاکٹر نواز دیوبندی کا یہ قطعہ صادق آتا ہے ؎
باد سموم باد صبا سے نہیں بجھا،
تیری مری کسی کی خطا سے نہیں بجھا
افسوس ہے کہ اپنوں کی سازش سے بجھ گیا
میرا چراغ تیز ہوا سے نہیں بجھا
مہاراشٹر کے اندر بی جے پی کی پسپائی کے پیچھے کئی داخلی عوامل کارفرما رہے
ہیں۔ ان میں سرِ فہرست مثلاًسشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کا معاملہ ہے۔ بی
جے پی نے اس خودکشی کو بہاری وقار کا مسئلہ بنا کر ریاستی انتخاب جیتنے کا
گھناونا منصوبہ بنایا۔ اس کے بہانے مہاراشٹر سرکار کو بدنام کرکے کانگریس
اور آر جے ڈی کو ولن بنا نے کی کوشش کی گئی ۔ اس مقصد کے لیے میڈیا کو
آلۂ کار بنایا گیا اور اس کام میں ارنب پیش پیش تھا۔ اس میں سی بی آئی ،
ای ڈی اور این سی بی کو لگا کر معاملے کو طول دیا گیا لیکن جب بہاری عوام
نے اس معاملے میں دلچسپی نہیں لی تو اسے لپیٹ کر معاملہ رفع دفع کردیاگیا ۔
اس وقت بی جے پی والے یہ بھول گئے تھے کہ اس بجرنگی تماشے کا مہاراشٹر کے
عوام پر کیا اثر ہورہا ہے۔ ان کی حکومت اور پولس کو کیوں بلاوجہ بدنا م کیا
جارہا ہے؟ یہی فردنویس جو ابھی شکست کا جائزہ لینے کی بات کررہے ہیں بہار
کے لیے پارٹی کی جانب سے نگراں بنائے گئے تھے ۔ اس وقت اگر وہ پارٹی ہائی
کمان کو بتاتے کہ اس طرح ہم لوگ مراٹھی عوام کے جذبات سے کھیل رہے ہیں ۔ ان
کی تضحیک و تذلیل کو اگر سختی سے روک دیا جاتا تو بہت ممکن ہے کہ آج یہ
نوبت نہیں آتی۔ مہاراشٹر کے پڑھے لکھے نوجوانوں نے سوچا ٹھیک ہے وقت آنے
پر انتقام لےلیا جائے گااور جب انہیں موقع ملا تو انہوں نے سود سمیت حساب
چکا دیا۔
ارنب کی طرفداری بھی بی جے پی کو مہنگی پڑی۔ سشانت سنگھ راجپوت کے بعد
انوائے نایک کی خود کشی کا معاملہ سامنے آیا۔ اس بار ارنب گوسوامی کٹہرے
میں کھڑا تھا ۔ خودکشی سے قبل انوائے نایک کی تحریر کردہ وصیت میں دو اور
ناموں کے ساتھ ارنب گوسوامی کا نام بھی تھا ۔ ممبئی پولس نے اس پر وہی
کارروائی کی جس کا مطالبہ وہ سشانت کے معاملے میں کرتا رہا تھا۔ اس بابت
پہلے تو عدالت عظمیٰ کا رویہ مثبت تھا۔ اس نے ارنب کی درخواست سننے کے
بجائے اسے عدالت عالیہ کا راستہ دکھا دیا لیکن اس کی گرفتاری کے بعد نقشہ
بدل گیا۔ ارنب کی گرفتاری میں ان تمام ٹیلی ویژن کے اینکرس کے یہ دھمکی
پوشیدہ تھی کہ اگر انہوں نے جھوٹ کا بازار گرم رکھا تو ایک نہ ایک دن ان کی
بھی گردن ناپی جائے گی ۔
ایسی مرکزی حکومت جس کا وجود ہی میڈیا کے جھوٹ پر ٹکا ہوا ہے وہ بھلایہ
خطرہ کیسے مول لے سکتی تھی۔ ارنب کی سماعت چھٹی کے دن ہوئی ۔ نہ صرف اس کی
فوری رہائی کا حکم دیا گیا بلکہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد دو ماہ تک اس کی
گرفتاری پر روک لگا دی گئی ۔ یہ تو ریاستی سرکار کے ساتھ ساتھ ممبئی پولس
اور بامبے ہائی کورٹ کی بھی توہین تھی۔ مہاراشٹر کے لوگ جانتے تھے کہ مرکز
کی بی جے پی حکومت کے سبب ارنب پر یہ نظر کرم ہورہا ہے اور ایک مراٹھی
آرکیٹیکٹ کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے۔ اس وقت ملک بھر میں بی جے پی مظلوم
نایک کے بجائے ظالم ارنب کی پشت پناہی کررہی تھی۔ اس کے جواب میں صوبے کے
رائے دہندگان نے یہ ستم کیا کہ بی جے پی کے اپنے قلعوں میں اسے ڈھیر کردیا
۔ نیوٹن کا تیسرا قانون یہی ہے کہ ہر عمل یکساں اور الٹا ردعمل ہوتا ہے ۔
کاش کے یہ بات فردنویس کی سمجھ میں آئے اور وہ اصلاح حال کی جانب توجہ فر
مائیں ورنہ اس طرح کے جھٹکے آگے بھی لگتے رہیں گے۔
پسماندہ طبقات کے ساتھ زیادتی بی جے پی کی تیسری بڑی غلطی تھی۔ پارٹی کے
اندر پسماندہ طبقات کے رہنماوں کے ساتھ برا سلوک اپنی حدوں سے پار ہوگیا
تھا۔ مہاراشٹر وہ ریاست ہے جہاں بی جے پی کوگوپی ناتھ منڈے اور ایکناتھ
