بالآخر مینار پاکستان پر پی ڈی ایم کا جلسہ ہو گیا،
جسکے بارے قبل ازیں اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کہتی تھی کہ لاہور کا یہ جلسہ
پی ٹی آئی کی سلیکٹڈ حکومت کو بہا کر لے جائے گا، مگر ایسا تو کچھ نہیں
ہوا، حکومت بھی اپنی جگہ موجود ہے اور حکمران بھی سردست وہی ہیں، اپوزیشن
جماعتوں کے قائدین بھی پاکستانی طرز سیاست کی طرح بر سر اقتدار حکومت اور
حکمرانوں کو آڑے ہاتھوں لے رہی ہے اور اپوزیشن کارکنوں کو لانگ مارچ کی
بھرپور تیاری کا کہہ رہی ہے، اپوزیشن مینار پاکستان کے جلسہ کو تاریخی جلسہ
قرار دے رہی ہے اور حکمران جماعت کے ذمہ دار کہتے ہیں کہ اپوزیشن کی 11
جماعتیں مل کر بھی مینار پاکستان بھرنے میں ناکام ٹھہری ہیں۔سویہ جلسہ
کامیاب تھا یا ناکام یہ اپوزیشن اور حکمرانوں کا درد سر ہے سیاست سے بیزار
عوام کی اکثریت کو اس سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ ملک میں بسنے والی غریب
عوام کی اکثریت کو تو پیٹ کا دوزخ بھرنے کیلئے دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے
ہوئے ہیں، غربت، بیروزگاری اور مہنگائی، مفلسی نے حالات اس نہج پر پہنچا
دیئے ہیں کہ پہلے تو اکا دکا خود کشیاں ہوتی تھیں اب پورے پورے کنبے کی خود
کشیوں کی خبریں آ رہی ہیں۔
تو بات ہو رہی تھی لاہور جلسہ کی جس کے سٹیج کے نمایاں مقررین میں مولانا
فضل الرحمان، مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری، محمود اچکزئی قمر زمان کائرہ،
شاہ نورانی،جاوید ہاشمی، ساجد میر، آفتاب شیر پاؤ شامل ہیں جبکہ (ن) لیگ کے
سزا یافتہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بیرون ملک سے جلسہ سے ویڈیو
لنک کے ذریعے دھواں دار خطاب کیا، یاد رہے اس طرح قبل ازیں لندن بیٹھ کر
الطاف حسین ایم کیو ایم کے جلسوں اور اجلاسوں سے خطاب کیا کرتے تھے، جنہیں
پاکستان مخالف بیانات پر غدار قرار دیا جا چکا ہے۔
سیاسی تاریخ کہتی ہے کہ متذکرہ یہ تمام سیاست دان ماضی میں ایک دوسرے کے
حریف رہے ہیں جو کپتان کے برسر اقتدار آنے پر پی ڈی ایم کے اتحاد کی صورت
میں آپس میں حلیف بنے، ماضی میں یہ سب سیاستدان ایک دوسرے کو سخت تنقید کا
نشانہ بناتے رہے، پی ڈی ایم کے موجودہ سربراہ مولانا فضل الرحمان نے عورت
(محترمہ بے نظیر بھٹو) کی حکومت کو غیر شرعی قرار دیا تھا، سابق صدر آصف
علی زرداری نے کہا تھا کہ اس دفعہ ہم نے میاں (نواز شریف) کو چھوڑ دیا تو
شاید اﷲ بھی ہمیں معاف نہ کرے، کیونکہ یہ قوم اور ہاریوں کا چور ہے، ہم
ایسے درندے کو برداشت نہیں کر سکتے، جبکہ موصوف نے یہ بھی کہا تھا کہ آپ
(نواز شریف) نے ہمیشہ ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے، اس دفعہ ہم آپ کے
بہکاوے میں نہیں آئیں گے نہ ہم آپ کے ساتھ جائیں (چلیں) گے، بلاول بھٹو بھی
اپنے والد کی طرح میاں برادران کو آڑے ہاتھوں لیتے رہے ہیں اور کہتے تھے کہ
میاں شہباز شریف نے سانحہ ماڈل ٹاؤن، ملتان اور آشیانہ سکیم کرپشن کا جواب
