کیا یہ بجٹ ہمارا بجٹ ہے یا آئی ایم ایف کا بجٹ ہے

بجٹ نے غریب کو زندہ درگور کردیا۔ اس سال بھی ہم نوٹ چھاپ کر گزارہ کریں گے
اس وقت ہماری قوم کا بچہ بچہ اور ہر مرد اور خاتو ن ساٹھ ہزار روپے فی کس مقروض ہے

حال ہی میں ایک ٹی وی چینل پر ہونے والے سروے میں ۹۰ فیصد عواک کی رائے یہ تھی کہ یہ بجٹ ہمارا بجٹ نہیں ہے بلکہ یہ آئی ایم ایف کا بنایا ہوا بجٹ ہے۔

امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے امیروں پر ٹیکس لگا کر آمدنی میں اضافہ کرنے کے بجائے نوٹ چھاپنے پر تکیہ کرے گی۔ جِس کی وجہ سے افراطِ زر میں اضافہ ہو رہا ہے اور معیشت روزگار کے کافی مواقع پیدا نہیں کر رہی ہے۔اخبار کہتا ہے کہ عالمی بینک نے پچھلے سال سے پاکستان کو ساڑھے تین ارب ڈالر کی ادائیگی روک رکھی ہے، جو پاکستان کے لیے 11.3ارب ڈالر کی آخری قسط ہے۔ وجہ اِس کی یہ ہے کہ پاکستان نے اپنے بجٹ خسارے کو کم کرنے کیلیے سخت قدم نہیں اٹھائے۔عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی بجٹ کی امداد کی مد میں ایک ارب ڈالر کی رقم روک رکھی ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ پاکستان نے نہایت امیر لوگوں پر ٹیکس نہ لگا کر قرضوں پر تکیہ کر رکھا ہے۔ اِس کی بجٹ کا ایک چوتھائی پرانے قرضوں پر سود ادا کرنے پر خرچ ہوجاتا ہے، جِس کے معنی یہ ہیں کہ صحتِ عامہ اور تعلیم کیلیے تھوڑی رقم دستیاب ہے۔حکومت نے بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے نوٹ چھاپنے پر تکیہ کر رکھا ہے۔ رواں مالی سال کیلیے اس کا تخمینہ مجوعی قومی پیداوار کا چھ فی صد ہے۔ ایسا کرنے سے حکومت نے افراطِ زر کو 13فی صد تک بڑھنے دیا ہے۔ اِس سے پیدا شدہ صورتِ حال کی وجہ سے نجی کاروباری طبقے کو بینک قرضے حاصل کرنے میں مشکل آتی ہے۔بیرونی سرمایہ کار پہلے ہی پاکستان کی سکیورٹی کی صورتِ حال کی وجہ سے ہچکچاہٹ میں مبتلا ہیں اور کم و بیش ادھر کا رخ نہیں کرتے۔ نتیجتا، ملک کی شرحِ نمو سکڑ رہی ہے۔پاکستان کی معیشت کی تباہی کی بنیادی وجہ عالمی اداروں کے قرضے ہیں۔ جن کے سبب ہم آئے دن ان کی شرائط کی پیروی کرنے پر مجبور ہیں۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط نے ہمیں بری طرح جکڑ رکھا ہے۔

آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان قرضہ وصولی کے اقدامات کو بہتر بنائے اوراپنے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرے ۔ آئی ایم ایف نے یہ بھی کہا ہے وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کے لئے پرعزم ہے اور یہ مذاکرات چند ہفتوں تک جاری رہیں گے ،اور جولائی 2011 کو مشن بھیجا جائیگا۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں سیلاب اور تیل کی قیمتوں میں اضافے سے معاشی ترقی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ افراط زر کی بلند شرح برقرار ہے اور بجٹ کے مسائل کی وجہ سے میکرواکنامک استحکام ممکن نہیں ہو رہا تاہم مارچ میں نئے ٹیکس اقدامات ایک اہم سنگ میل ہے۔ آئی ایم ایف کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لئے ٹیکس نیٹ کو بڑھا کر ٹیکس ریونیو میں اضافہ کیا جائے اور خصوصاً جنرل سیلز ٹیکس میں اصلاحات نافذ کی جائیں۔ آئی ایم ایف نے صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر کے شعبوں میں حکومتی اخراجات میں اضافہ اور مالیاتی شعبے کی کڑی نگرانی کرکے استحکام کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔سال گزشتہ کے جائزے میں کہا گیا ہے کہ سال 2010 میںحکومتی اخراجات کو منجمد کرنے کے فیصلہ پر عمل نہ ہو سکا۔ رواں مالی سال کے دوران 400 ارب روپے سے زائد کے اضافی اخراجات کر دئیے گئے۔ مالی سال کےاختتام تک بجٹ خسارہ 915 ارب روپے کے ساتھ ساڑھے 5 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ رواں مالی سال کے لئے بجٹ خسارہ 4.7 فیصد مقرر کیا گیا تھا۔ دہشت گرد کے خلاف جنگ اور بجلی پر سبسڈی کے نتیجے میں پہلے 9 ماہ میں بجٹ خسارہ 783 ارب روپے کے ساتھ 5.3 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 9 ماہ میں 1495 ارب روپے کی محاصل جمع ہوئے تھے۔ حکومتی اخراجات کو منجمد کر نے کے حوالے سے بلند و بانگ دعوے کئے گئے تھے۔ ان دعوﺅں کے برعکس اخراجات 2278 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ جن میں 1909ارب روپے کے غیر ترقیاتی اخراجات شامل ہیں۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق معاشی استحکام اور بجٹ خسارے میں کمی کے لئے محصولات میں اضافہ اور شاہ خرچیوں میں کمی نا گزیر ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ اگر اس قسم کے اقدامات نہ کئے گئے تو ملک پر قرضوں کے بوجھ میں مزید اضافہ ہو جائےگا۔حکومت نے یکم جولائی سے شروع ہونے والے نئے مالی سال سنہ دو ہزار گیارہ اور بارہ کے لیے 27کھرب 67ارب روپے کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے جو کہ رواں سال کے بجٹ سے چودہ اعشاریہ دو فیصد زیادہ ہے۔ وفاقی وزیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ورلڈ بنک کے ایما پر حکومت میں شامل کئے گئے ہیں۔ قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کیا تو کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ کوئی انھیں روٹی پیش کر رہا تھا تو کہیں سے ان کو چوڑیاں پیش کی جارہی تھیں، بطور وزیرِ خزانہ وہ دوسری بار بجٹ پیش کررہے تھے۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کا یہ چوتھا بجٹ ہے جس نے غریبوں کو کنگال اور امیروں کو مالا مال کردیا ہے۔ ۔ اس بجٹ میں دفاعی اخراجات کے لیے 4 کھرب 95ارب اکیس کروڑ پچاس لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں جو کہ رواں سال کے بجٹ سے 50 ارب ستاون کروڑ پچاس لاکھ روپے یا قریبا دس اعشاریہ دو فیصد زیادہ ہیں۔ وفاقی وزیر عبدالحفیظ شیخ نے اس بجٹ میں مجموعی وفاقی خسارے کا تخمینہ آٹھ کھرب انچاس ارب روپے بتایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تخمینہ شدہ صوبائی سرپلس کی مد میں ایک سو پچیس ارب روپے جانے کی وجہ سے مجموعی مالی خسارہ سات کھرب چوبیس ارب روپے ہوگا۔ اس خسارے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ خسارے کو بیرونی امداد اور بینکوں سے قرضہ حاصل کر کے پورا کیا جائے گا۔ بجٹ میں ٹیکس کی وصولی کا تخمینہ بیس کھرب چوہتر ارب اٹھارہ کروڑ بیس لاکھ روپے لگایا گیا ہے جو کہ رواں مالی سال کے مقابلے میں تیئیس فیصد زائد ہے۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق جاری اخراجات کا تخمینہ قریبا تئیس کھرب پندرہ ارب روپے لگایا گیا ہے جو کہ رواں مالی سال سے ایک فیصد زیادہ ہیں۔