حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے جوتحریک شروع کی تھی
لاہورجلسہ میں وہ تحریک نقطہ عروج کوچھورہی تھی لاہورجلسہ ناکام کرنے کے
لیے حکومت وہی روایتی ہتھکنڈے آزمائے مگرحکومت ناکام رہی اورلاہورکامعرکہ
بھی اپوزیشن کے نام رہا،جلسہ سے دودن قبل کابینہ میں تبدیلی کی گئی اورشیخ
رشیدکووزارت داخلہ کاقلمدان سونپ کراپوزیشن کوپیغام دیاگیا مگراپوزیشن نے
اس تبدیلی کوزیادہ سنجیدہ نہیں لیا حکومت نے بوکھلاہٹ میں ایک اورقدم
اٹھایاکہ وفاقی کابینہ نے چھٹی کے دن ہنگامی طور پر ایک قانون میں ترمیم کی
اور بغاوت کے مقدمات کے اندراج کا اختیار وفاقی سیکرٹری داخلہ کو دے دیا
سیکرٹری داخلہ کے علاوہ صوبائی حکومتوں کی منظوری سے بھی بغاوت کا مقدمہ
درج ہو سکے گاجس سے ظاہرہوتاہے کہ کرپشن اورچوری کے ناکام نعرے کے بعداب
غداری کارڈکھیلاجائے گا مگرہرگزرتے دن کے ساتھ گیم حکومت کے ہاتھ سے نکلتی
جارہی ہے ۔
مینارپاکستان جلسہ میں کتنے لوگ شریک ہوئے یہ سوال اب بے معنی ہوکررہے
گیاہے کیوں کہ اپوزیشن جماعتیں عوام کواپنابیانیہ سمجھانے میں کامیاب ہوگئی
ہیں عوام حکومتی اورانتظامیہ کے روایتی ہتھکنڈوں کوبالائے طاق رکھتے ہوئے
میدا ن میں نکل رہے ہیں،حکومتی جبرکاحصارٹوٹ چکاہے اورہرنئے دن کے ساتھ
حکومت مخالف اجتماع میں اضافہ ہورہاہے ملتان جلسہ میں رکاوٹوں کے باوجود
اپوزیشن کے جلسے کے بعد اگرچہ حکومت نے لاہورجلسہ میں رکاوٹ نہ ڈالنے
کااعلان کیا مگرمخالفین پرمقدمات کی بھرمارکردی ،ہوٹل مالکان سمیت
ساؤنڈسسٹم ،لاؤڈسپیکرز،کرسیاں اوردیگرسہولیات مہیاکرنے والوں کے خلاف
مقدمات بنانے کااعلان کیالیکن حکومت کایہ ہتھکنڈہ بھی کام نہ آیا۔
لاہورجلسہ روکنے کے لیے کورونا کے پھیلاؤ اور دہشتگردی کے خطرے سمیت کئی
طریقوں سے خبردار کیا ہے لیکن حزبِ اختلاف نے یہ جلسہ ملتوی کرنے سے انکار
کیا ہے۔مینارپاکستان کے متصل گراؤنڈکوپانی سے بھرنے کی کوشش کی مگراقبال
پارک ڈیم نہ بن سکی ، لاہور کے ڈپٹی کمشنرنے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے
اپوزیشن رہنماؤں کوڈرانے اورخوف زدہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی
ایم کے رہنماؤں مریم نواز شریف، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمان
سمیت خواجہ سعد رفیق، سردار ایاز صادق، رانا ثنااﷲ اور دیگر کی زندگی کو
خطرہ ہے۔مگرپی ڈی ایم قیادت اس دھمکی کودرخواعتنانہ سمجھا ۔یہ جلسے کاخوف
ہی تھا کہ جلسے سے قبل سوشل میڈیاپرایسے غلاظت بھرے ٹرینڈچلائے گئے کہ
الامان والحفیظ ۔
مسلم لیگ ن لاہورکے کارکنوں نے ہنگامی بنیادوں پراقدامات کیے اورجلسہ گاہ
کوسجایاجلسہ گاہ کے اندر اور اطراف کے علاقوں میں پی ڈی ایم کے مرکزی
قائدین کی تصاویر والے پینا فلیکسز آویزاں کیے گئے ۔ جلسہ گاہ میں قائدین
کے لیے 80 فٹ لمبا اور 20 فٹ چوڑا اسٹیج تیار کیا گیا۔ جلسہ گاہ میں روشنی
اور بجلی کی فراہمی کو بلا تعطل جاری رکھنے کے لیے بھی انتظامات کیے گئے۔
جلسے کی سیکیورٹی انصار الاسلام کے رضاکاروں اور شیر جوان فورس کے حوالے
رہی۔
انصارالاسلام حکومت کے اعصاب پرسوارہوچکی ہے حکومتی اقدامات بتارہے ہیں کہ
آنے والے دنوں میں وہ انصارالاسلام کے خلاف کاروائی کریں گے مگرایسی کوئی
کاروائی غیرقانونی اورغیرآئینی ہوگی کیوں کہ ملک کاوزیراعظم ٹائیگرفورس
بناسکتاہے جس کے اہلکارمخالفین اورتاجروں کوبلیک میل کرنے میں مصروف ہیں
توہرسیاسی جماعت کوحق ہے کہ واپنے جلسے اورکارکنوں کے تحفظ کے لیے
رضاکارفورس بنائے ۔
لاہورجلسہ کے آغازپروزیراعظم نے اپنے کتوں کے ساتھ چندتصاویرشیئرکرکے یہ
تاثردینے کی کوشش کی کہ انہیں اس جلسے کاخوف نہیں حالانکہ یہ تصویرہی اس
خوف کااظہارتھی یہ تصویرمہنگائی ،بے روزگاری کے ستائے ہوئے غریب عوام کے
زخموں پرنمک چھڑکنے کے مترادف تھی ،یہ تصویراپوزیشن کے بیانیے پرمہرتصدیق