دینا ہے۔ ہم سب مل کر تخت رائے ونڈکی آمریت کو گرائیں گے، بلاول بھٹو نے یہ
بھی کہا تھا کہ میاں صاحب نے کشمیریوں کیلئے ایک ’’ٹکہ‘‘ کا کام نہیں کیا،
میں آپ (نواز شریف) کو مودی کا یار نہ کہوں تو کیا کہوں۔ جبکہ نواز شریف
کہتے تھے کہ زرداری صاحب 6 کروڑ ڈالر آپ کہاں سے لے کر آئے ہیں،ہم اس وقت
تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک 6 کروڑ ڈالر پاکستان واپس نہیں لے آتے، یہ
قوم کا پیسہ اور، قوم کے خون پسینے کی کمائی ہے، لٹیرے زرداری نے پاکستان
کی دولت لوٹ کر سرے محل خرید لیا ہے، میرا نام بھی نواز شریف نہیں کہ سرے
محل کو نیلام کر کے تمام رقم قوم کے قدموں میں نچھاور نہ کر دوں، 2018ء میں
ایک جلسہ سے خطاب میں میاں نواز شریف نے اس بات کو دوہراتے ہوئے آصف علی
زرداری کے بارے میں کہا کہ سویٹزر لینڈ میں کس کا 6 سو کروڑ روپیہ ہے، اگر
یہ رقم جلسہ کے شرکاء میں تقسیم کی جائے تو جلسہ میں موجود ہر شخص کے حصہ
میں 10 لاکھ آئے گا۔ جبکہ شہباز شریف نے جواب میں بلاول کے بارے میں کہا
تھا کہ بیٹا (بلاول بھٹو) ایک کرپشن کا کیس اور سامنے آ گیا تو آپ پھر والد
کے ساتھ لندن جا رہیں گے۔ جبکہ شہباز شریف ببانگ دہل کہتے تھے کہ انتخابات
کے بعد زرداری کو لاڑکانہ کراچی، پشاور، لاہور کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو
میرا نام شہباز شریف نہیں۔ شہباز شریف نے ایک بار آصف علی زرداری کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ پیسے ہمارے حوالے کر دو ورنہ تمہیں اور
تمہارے لٹیرے ساتھیوں کو نہیں چھوڑیں گے۔وزیراعظم عمران خان کی حکومت اور
ساتھیوں میں بھی ایسے لوگوں کی بہتات ہے جن پر کپتان وزیر اعظم بننے سے
پہلے تنقید کرتے رہے جس کا(ماضی کے حریف موجودہ حلیف)کپتان کو خوب جواب
دیتے رہے انہی میں ایم کیو ایم اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشیدبھی
شامل ہیں جن پر کپتان نے تنقید کی تھی۔ اب ایم کیو ایم پی ٹی آئی کی حکومت
کی اتحادی اور شیخ رشید وزیر داخلہ(جو عہدہ سیکنڈ وزیراعظم تصور کیا جاتا
ہے)کے منصب پر فائز ہیں۔
سو بات کہاں سے کہا نکل گئی۔ پاکستانی سیاست بڑی عجب، گھمبیر اور بے رحم
ہے، جس میں سیاست دان جمہوریت کیلئے کم اور اپنے مفادات اور اقتدار کی کرسی
تک پہنچنے کیلئے زیادہ جنگ لڑتے ہیں، جس کی مثال حکومت اور اپوزیشن کا
موجودہ منظر نامہ ہے، اور دونوں جماعتوں کے مابین جاری موجودہ رسہ کشی
سیاستدان اپنے اپنے مفاد کیلئے کررہے ہیں۔لاہور جلسہ میں جہاں مولانا فضل
الرحمان، مریم نواز، بلاول بھٹو، آصف علی زرداری، نواز شریف محمود اچکزئی
اور دیگر مقررین نے دھواں دار اور ولولہ انگیز تقریروں کا تانتا باندھا جن
کا لب لباب یہ تھا کہ حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں، عوام لانگ مارچ کی تیاری
کریں جو جنوری کے اخریافروری کے شروع میں اسلام آباد میں ہو گا، جو موجودہ
حکومت کے خاتمے کا باعث بنے گا، اس لانگ مارچ دھرنا میں اپوزیشن جماعتوں کے