دفاع کے لیے بجٹ کے مد میں چار کھرب پچانوے ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ ریٹائرڈ فوجیوں کو دی جانے والی پنشن کی رقم اس میں شامل نہیں ہے۔ گزشتہ برس کی طرح نئے مالی سال کے لیے بجٹ میں ایک نئی مد صوبوں کے علاوہ امداد ہے جس میں تین سو چالیس ارب روپے مختص ہیں۔ وزارت خزانہ کے حکام کا کہنا ہے کہ اس رقم کا زیادہ تر حصہ بھی دفاعی مقاصد کے لیے ہے جو فوجی آپریشنز، خصوصی ٹاسک یا سیلاب وغیرہ جیسی قدرتی آفات میں کام کرتے ہیں انہیں ادا کی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے اصل معنوں میں دفاعی بجٹ کا مجموعی حجم آٹھ سو ارب روپے سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ رواں سال میں دفاع کے لیے مختص رقم سے 35 ارب بائیس کروڑ روپے زیادہ خرچ کیے گئے۔آئندہ مالی سال 2011-12 ء کے لئے قومی ترقیاتی پروگرام کا حجم 7 کھرب 30 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے' قومی ترقیاتی پروگرام کیلئے 2 کھرب 90 ارب صوبائی ترقیاتی پروگراموں کیلئے 4 کھرب 30 ارب جبکہ ایرا کے تحت منصوبوں کے لئے دس ارب روپے رکھے گئے ہیں بجٹ دستاویز کے مطابق وفاقی بجٹ سال 2011-12 ءمیں قومی ترقیاتی پروگرام کا مجموعی حجم 7 کھرب 90 ارب روپے ہے صوبائی ترقیاتی پروگراموں کیلئے چار کھرب 30 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ ایرا کے تحت منصوبوں کیلئے دس ارب روپے مختص کئے گئے ہیں علاوہ ازیں خصوصی پروگراموں کے تحت 32 ارب روپے کے منصوبے مکمل کئے جائیں گے اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی کیلئے چالیس ارب روپے کا ترقیاتی پروگرام رکھا گیا ہے۔ وفاقی بجٹ 2011-12 ئ میں پانی و بجلی کیلئے 36 ارب 60 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں پانی و بجلی کے منصوبوں میں منگلا ڈیم کی توسیع کے لئے چھ ارب نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کیلئے 11 ارب دیامیر بھاشا ڈیم کے لئے 18 ارب روپے سدپارہ گومل زام ڈیم کیلئے 1 ارب اور بلوچستان میں 100 چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کیلئے پچاس کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل کی گئی 15 وزارتوں کیلئے وفاقی بجٹ میں کوئی رقم مختص نہیں کی گئی، اٹامک انرجی کمیشن کیلئے 22 ارب اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کو 14 ارب روپے دیئے جائیں گے بجٹ دستاویزکے مطابق وفاقی بجٹ 2011-12 ء میں وزارت ریلوے کے لئے 15 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں منصوبہ بندی اور ترقیاتی ڈویڑن مختلف منصوبوں پر 32 ارب روپے خرچ کرے گا ' وفاقی بجٹ میں وزارت صنعت و پیداوار کے لئے 2 ارب 10 کروڑ ' وزارت داخلہ کیلئے 5 ارب 80 کروڑ ' وزارت دفاع کیلئے 3 ارب 85 کروڑ وزارت دفاعی پیداوار کیلئے 1 ارب 50 کروڑ وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کیلئے 1 ارب 20 کروڑ ریاستوں اور سرحدی علاقہ جات کے لئے 10 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ صوبوں کو منتقل کی