بوفورس توپ کی بد عنوانی نے مسٹر
کلین کہلانے والے راجیو گاندھی کو اقتدار سے بے دخل کر دیاتھا جن کے حامی
ممبران ایوان کی تعدادان کی ماں اور نانا سے زیادہ تھی لیکن پھر اس کے بعد
ایسا لگنے لگا گویا ہندوستان کی سیاست میں بدعنوانی کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا۔
عوام نے نہ صرف چارہ کھانے والے کو بلکہ کھاد نگل جانے والوں کو بھی کامیاب
کیا ۔کمل کو ٹی وی کے پردے پر رشوت لیتے ہوئے دیکھا اور ہاتھی کو دولت کا
انبار نگلتے ہوئے پایا اسکے باوجود دونوں کو اقتدار سے نوازہ لیکن بابا رام
دیو نے یہ ثابت کر دیا کہ بد عنوانی کا مسئلہ ابھی بھی زندہ ہے بشرطیکہ اسے
اٹھانے والا بدعنوان نہ ہو۔ اس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ ایک بدعنوان سیاسی
جماعت دوسرے کی بد عنوانی کو اچھالتی تھی عوام جانتے تھے کہ اس معاملے میں
مدعی اور مدعا الیہ دونوں ایک ہی کشتی میں سوار ہیں اس لئے وہ کسی کی بات
پر کان نہ دھرتے تھے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ اس بار بدعنوانی کے خلاف
دھرم یدھ چھیڑنے والا شخص نہ تو خود بدعنوان ہے اور نہ ہی اپنے کسی سیاسی
مفاد کے پیش نظر اس معاملے کو اچھال رہا ہے تو اس کی پذیرائی مختلف انداز
میں ہوئی اور سرکار کی چولیں ہل گئیں نیز اس کا اصلی گھناؤنا چہرہ ساری
دنیا کے سامنے آ گیا ۔
زر خرید ذرائع ابلاغ اور اس سے متاثر مخلص افراد بابا رام دیو پر مندرجہ
ذیل الزامات لگا رہے ہیں:
•رام دیو کو اسی وقت یہ معاملہ اٹھانے کی کیوں سوجھی؟
•ان کی پشت پر سنگھ پریوار ہے
•وہ بی جے پی کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہے
•ان کے پاس دولت کا انبار کیوں ہے؟
بابا رام دیو نے یہ مسئلہ پہلی بار نہیں اٹھایا بلکہ وہ برسوں سے اس معاملے
کو اٹھا رہے ہیں۔وہ اپنے مختلف بیانات اور انٹر ویو میں اس جانب توجہ مبذول
کروا چکے ہیں لیکن ایک فرق ضرور واقع ہوا ہے ۔ اس سے پہلے بات زبانی جمع
خرچ تک محدود تھی اب انہوں نے عملاً تحریک چلانے کا فیصلہ کر لیا ۔ کوئی
شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ تحریک چلانے کا فیصلہ ابھی کیوں کیا ؟پہلے کیوں
نہیں کیا؟ تو یہ ایک مہمل سوال ہے اس لئے کہ وہ جب بھی اس طرح کا فیصلہ
کرتے یہ سوال رونما ہوجاتا اس لئے یہ سوال سرے کسی اہمیت کا حامل ہی نہیں
ہے کہ یہ فیصلہ کب کیا گیا بلکہ سوال یہ ہونا چاہئے کہ کیا آیا یہ فیصلہ
صحیح ہے یا غلط؟ اگر کوئی شخص یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ملک کی ہزاروں کروڑ کی
دولت کو سوئیس بنکوں سے واپس ملک میں لایا جانا چاہئے تو اس کا یہ مطالبہ
جائز ہے یا نہیں ؟
یہ ایک نہایت شرمناک حقیقت ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں اناج کے گودام
بھرے پڑے ہیں اس کے باوجود ۱۵۰ ضلع کی عوام ہر سال بھکمری و فاقہ کشی کا
شکار ہوتی ہے یہ بیان کسی حزب اختلاف یا رام دیو کا نہیں بلکہ عدالت عالیہ
یعنی سپریم کورٹ کا ہے ۔ سپریم کورٹ کے جج نے پچھلے دنوں حکومت سے زائد
اناج مہیا کرنے کا تقاضہ کرتے ہوئے حکومت کی غربت کو ناپنے کی پیمائش کو
بھی چیلنج کیا ۔ دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت بھارت میں شہری علاقوں میں غریب
وہ ہے جس کی آمدنی یومیہ ۲۰ روپئے ہے یا جو ۱۷ روپئے ہر روز خرچ کرتا ہے
یا دیہات میں جس کی آمدو خرچ ۱۲ روپئے یومیہ ہے ۔ آج کل کی مہنگائی کے
پیش نظر یہ معیار ویسے ہی بہت پست ہے اس کے باوجود اس ملک میں ۳۶ فیصد عوام
غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جسٹس بھنڈاری اور ورما کے مطابق یہ
رقم کم از کم دوگنی ہونی چاہئے اگر ایسا کر دیا جاتا ہے غربت کی شرح میں کس
قدر اضافہ ہو جائیگا اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ اس کے
باوجود سوئیس بنکوں میں ہندوستان کا کالا دھن سب سے زیادہ ہے اور اپنے قریب
ترین حریف روس کا چارگنا ہے ۔ ایک اعدادو شمار کے مطابق ۲۰۰۹ء میں یہ ۲۱
لاکھ کروڈ تھی اور ہر سال اس میں ایک لاکھ کروڈ کا اضافہ ہوتا ہے ۔ اگر
۲۰۰۸ء میں اسے لاکر ملک کی ۴۵ کروڈ عوام میں تقسیم کر دیا جاتا تو ہر ایک
کے حصے میں ایک لاکھ روپئے اور غریبی کا خاتمہ ہو جاتا لیکن اگر حکومت یہ
اقدام کر دیتی تو ان ۲۵ ہزار لوگوں کا کیا ہوتا جو سال بھر میں کئی بار
سوئزرلینڈ اپنی دولت کی دیکھ بھال کیلئے آتے جاتے رہتے ہیں سرکار کیلئے وہ
ان ۲۵ ہزار لوگوں کی اہمیت ۴۰ کروڑ رائے دہندگان سے زیادہ ہے ۔ایسے میں اگر
کوئی اس لوٹ کے مال کو واپس ہندوستان کے خزانے میں لاکر غریبوں کی فلاح و
بہبود کرنے کا مطالبہ کرتا ہے تو اس میں کیا غلط ہے ؟
یہ بات بابا رام دیو نہیں کہہ رہے بلکہ اس سال جنوری میں سپریم کورٹ کے جج
نے کہی جبکہ جرمنی کے لیشٹن سین بنک میں کثیر دولت کے جمع کرنے کا معاملہ
سامنے آیا اور حکومت نے ۲۶ لٹیروں کا نام بند لفافے عدالت کو دیتے ہوئے کہا
کہ ہم اسے ظاہر نہیں کر سکتے۔ عدالت نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے
کہا آخر اس میں کیا مشکل ہے ۔ جسٹس سدرشن اور نجار نے کہا یہ تو سیدھا اور
صاف قومی دولت کی چوری کا معاملہ ہے ایسے میں حکومت مجرمین کی اس قدر پشت
پناہی کیوں کر رہی ہے ۔جن لوگوں کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ حکومت نے رام
دیو کے خلاف یہ احمقانہ اقدام کیوں کیا انہیں سپریم کورٹ کے بیان کو سامنے
رکھنا چاہئے اس لئے کہ جو حکومت بدعنوانوں کی محافظ ہے وہ ان کے خلاف کام
کرنے والوں پر اگر ظلم نہیں کرتی تو اور کر بھی کیا کر سکتی ہے ۔پہلے تو
حکومت کو اندازہ تھا کہ یہ بھی ایک ڈرامہ ہوگا اور وہ بابا کو کچھ مراعات
وغیرہ دے کر منا لیں گے اس لئے اس نے سودے بازی کی کوشش کی لیکن جب دیکھا
کہ یہ شخص تو سنجیدہ معلوم ہوتا ہے تووہ خودڈر گئی اورسرکاری دہشت گردی پر
اترآئی۔
رام دیو پر سنگھ پریوار کی پشت پناہی کا الزام اس لئے لگایا جاتا ہے ان کے
اسٹیج پر اچانک سادھوی رتھمبرا نمودار ہوگئی لیکن کسی فسطائی خاتون کی
حمایت کے نتیجے میں اس تحریک کو فسطائی قرارنہیں دیا جاسکتا ۔ اگر رام دیو
خود وشوا ہندو پریشد کے اسٹیج پر پہنچ جاتے یا سادھوی رتھمبرا کے پروچن میں