کھڑسے جیسے پسماندہ ذاتوں کے رہنماوں نے اپنا خون پسینہ ایک کرکے پروان
چڑھایا لیکن جب ملائی کھانے کا وقت آیا تو ان کو کنارے کردیا گیا۔ دیویندر
فردنویس چونکہ ایکناتھ کھڑسے، پنکجا منڈے اور ونود تاوڑے جیسے رہنماوں کو
اپنا حریف سمجھتے تھےاس لیے ان سب کو ایک ایک کرکے ٹھکانے لگا یا گیا۔
مہاراشٹر کا او بی سی نوجوان چپ چاپ یہ کارستانی دیکھتا رہا ۔ ایکناتھ
کھڑسے نے اپنی ناراضگی کا اظہار کئی بار کیا لیکن مغرور فرد نویس نے کبھی
اس کی پروا نہیں کی بالآخر انہوں نے انتہائی اقدام کرتے ہوئے پارٹی سے
چھوڑ دی تو فردنویاس اور ان کے چہیتے صوبائی صدر پاٹل نے الٹا سکون کا سانس
لیا ۔ وہ بھول گئے کہ یہ ایک فرد نہیں بلکہ پورے طبقے کا نمائندہ ہے اور اس
کی توہین پورہ برادی کی تضحیک ہے۔ ان نتائج میں یقیناً کہیں نہ کہیں اس
زیادتی نے بھی اپنا کردار عطا کیا ہے۔
یوگی کی بے وقت بالی ووڈ یاترا نے بی جے پی کا مہاراشٹر میں بھٹا بٹھا دیا۔
بی جے پی اس قدر کم ظرف جماعت ہے کہ عین انتخاب سے قبل یوگی ادیتیہ ناتھ نے
ممبئی آکر فلمی ہستیوں سے ملاقات کی اور انہیں اترپردیش آنے کی دعوت دی ۔
ہر صوبے کو اپنے یہاں کسی بھی صنعت کو فروغ دینے کا حق ہے لیکن یہ کام وزیر
اعلیٰ نہیں کرتا ۔ یہ سرکاری افسران کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ مختلف
سہولیات مہیا کرکےلوگوں سے رابطے کریں اور ان کو اپنے صوبے میں بلائیں ۔
یوگی جی تجارت کا فروغ نہیں بلکہ سیاست کررہے تھے اور اتر پردیش کے لوگوں
کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ وہ بجرنگ بلی کی مانند بالی ووڈ کی سنجیونی بوٹی
اٹھا کر لے آئیں گے ۔ انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ مہاراشٹر کا نوجوان اس
حرکت کو کس نگاہ سے دیکھے گا ۔ کیا وہ ایسا نہیں سوچے گا بی جے پی کو
اقتدار سے محروم کرنے کی انہیں یہ سزا دی جارہی ہے کہ مہاراشٹر سے بالی ووڈ
کو چھینا جارہا ہے۔ اس طرح کے پیغام کا کسی بھی صوبے کے نوجوانوں پر یہی
اثر پڑے گا اور وہ اس کا یہی جواب دے گا؟ مہاراشٹر کے تعلیم یافتہ لوگوں نے
کیا اور بی جے پی کو سبق سکھا دیا۔
ادھو ٹھاکرے کی سنجیدگی نے عوام کو متاثر کیا۔ مہاراشٹر کے عوام ایک طرف تو
بی جے پی والوں کی نوٹنکی دیکھ رہے تھے اور دوسری جانب مہاراشٹر کے وزیر
اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کا سنجیدگی کے ساتھ مسائل کو حل کرنا تھا۔اس فرق کو عوام
نے محسوس کیا کہ کورونا کا سب سے زیادہ مہاراشٹر میں تھا اس کے باوجود ادھو
نے اس پر کوئی سیاست نہیں کی یہاں تک کہ مرکز کے خلاف محاذ آرائی سے بھی
گریز کیا۔ وہ بڑی خاموشی سے اپنا کام کرتے رہے ۔ انہوں نے کئی سخت فیصلے
کیے لیکن اس کے لیے نہایت دردمندی کے ساتھ اپنی عوام کو اعتماد میں لیا ۔
اس دوران کئی تہوار آئے لیکن انہوں کسی طبقے کی بیجا جانبداری نہیں کی۔
پال گھر سے ان کو اشتعال دلانے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا وہ ابھی اذان تک
کے تنازع میں جاری ہے لیکن انہوں نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ۔ اس طرح کی
خوبیاں عوام پر دیر پا اثر ڈالتی ہیں۔ بی جے پی ہمیشہ جذبات کو اچھال کر
انتخابی کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرتی ۔ اس بار چونکہ اسے مہاراشٹر میں
اس کا موقع نہیں ملا اس لیے عوام نے ٹھنڈے دماغ سے سوچ سمجھ کر ووٹ دیا اور
بی جے پی چاروں خانے چت ہوگئی ۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اگر بی جے پی کی
جذباتیت کا جواب جذابت سے دیا جائے تو اس کا بھلا ہوجاتا ہے ورنہ وہ خسارے
میں چلی جاتی ہے۔ اس لیے بی جے پی کے خلاف کامیاب انتخابی حکمت عملی یہ ہے
کہ؎
پھر سرپھری ہواؤں نے گل کر دئیے چراغ
ایسی ہوا چلا ،جو چراغوں کا ساتھ دے
|