گئی 15 وزارتوں کیلئے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی ' بجٹ دستاویز کے مطابق پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کو 22 ارب 20 کروڑ روپے مہیا کئے جائیں گے جبکہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کیلئے 14 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت نے دہشتگردی کیخلاف جنگ اور دفاعی اداروں کی استعداد کار میں اضافے کیلئے آئندہ مالی سال 2011-12ئ کیلئے 53ارب روپے اضافے کے ساتھ 495ارب 21کروڑ 50لاکھ روپے کا دفاعی امور کے بجٹ کی منظوری دی ہے۔ پیش ہونے والی بجٹ دستاویز کے مطابق آئندہ مالی سال کے دفاعی بجٹ میں ملازمین سے متعلقہ اخراجات کیلئے 206ارب 48کروڑ 80لاکھ روپے رکھے گئے ہیں جو گزشتہ سال 176ارب 72کروڑ 60لاکھ روپے تھے ، عملی اخراجات کیلئے 128ارب 28کروڑ 30لاکھ روپے ، مادی اثاثہ جات کیلئے 117ارب 59کروڑ 10لاکھ روپے ، تعمیرات عامہ کیلئے 42ارب 63کروڑ 80لاکھ روپے اور منفی وصولیات کیلئے 1ارب 25کروڑ 50لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ دوسری جانب آئندہ مالی سال 2011-12ئ کیلئے پی ایس ڈی پی میں ڈیفنس ڈویڑن کیلئے 3ارب ،84 کروڑ 57لاکھ روپے روپے مختص کئے گئے ہیں جن کے ذریعے 35 جاری اور نئی سکیموں کی تکمیل کو یقینی بنایا جائے گا۔ پی ایس ڈی پی میں دفاعی شعبے میں مختص کئے گئے فنڈز میں گوادر میں نئے انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر کیلئے 1ارب 10کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ سیٹلائٹ سسٹم کیلئے 1ارب 59کروڑ 37لاکھ روپے شامل ہیں۔ وفاقی حکومت نے ممبران پارلیمنٹ کیلئے مختص خصوصی فنڈز کیلئے آئندہ مالی سال 2011-12ءکیلئے 33 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ پی ایس ڈی پی کے مطابق پیپلز ورکس پروگرام ون کیلئے آئندہ مالی سال کیلئے 5ارب جبکہ پیپلز ورکس پروگرام 2کیلئے 28ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔گزشتہ سال وفاقی حکومت نے سپیشل پروگرام کیلئے 30ارب روپے مختص کئے تھے لیکن خراب معاشی صورتحال کے باعث 22ارب 77کروڑ 50لاکھ روپے جاری کئے گئے ۔پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں کا بجٹ پر کوئی ہوم ورک نہیں ہوتا اس لئے وہ بجٹ پر تنقید برائے تنقید تک ہی رہتے ہیں۔ اس بار بھی سیاسی جماعتوں نے روائیتی تبصرہ کرتے ہوئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں وفاقی ملازمین کے ایڈہاک الاونس اور پینشن میں اضافوں کا خیر مقدم اور افراطِ زر کے تناظر میں بجٹ کو عوام کے لیے مجموعی طور پر غیر تسلی بخش قرار دیا ہے۔حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنماء پرویز رشید کا کہنا ہے کہ حکومت نے بجٹ کی تیاری میں دور اندیشی سے کام نہیں لیا۔انہوں نے ملک میں توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے بجٹ میں سامنے آنے والے اقدامات کو بھی ناکافی قرار دیا۔ لیکن مسلم لیگ ن اس سلسلے میں کوئی متبادل پروگرام پیش کرنے سے بھی قاصر رہی۔ جماعتِ اسلامی کے رہنماء پروفیسر خورشید احمد نے اس بارے میں تشویش کا اظہار کیا کہ وفاق کے ان پچیس محکموں کا مستقبل کیا ہوگا جنہیں ختم کرنے کا فیصلہ اٹھارہویں آئینی ترمیم میں کیا گیا ہے۔ ان کی تشویش اس اعتبار سے بجا ہے کہ جو محکمے صوبوں کو دئیے جائیں گے، ان کے تقریباً ڈھائی لاکھ سرکاری ملازمین متاثر ہوں گے لیکن بجٹ ان کے بارے میں بالکل خاموش ہے۔پروفیسر خورشید نے وی اے ٹی کا ذکر نہ ہونے پر بھی تشویش ظاہر کی۔ ان کے بقول سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافے سے مہنگائی بڑھے گی۔ان کی رائے میں افراطِ زر، قرضوں اور توانائی کے بحران کے بارے میں بجٹ میں خاطر خواہ اقدامات کا اعلان نہیں کیا گیا۔آفتاب احمد خان شیرپاؤ اس بجٹ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت اپنا بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے مزید قرضے لے گی جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو گا اور غریب آدمی متاثر ہو گا۔ فاٹا کے منیر اورکزئی اس بارے میں کہتے ہیں کہ "تمام دنیا سے یہ (حکومت) پیسے فاٹا کے نام پر بٹورتے ہیں۔ یہاں حالت یہ ہے کہ ہمارے موجودہ بجٹ سے پچاس فیصد حصہ کاٹ لیا اور نئے بجٹ کو اڑتیس فیصد کم کر دیا"۔ اس بجٹ سے چھوٹے صوبے خوش نہیں ہیں ۔صوبہ بلوچستان سے بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے رہنماءیعقوب بزنجو آٹا، گھی اور دالوں پر ختم کی جانے والی سبسڈی کو عوام دوستی کے خلاف قرار دیتے ہیں۔ وہ بلوچستان کے لیے ٹیوب ویل کی سبسڈی ختم کرنے کے فیصلے کو بھی تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

2011-12کے بجٹ کو منظور کرانے کے لئے حکومت نے بڑے جتن کئے ہیں۔ مسلم لیگ ق کو وزارتوں پر اپنے ساتھ ملایا گیا ہے۔ جبکہ جے یو آئی کے غفور حیدری کو سینٹ میں حزب اختلاف منتخب کراکے رام کیا گیا ہے۔ بجٹ اجلاس میں اپوزیشن اراکین نے اسپیکر کے سامنے جمع ہوکر ’لوڈ شیڈنگ نا منظور‘، ’امریکی غلامی نا منظور‘، ’جھوٹ بولنا بند کرو ’شیم‘ ’شیم‘ ،’ڈاکو‘ ’ڈاکو‘ اور ’آزادی، آزادی‘ کے نعرے لگائے۔ ٹی وی پر عوام کو صرف ڈاکو ڈاکو کا شور سنائی دے رہا تھا۔ لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ کون کس کو ڈاکو کہہ رہا ہے۔ لٹے پٹے عوام کے لئے تو سارے ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے کہے جاسکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک، ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی شرائط ہیں جن میں پاکستانی معیشت اس طرح جھکڑی ہوئی ہے کہ اس کی اندرونی قوت نمو ان شرائط کی وجہ سے تقریباً نیم مردہ حالت میں پہنچ چکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی ملک کی معیشت کا پہلا راہنما اصول اس کے اپنے عوام کی خوشحالی ہونا چاہئے۔ کوئی ایسی معیشت جو اپنے ملک کے عوام کی خوشحالی کو پس پشت ڈال کر ترقی کرنے کا دعویٰ کرے وہ یقیناً غلط ترجیحات کے راستے پر گامزن ہے جسے ٹھیک راستے پر لانا حکومت وقت کی پہلی ترجیح ہونا چاہئے۔ اگر کسی ملک کے عوام کو دو وقت کی روٹی نہ ملتی ہو اور وہ اپنے ملک میں پیدا ہونے والی گندم زر مبادلہ کمانے کے لئے ایکسپورٹ کرنا شروع کردے تو اسے معاشی حماقت کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔ بدقسمتی سے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ورلڈ فود آرگنائزیشن اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے بین الاقوامی ادارے جس طرح کی پالیسیاں پاکستان جیسے ممالک پر مسلط کرتے ہیں اس کا نتیجہ ایسی ہی بھوک ننگ کی شکل میں نکلتا ہے جس سے آج کل پاکستان کے عوام دوچار ہیں۔ اگر پاکستان اپنی معیشت ٹھیک خطوط پر استوار کرنا چاہتا ہے تو اس کےلئے پاکستان کو چند بظاہر مشکل لیکن حقیقتاً معاشی طور پر انتہائی مفید فیصلے کرنا ہوں گے۔