جا دھمکتے تو بے شک یہ الزام حق بجانب ہوتا لیکن ایسا کبھی بھی نہیں ہوا
بلکہ اس پورے عرصے میں ان سے کوئی بھی فسطائی تو کجا فرقہ وارانہ بیان بھی
منسوب نہیں کیا جا سکا ۔ بی جے پی کی حمایت کو بھی مختلف معنی پہنائے جارہے
ہیں حالانکہ یہ تو بی جے پی کی موقع پرستی ہے جو وہ اس تحریک کی آنچ میں
اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کی کوشش کر رہی ہے اگر اس وقت مرکز میں بی جے پی
کی حکومت ہوتی تو کانگریس بھی بعینہ وہی سب کررہی ہوتی جو اب بی جے پی والے
کر رہے ہیں ، ہندوستان کی مفاد پرست سیاسی جماعتوں کا یہی معمول ہے اور
بابا رام دیو کی حمایت تو نہ صرف بی جے پی نے بلکہ کمیونسٹ، سماجوادی اور
بہوجن سماج پارٹی نے بھی کی ہے بلکہ کئی غیر سیاسی تنظیموں اور رہنماؤں نے
ان کے خلاف کی جانے والی سرکاری کاروائی کی مذمت کی ہے اور اب توسپریم کورٹ
نے اس کے خلاف نوٹس جاری کر دئیے ہیں اس لئے بی جے پی کے ذریعہ کی جانے
والی حمایت کے باعث کسی کو فسطائی کٹھ پتلی قرار دے دینا زیادتی معلوم ہوتا
ہے ۔ دگ وجئے اور آزاد جو بڑھ چڑھ بابا رام دیو کو سنگھی مکھوٹا قرار دے
رہے اس بات کا جواب کیوں نہیں دیتے کہ کانگریس کے چار چار وزراء ان کا
استقبال کرنے ہوئی اڈے پر کیوں گئے تھے اور پھر ہوٹل میں بیٹھ کر اس سنگھی
مکھوٹے سے کون سی رازو نیاز کی باتیں ہوتی رہیں۔
حکومت نے اس بہیمانہ کارروائی کیلئے جس وقت کا انتخاب کیا وہ نہایت دلچسپ
ہے ۔ رات کے ایک بجے نہتےعورتوں اور بچوں سمیت مظاہرین پر تشدد کا جواز کس
قدر بھیانک ہے جو لوگ اس کارروائی کو جائز قرارادے رہے ہیں وہ دومنٹ کیلئے
تصور کریں کہ اگر ان کے اہل خانہ کسی مظاہرے میں شریک ہوتےجس کو اس رویہ کا
شکار ہونا پڑتا تو انہیں کیسا لگتا؟ حکومت کی جانب سے پیش کیا جانے والا
احمقانہ جواز بھی نہایت دلچسپ ہے مثلاً:
•بابارام دیو کو یوگا کی اجازت دی گئی تھی۔
•رام دیو نے یوگا کو سیاسی رنگ دے دیا
•پانچ ہزار افراد کو جمع کرنے اجازت تھی
•بابا اپنے وعدے سے مکر گئے
•امن و سلامتی کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا
بابا رام دیو عرصۂ دراز سے دنیا بھر میں یوگا کے کیمپ لگاتے رہے ہیں لیکن
اس مر تبہ ان کا ارادہ یوگا سکھلانے کا نہیں تھا بلکہ بدعنوانی کے خلاف
مظاہرہ کرنے کا تھا اس حقیقت سے ملک کا بچہ بچہ واقف تھا اس کے باوجود
انہیں صرف یوگا کرنے کی اجازت کیوں دی گئی یہ ایک بنیادی سوال ہے ؟ بابا
رام دیو کا استقبال کرنے کیلئے جو وزراءکرام ہوائی اڈے پہونچے اور پھر
انہیں اپنے ساتھ ہوٹل لے گئے تو کیا وہ وہاں یوگا کی تعلیم حاصل کر رہے تھے
یا اس مظاہرے کے سلسلے میں گفت و شنید کر رہے تھے ؟ یوگا کو اگر کسی نیک
مقصد کی خاطر سیاسی رنگ دیا جاتا ہے تو اس میں ہرج کیا ہے؟ مظاہرین کی
تعداد طے کرنے کا اختیار کسے ہے؟ اجازت دینے والوں کو یا مظاہرہ کرنے والوں
کو؟ وعدے سے مکرنے والی بات کم ازکم کسی سیاسی جماعت کوتو زیب نہیں دیتی جن
کو نہ تو اپنے وعدہ کا کوئی پاس و لحاظ ہوتا ہے اور نہ عوام جن کے عہد کو
کوئی اہمیت دیتی ہے ۔ کانگریس نے دو سال قبل اپنے انتخابی منشور میں وعدہ