ارکان اسمبلی استعفیٰ پیش کریں گے اور تبدیلی موجودہ حکومت نہیں ہم(پی ڈی
ایم) لے کر آئی گی۔ یہاں واضح کرتا چلوں کہ سیاسی ذرائع کہتے ہیں اپوزیشن
لانگ مارچ سے قبل 21 دسمبر کو کوئٹہ، 23 دسمبر کو مردان، 26 دسمبر کو
بہاوالپور، 28 دسمبر کو سرگودھا، 2 جنوری کو خضدار، 4 جنوری کو کراچی، 6
جنوری کو بنوں، 9 جنوری کو گجرانوالہ، 13 جنوری کو لورالائی میں ڈویڑنل سطح
کے احتجاجی کنونشن منعقد کرنے جا رہی ہے، جس کیلئے پی ڈیم ایم کی قیادت نے
متذکرہ اضلاع کے عہدیداران کو ذمہ داریاں سونپ دی ہیں۔
لاہور جلسہ میں محمود اچکزئی کے خطاب کا ذکر نہ کرنا بھی اہل لاہور سے
زیادتی ہو گی۔ کیونکہ محمود اچکزئی نے اپنے خطاب میں لاہور کے باسیوں کو
انگریز سامراج کا حصہ قرار دیا، اور کہا کہ دکھ ہے کہ لاہور والوں نے
ہندوؤں اور سکھوں سے مل کر انگریز کا ساتھ دیا، محمود اچکزئی کے اس بیان کا
لاہوریوں نے اچھا تاثر نہیں لیا، جس کا خمیازہ آنے والے انتخابات یا سیاسی
ماحول میں خاص کر مسلم لیگ (ن) کو بھگتنا پڑے گا، کیونکہ محمود اچکزئی یا
ان کی جماعت کا کوئی لیڈر لاہور سے انتخاب نہیں لڑتا، محمود اچکزئی کے اس
بیان پر لاہوریوں میں خوب لے دے ہو رہی ہے اور وہ اچکزئی کو کوس رہے ہیں؟
لاہور جلسہ کی توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ مریم نواز نے اپنے خطاب میں کہا
تھا کہ جلسہ سے میاں نواز شریف اور آصف زرداری ویڈیو لنک خطاب کریں گے، مگر
ایک حکمت عملی کے تحت بلاول بھٹو نے توجلسہ سے خطاب میں حکمران جماعت کو
خوب رگیدہ اور اپوزیشن لیڈروں اور جلسہ کے شرکاء کو باور کرایا کہ حکومت
گئی کہ گئی؟ سیاسی ذرائع کہتے ہیں کہ آصف علی زرداری نے اپنی سیاسی سوچ کے
تحت لاہور جلسہ سے خطاب نہیں کیا؟ جو اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ اپوزیشن
جماعتوں میں دراڑ پڑ چکی ہے، جو ختم ہوتی نظر نہیں آ رہی، کیونکہ جلسہ کی
سکیورٹی کی جانب سے نا مناسب سلوک کیے جانے پر بلوچستان کے سابق وزیر اعلی
عبدالمالک پی ڈی ایم کی قیادت سے نالاں ہیں۔ مزید یہ کہ آصف زرداری جن کے
بارے میں مشہور ہے کہ وہ مفاہمت کی سیاست اور ہر دور میں جمہوریت کو پروان
چڑھانے کیلئے کوشاں رہے، موصوف نے 2013ء سے 2018 تک مسلم لیگ (ن) کی حکومت
کیخلاف خوب اپوزیشن کی، آئے روز پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی کے استعفوں کی
دھمکی دے کر (ن) لیگ کی حکومت کے ناک میں دم کیے رکھا، لیکن (ن) لیگ کی
حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے دی، موجودہ سیاسی حالات اس بات کا عندیہ دے
رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی اپنے ارکان اسمبلی کے استعفے نہیں دے گی، اور پی ٹی
آئی سے بیک ڈور رابطے سے حکومت کو اقتدار کی مدت پوری کرنے میں ماضی کی طرح
مدت دے گی؟جبکہ (ن) لیگ میں فارورڈ بلاک بن چکا ہے، اس طرح آنے والے وقت
میں ملکی سیاست کا منظر تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ |