آزادکشمیر میں الیکشن سیزن عروج
پر ہے، سیاسی پارٹیاں اور امیدوار ووٹرز کو متوجہ کرنے کے لیے گھر گھر دستک
دے رہے ہیں۔ شادیاں، جنازے اور دعاءمغفرت میل ملاپ کا بہترین ذریعہ ہیں۔ ہر
ایک ایسے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کچھ لوگ سابق حکمرانوں
اور ممبران اسمبلی سے مایوس ہوکر گھروں میں بیٹھ گئے ہیں اور انتخابی عمل
سے لا تعلق ہونے کا اعلان کر رہے ہیں۔ کریمو بابے اور ایک سکول ٹیچر کی
داستان غم آپ کی نذر کر چکا ہوں۔ ایسی ہی ایک دیہی مجلس کی روداد بھی تفصیل
سے شائع ہو چکی ہے، جس میں مختلف الخیال احباب کی آراءسامنے آئیں تھیں۔ آج
کے کالم میں ہمارے گاؤں کے ایک نیم خواندہ لیکن وسیع المطالعہ بزرگ کے
خیالات نذر قارئین کر رہا ہوں۔ صوفی اللہ بخش بظاہر تو بس پرائمری پاس ہیں
لیکن ان کا مطالعہ وسیع ہے۔ دین، سماج، سیاست اور اقتصادیات ان کی دلچسپی
کے موضوعات ہیں۔ کتب کے علاوہ اخبارات، ریڈیو اور اب ٹی وی سے بھی استفادہ
کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے مایوس لوگوں کے خیالات کو کالم میں جگہ
دے کر پورے سماج کو مایوسی کے سپرد کرنے کا جرم کیا ہے۔ کالم نویس کو
مایوسی کے بجائے امید پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ
انہیں اپنا مدعا پیش کر سکوں کہ اخبار ایک پلیٹ فارم کی مانند ہوتا ہے جہاں
ہر ایک کو اپنے خیالات کے اظہار کا پورا موقعہ ملنا چاہیے لیکن صوفی صاحب
نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ نہیں ذرائع ابلاغ کو معاشرے کی تشکیل کرنا ہوتی
ہے۔بے کار لوگوں کو کام پر لگانا چاہیے، خرابیوں کو دور کرکے خوبیوں کو
فروغ دینا چاہیے۔ جھوٹ کو ختم کرکے سچ کا بول بالا کرنا چاہیے۔ کرپٹ لوگوں
کو بے نقاب کرکے کرپشن کا خاتمہ کرنا چاہیے اور نیک اور صالح لوگوں کو
پروموٹ کرکے انہیں کامیاب کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
صوفی اللہ بخش کا کہنا ہے کہ معاشرے میں ابھی بھی خیر موجود ہے، شر کے
پجاری ہوشیاری سے اس قدر پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ ہر طرف شر ہی شر نظر آرہا
ہے، نیکی اور پاک دامنی کہیں نظر نہیں آتی، خاص طور پر سیاسی میدان میں
شیطان کے چیلوں کا قبضہ ہے اور یوں لگتا ہے کہ کوئی شریف آدمی اس میدان میں
نہ تو شیطان کے چیلوں کا مقابلہ کر سکتا ہے اور نہ ہی کامیاب ہوکر وہ ایوان
میں شیطان صفت درندوں کے مقابل کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس لیے سیاست میں نمازی،
پرہیزگار اور انتہائی شریف لوگ بھی اوباش لوگوں کے حق میں ووٹ دیتے ہیں کہ
اس کام کے لیے یہی موزوں ہیں۔ صوفی صاحب کا کہنا ہے کہ اس وقت معاشرے میں
جتنا بگاڑ موجود ہے وہ ان شریر لوگوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس نیک صفت
اکثریت کی وجہ سے ہے جنہوں نے میدان سیاست کے کنارہ کشی اختیار کررکھی ہے
اور عملی میدان شریر لوگوں کے سپرد کر رکھا ہے۔ ان کے خیال میں جس دن ہمارے
معاشرے کے شریف ، امن پسند اور انصاف کے دلدادہ لوگ گھروں سے نکل آئے تو
شیطان کے چیلوں کو بھاگنے کے لیے بھی راستہ نہیں ملے گا۔ صوفی صاحب کا خیال
ہے کہ آزادکشمیر میں اسی فیصد شریف، نیک اور اسلام پسند لوگ آباد ہیں۔
نمازیں پڑھنے والے، روزے رکھنے والے اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے والے
اور شر سے نفرت کرنے والے ہیں۔ان کی مجبوری یہ ہے کہ انہیں ووٹ دینے کے لیے
کوئی نیک اور شریف آدمی میسر نہیں۔جس دن الیکشن کے میدان میں شریف لوگ قدم
رکھیں گے تو قوم بخوشی انہیں اپنی قیادت کے لیے منتخب کرے گی۔ اب کچھ با
وسائل شرفاءلوگوں کا فرض ہے کہ وہ میدان میں اتریں اور اقتدار پر قابض
اوباش لوگوں کے مقابلے میں کلمہ حق ادا کرتے ہوئے مقابلے میں آئیں۔ یہ قوم
اسلام سے والہانہ محبت رکھنے والی ہے، یہ برائی سے نفرت کرنے والے لوگ ہیں،
کیسے ممکن ہے کہ ایک شریف آدمی نماز پڑھتے ہوئے،گرمی کی شدت میں روزے رکھتے
ہوئے، حلال روزی کی خاطر خون پسینہ ایک کرتے ہوئے اوباش لوگوں کو ووٹ دے کر
اپنی دنیا اور آخرت تباہ کر دے۔صوفی صاحب کا کہنا ہے کہ کلمہ طیبہ کا حقیقی
مفہوم جاننے والا کوئی مسلمان مر جائے گا لیکن کسی سیکولر جماعت کے حق میں
ووٹ نہیں دے گا خواہ اس کا باپ ہی کیوں نہ اس کی طرف سے امیدوار ہو۔ کلمہ
طیبہ کے معنی جاننے والا جانتا ہے کہ اللہ کو اپنا حاکم، مالک اور شہنشاہ
ماننے کے بعد کسی دوسرے کی غلامی اور قیادت قبول کرنا کلمہ طیبہ کی کھلی
نفی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کرپٹ اور برادری ازم کے علمبردار کو ووٹ دینا جہنم
خریدنے کے مترادف ہے، وہ جانتا ہے کہ حرام خور کو ووٹ دینا کرپشن کو فروغ
دینے کے مترادف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ناانصاف فرد کو ووٹ دینا ظلم کو فروغ
دینے کے مترادف ہے۔ اس لیے کوئی بھی مسلمان برائی کی فروغ کے لیے اپنا حق
رائے دہی استعمال نہیں کر سکتا ۔
صوفی صاحب یہ بھی مانتے ہیں کہ سیکولر نظام کے صدیوں کے غلبے کی وجہ سے
اسلام کا حقیقی مفہوم مسلمانوں کے اذہان سے محو ہو چکا ہے۔ ہمارے لوگ شلوار
قمیض زیب تن کرنے، داڑھی رکھنے، نماز پڑھنے، روزہ رکھنے اور فاتحہ دورد
کرنے کو ہی اسلام سمجھتے ہیں۔ انہیں یہ پتہ ہی نہیں کہ مسلمانوں کے اجتماعی
نظام کو چلانا بھی نماز پڑھنے کی طرح کا اسلامی فریضہ ہے۔ انہیں یہ پتہ ہی
نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قرآن اور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کے خلاف فیصلہ کرنے
والے دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ جن کو اسلام کا
حقیقی شعور حاصل ہے ، ان پر لازم ہے کہ وہ اسے عام کرنے کے لیے دن، رات ایک
کریں اور مسلمانوں کو نبی اکرم ﷺ کا پیش کردہ اسلام کا فلسفہ سیکھائیں۔ جس
نے کبھی بھی غیر اسلامی نظام کے سامنے جھکنے کی اجازت نہیں دی۔ جس نے کبھی
طاغوت کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور جس نے کبھی باطل کے سامنے ہار
نہیں مانی۔ اللہ کا قانون قرآن تو دنیا پر حکمرانی کرنے کے لیے بھیجا گیا
تھا۔ آج کے ظالم نام نہاد مسلمانوںنے قرآن کو طاقوں میں قید کرکے اپنی مرضی
اور منشا کے قوانین بنا لیے ہیں۔ انہیں کون بتلائے کہ قانون بنانا صرف اور
صرف اللہ تعالیٰ کا استحقاق ہے اور مسلمان صرف اللہ کے بنائے ہوئے قانون کے
پابند ہیں۔ مسلمان انسانوں کے بنائے ہوئے سارے قوانین کا باغی ہوتاہے۔
صوفی صاحب نے کہا کہ میں سیکولر ازم کا مقابلہ کروں گا، میں سیکولر ازم کو
شکست دوں گا، میں سارے ظالموں کے مقابل کھڑا ہوں گا۔ میں ہر اس فرد کے
سامنے دیوار بن جاؤں گا جو مسلمانوں کو قبیلوں ، برادریوں اور فرقہ بندیوں
میں تقسیم کرکے الگ، الگ سلوک کرنے کا علمبردار ہے۔ میں ووٹ دوں گا اور
ڈنکے کی چوٹ پردوں گا۔ اس لیے کہ سیکولر نظام کو رد کرکے اسلامی نظام حیات
کے قیام کے لیے ووٹ دوں گا۔ میں ظلم کاخاتمہ کرنے اور انصاف قائم کرنے کے
لیے ووٹ دوں گا۔ میں قبیلوں اور برادریوں کی تفریق جس کو محمد ﷺ نے روندا
تھا اس ہندوانہ سوچ کو ختم کرکے کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہونے والے
برادری اور قبیلے کے احیاءکے لیے ووٹ دوں گا۔ میں ان بنیادوں کو فروغ دینے
کے لیے ایک، ایک فرد کے دل پر دستک دوں گا۔ میں عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور
جوانوں کو متوجہ کروں گا۔ میں اللہ کے باغیوں کو میدان سیاست سے بھگا کر
کلمہ طیبہ کے سبز ہلالی پرچم کی سربلندی، قرآن کی حاکمیت اور نبی اکرم ﷺ کی
لائی ہوئی شریعت کے نفاذ کے لیے ووٹ دوں گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر میں ووٹ
نہیں دوں گا تو پھر اسلام کے مقابلے میں سیکولرازم جیت جائے گا۔ اگر اسلام
ہار جائے تو پھر میری زندگی کا مقصد ختم ہو جائے گا ۔ اس لیے میں ووٹ دوں
گا اور ہر مایوس فرد کے پاس جا کر اسے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے ووٹ
دینے پر آمادہ کروں گا۔ |