کیا تھا کہ ۱۰۰ دنوں کے اندرملک کی ساری دولت جو بیرونی ممالک میں پوشیدہ
رکھی گئی ہے اسے واپس لائے گی لیکن ۷۰۰ سے زیادہ دن گزر چکے ہیں اگر
کانگریس والے اپنے عہد کو پورا کر دیتے تو آج اس تحریک کی ضرورت ہی پیش
نہیں آتی ۔ حکومت سے جومطالبہ کیا گیا تھا اس کو پورا کرنے بجائے حکومت
اول تو اس مظاہرے سے سیاسی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی اور بدعنوانی ختم
کرنے کے بجائے مظاہرے کے خاتمے کی شرائط طے کرنے لگی ۔ اگر حکومت کی جانب
سے اس معاملے میں لیپا پوتی کے بجائے ٹھوس اقدام کئے جاتے تو مظاہرہ اپنے
آپ ختم ہوجاتا۔جہاں تک امن و سلامتی کو لاحق ہونے والے خطرے کا سوال ہے جس
کانگریس پارٹی کی آستین سے اب بھی سکھوں کے قتل عام کی بو آتی ہے یہ
الزام زیب نہیں دیتا جو لوگ جامعہ ملیہ میں اپنے شکاری کتوں کو بھیج کر دن
دہاڑے معصوم نوجوانوں کو شہید کردیتے ہیں ان کا امن و سلامتی کے بہانے رام
لیلا میدان میں بیٹھنے والے نہتے مظاہرین پر تشدد کرنا سے عین توقع کے
مطابق ہے ۔
بابا رام دیو پر بے شمار دولت جمع کرنے کا الزام بھی ہے اور ان کی املاک کو
بڑے زورو شور کے ساتھ ذرائع ابلاغ میں اچھالا جارہا ہے ۔کیا دستور کی رو سے
کسی سدھو سنیاسی کو دولت جمع کرنے پر کوئی روک ٹوک ہے ۔ کیا دولت صرف سیاسی
رہنما جمع کر سکتے ہیں اور بے حیائی کے ساتھ اپنے کاغذاتِ نامزدگی میں اس
کا اظہار کر سکتے ہیں جبکہ ان میں سے اکثر کا کوئی جائز ذریعۂ آمدنی نہیں
ہوتا ۔بابا رام دیو اپنے ذاتی جہاز سے دہلی آئے تھے اس کے باوجود مرکزی
وزراء ان سے ملنے کی خاطر ہوائی اڈے پر تشریف لے گئے حالانکہ غیر قانونی
دولت جمع کرنے کے الزام میں انہیں جیل لے جانا چاہئےتھا۔ تو اس پر اس تحریک
کے آغاز سے قبل حکومت کو سوامی رام دیو کی املاک پر دھاوابولنے کا مکمل
اختیار حاصل تھا ۔ حکومت اس قدر طویل انتظار کیوں کیا؟ اور اب بھی اس دولت
میں سے کیا کچھ جائز اور کتنا ناجائز ہے یہ بتانے کے بجائے دولت کس قدر ہے
اور ایک سنیاسی کو اس کی کیا ضرورت ہے اس طرح کے بے جا سوالات کے ذریعہ
شکوک و شبہات کیوں پیدا کئے جارہے ہیں ؟
اس بارے میں کچھ لوگ کہتے ہیں کالے دھن کا واپس ملک میں آناتو نا ممکن ہے
ہاں اس کوشش میں سرکار گر سکتی ہے ؟ جمہوریت کے اندر حکومت کا بننا بگڑنا
ایک معمول کی بات ہے بغیر کسی معقول وجہ کے لوگ اقتدار سے محروم کر دئیے
جاتے ہیں اس لئے کسی اہم اور ضروری مقصد کے حصول کی خاطراگر حکومت گر جاتی
ہے تو گرے اپنی بلا سے حکومت کو گرنے سے بچانا عوام کی فلاح و بہبود سے
زیادہ اہمیت کا حامل کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔کسی مقصد کا حصول ممکن بھی ہے یا
نہیں اس کا فیصلہ ان لوگوں کو نہیں کرنا چاہئے جو خاموش تما شائی بنے ہوئے
ہیں یا تحریک کی مخالفت کر رہے ہیں بلکہ ان پر چھوڑ دینا چاہئے جو اس تحریک
کو چلارہے ہیں اور اس کیلئے مختلف قسم کی قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔ ویسے
کسی تحریک کو چلانے کیلئے اس کی کامیابی کے امکانات کا یقینی ہونا شرط ہر