تھی کہ حکمرانوں کوعوام سے کوئی غرض نہیں یہ عیاشیوں میں مصروف ہیں عوام
اورملک تباہ حال ہوگئے ہیں ۔
عجب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں
لگا کے زخم نمک سے مساج کرتے ہیں
غریب شہر ترستا ہے اک نوالے کو
امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں
لاہورجلسہ کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی فیصلہ کن تحریک کاآغازہوگیاہے
،پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ
ناجائز حکومت کو برطرف کرنے کے لیے قوم کو کردار ادا کرنا ہوگا جس کے لیے
جنوری کے آخر یا فروری کے آغاز پر لانگ مارچ کریں گے اور اس میں استعفے
ساتھ لے کر جائیں گے۔حکومت نے اپنے پسندیدہ خبرداروں کے ذریعے یہ تاثردینے
کی کوشش کی تھی کہ استعفوں پراتفاق نہیں ہورہاپیپلزپارٹی حکومت کے ساتھ
رابطے میں ہے مگریہ تمام فواہیں دم توڑچکی ہیں بلاول بھٹو واضح اندازمیں
کہاہے کہ اب مذاکرات کا وقت گزر چکا ہے اب کوئی بات چیت نہیں ہوگی بلکہ
لانگ مارچ ہوگا، حکومت سن لے ہم اسلام آباد آرہے ہیں، سلیکٹڈ حکومت بیک ڈور
رابطے کرنے بند کرے ہم اب استعفی چھین کرلیں گے۔
مسلم لیگ ن کی نائب صدرمریم نوازاوران کی ٹیم نے اس جلسے کوکامیاب بنانے کے
ساتھ ساتھ زندہ دلان لاہورکوجگانے میں اہم کرداراداکیا اقبال پارک جلسہ سے
قبل ہی مریم نوازلاہورمیں ریلیاں نکال کرعوام کی توجہ حاصل کرچکی تھیں
انہوں نے خوف اورڈرکاحصارتوڑاعوام کواپنے حقوق کے لیے باہرنکلنے کے لیے
آوازدی جس پرعوام نے بھرپوراندازمیں لبیک کہااسی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں
نے کہا کہ لاہوریوں نے آج مینار پاکستان پر ایک تاریخ رقم کی ہے اور عوام
دشمن کو اس مینار سے اتار کر پھینک دیا ہے، 2011 میں جس جعلی تبدیلی کا
آغاز اس مقام سے ہوا تھا آج لاہوریوں نے اسے ہمیشہ کے لیے یہاں دفن
کردیا۔انہوں نے کہا کہ جو شخص خدا کے لہجے میں این آر او نہ دینے کا اعلان
کرتا تھا آج نواز شریف سے این آر او مانگ رہاہے ، تابعدار خان کو این آر او
نہیں دیا جائے گا۔
مریم نواز نے جلسے کے شرکا سے مخاطب ہوکر کہا کہ وعدہ کرو اگر اسلام آباد
کی جانب مارچ کرنے کے لیے نکلنا پڑا تو نکلو گے اور وہاں جتنے دن رکنا پڑا
تو رکو گے۔مریم نواز نے تقریر کے دوران وزیر اعظم عمران خان کے سابقہ
بیانات اور تقاریر کی ویڈیو بھی چلوائی جس میں وہ نواز شریف کی تعریف کرتے
ہوئے نظر آرہے ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں کایہ اتحادمنزل کی طرف بڑھ رہاہے ایسے میں وزیراعظم
اوردیگرکچھ افراد کی طرف سے ڈائیلاگ اورمذاکرات کاپتہ پھینکاگیاہے، اپوزیشن
نے متفقہ طورپرموجودہ حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکارکردیاہے حکومت نے
ڈھائی سال میں جوماحول بنایاہے اس میں مذاکرات ہونہیں سکتے صرف لڑائی
ہوسکتی ہے پہلے صرف حکومت حملے کرتی تھی اوراب اپوزیشن نے بھی یہ لڑائی
لڑنے کی ٹھان لی ہے ڈھائی سالوں میں مختلف ایشوزپر اپوزیشن کے تعاون
کووزیراعظم نے ان کی کمزوری سمجھامگراب وقت گزرچکاہے جنوری سرپرہے حکومت کے
پاس عوام کی فلاح کاکوئی منصوبہ نہیں ہے عوام دووقت کی روٹی کوترس رہے ہیں
اورعوامی غیض وغضب ایک انقلاب کی دستک دے رہاہے ۔ایسے ہی موقع پرفیض
احمدفیض نے کہاتھا
جس دیس میں حاکم ظالم ہوں ، سسکی نہ سنیں مجبوروں کی
جس دیس کے عادل بہرے ہوں ، آہیں نہ سنیں معصوموں کی
جس دیس میں آٹے چینی کا بحران فلک تک جا پہنچے
جس دیس میں بجلی پانی کا فقدان حلق تک جا پہنچے
جس دیس میں غربت ماؤں سے بچے نیلام کراتی ہو
جس دیس میں دولت شرفا سے ناجائز کا م کراتی ہو
جس دیس کے عہدیداروں سے عہدے نہ سنبھالے جاتے ہوں
جس دیس کے سادہ لوح انسان وعدوں پہ ہی ٹالے جاتے ہوں
اس دیس کے ہر اک لیڈر پر آواز اٹھانا واجب ہے
اس دیس کے ہر اک حاکم کو سولی پہ چڑھانا واجب ہے
|