گز نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ بیشتر اوقات جو چیز ناممکن نظر آتی ہے وہ
آگے چل کر ممکن ہو جاتی ہے بشرطیکہ اس کیلئے عزم وحوصلہ کے ساتھ جدوجہد کی
جائے ۔انسانی تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے ۔ آج سےچند ماہ قبل کون سوچ سکتا
تھا کہ مصر میں ایسا بڑا عوامی انقلاب برپا ہو جائیگا لیکن وہ بات جو لوگوں
کے خواب و خیال میں نہیں تھی دیکھتے دیکھتے سچ ہو گئی اسی لئے انقلابی
تحریکیں انتخابی جماعتوں کی طرح بہت زیادہ حساب کتاب نہیں کر تیں۔ بابا رام
دیو کی بدعنونی کے خلاف تحریک سے بالآخر کیا حاصل ہوگا یہ تو کوئی نہیں
کہہ سکتا مگر ابھی تک یہ اس کے نتیجے میں دو بڑی غلط فہمیاں دور ہو چکی ہیں
•پہلی تو یہ کہ موجودہ جمہوری نظام کے اندر ایک عظیم عوامی تحریک برپا کرنے
کیلئے انتخاب میں حصہ لینا ناگزیر ہے ۔ بابا رام دیو کبھی بھی انتخاب کے
بکھیڑے میں نہیں پڑے اس کے باوجود وہ ایک ایسی تحریک برپا کرنے میں کامیاب
ہوگئے جس سے سرکار کی نیند اڑ گئی اور اسے آدھی رات میں تشددپر اترنا پڑا
•دوم یہ کہ موجودہ حالات میں سیاست کو برائیوں سے پاک کرنے کیلئے پارلیمان
کی دہلیز پر قدم رکھنا لازمی ہے ۔ حقیقت اس کے بر عکس ہے وہ جماعتیں جو اس
انتخابی کھیل میں شامل ہیں بد عنوانی کو دور کرنے کے بجائے اس میں ملوث ہو
گئی ہیں حالانکہ ان سب کو برپا کرنے والے لوگ نہایت اصول پسند اور انقلابی
نظریات کے حامل رہے ہیں ۔ گاندھی جی کانگریس کے روح رواں تھے اور رام منوہر
لوہیا جنتا پریوار کے۔ پیریار نے ڈی کے تحریک کی بنیاد ڈالی جس بطن سے ڈی
ایم کے نکلی اور کانشی رام نے بہوجن سماج کی ان میں سے کوئی بحی بدعنوان
نہیں تھا بلکہ آرایس ایس کے ہیڈگیوار پر بھی بدعنوانی کا کوئی الزام کبھی
نہیں لگا لیکن ان شاگردوں کو ایوان کی رونق بنے ہوئے ہیں دیکھا جائے تو
ہرایک کا دامن دغدار نظر آتا ہے ۔ ایسے میں ایک ایسا شخص جو کبھی بھی
اقتدار کے گلیارے میں داخل نہیں ہوا بدعنوانی جیسی بڑی برائی کے خلاف ایک
شمشیر بے نیام بن گیا اور عوام نے بھی کاروباری سیاستدانوں کے بجائے ایک
یوگا گرو کو زیادہ قابلِ اعتبار سمجھا یہ حیرت انگیز حقیقت ہے ۔
ہندوستان کے سارے بدعنوانوں کی آماجگاہ شہر دہلی ہے جہاں سے وہ ملک کی دولت
لوٹ کروہ غیر ملکی بنکوں میں لے جاتے ہیں ۔ دل والوں کی دلی ان کا دل کھول
کر خیر مقدم کرتی ہے لیکن اگر کوئی اس لوٹ کھسوٹ کے خلاف مہم چلانا چاہتا
ہے تو اسے دہلی شہر میں داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ رام دیو اور ان کے ہمنواؤں
کے ساتھ جو کچھ ہوا اس پر وزیر اعظم کو افسوس ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہمارے
پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا ۔ مایا وتی بھی مرکزی حکومت کی بد
سلوکی کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں لیکن دونوں بابا رام دیو دہلی آنے کا
راستہ دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔کیا آزادی کے بلند بانگ دعویٰ کرنے والے
ہندوستان کی پیشانی پر یہ ایک کلنک نہیں ہے ؟ |