اس ضمن میں سب سے بڑی مشکل آءایم ایف، ورلڈ بینک، ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن سے معاشی پالیسی سازی کے عمل کو آزاد کرانا ہے۔ یہ بجا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے لے رکھے ہیں اور ورلڈ فود آرگنائزیشن اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے چارٹروں پر دستخط کئے ہوئے ہیں۔ لیکن اگر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے لئے گئے قرضے اور ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے چارٹر کے تحت کئے گئے معاہدے پاکستان کے عوام کو بھوک اور افلاس کی وجہ سے خودکشیوں پر مجبور کردیں تو ایسے قرضوں اور ایسے معاہدوں کا کیا فائدہ؟

پاکستان کی معیشت کی تعمیر ِنو کےلئے پاکستان کو ان سب اداروں کو معاشی پالیسی سازی کے عمل سے خارج کرکے اپنی معاشی ترجیحات کو از سر ِ نو مرتب کرنا ہوگا۔ ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جس سے عوام کو بھوک اور ننگ سے بچایا جاسکے۔ ایسا کرنے کے لئے پاکستان کو کھانے پینے کی اشیا کی ایکسپورٹ فوری طور پر بند کرنا ہوگا۔ گندم ، چاول، دالیں اور فروٹ ایکسپورٹ کرکے کمائے گئے زر مبادلہ کا کیا فائدہ؟ اگر پاکستانی روٹی کے نوالے کو ترس رہے ہو۔ اور ان کے بچے بھوک سے بلک رہے ہوں اور حکومت گندم ، چاول، دالیں اورفروٹ ایکسپورٹ کرکےزرمبادلہ کما رہی ہو توایسا زر مبالہ پاکستانی معیشت کو طاقت ور بنانے کی بجائے کمزور کرے گا۔ لیکن موجودہ حکومت نے یوٹلیٹی اسٹور کی بہت سی اشیاءپر سبسیڈری ختم کردی ہے۔ جو آئی ایم ایف کا مطالبہ رہا ہے۔ دوسری جانب ٹیکسٹائل اور جوتوں اور کنسٹرکشن سے متعلقہ مصنوعات کی ایکسپورٹ کے بارے میں پالیسی تبدیل ہونی چاہئے۔ پاکستان کے صنعتی اور زرعی سیکٹر کو دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا کرنا کے لئے سستی اور قابل بھروسہ انرجی سپلائی کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ لیکن موجودہ بجٹ اس سے خالی نظر آتا ہے۔

پرائیوٹائزیشن نے پاکستان کے انرجی سپلائی سیکٹر کوتباہ کردیا ہے۔ پاکستان کو فوری طور پر انرجی سپلائی سیکٹر کو سرکاری شعبے میا لانا چاہیئے۔ پاکستان کو طویل مدت اور مختصر مدت کے اقدامات بھی کرنے ضروری ہیں ۔ جن میں سر فہرست بجٹ میں توازن قائم کرنا، شہروں اور دیہاتوں کی تنظیم نو کرنا، نیا سماجی ڈھانچہ تشکیل دینا، تعلیم، صحت اور ٹرانسپورٹیشن اور نقل وحرکت کے شعبے کی تنظیم نو اور تعمیر نو کرنا۔ صنعت اور زراعت کی جدید اصولوں کے مطابق تنظیم نو کرنا۔ان اقدامات سے پاکستان کی معیشت تعمیر نو کی راستے پر گامزن ہو سکتی ہے۔

معاشی استحصال کے شکار پاکستان کے 17کروڑ عوام حکمران طبقے سے اب کسی بھی طرح کی اچھائی کی توقع نہیں رکھتے ہیں اور نہ ہی یہ امید کر سکتے ہیں کہ موجودہ بجٹ عوام کو کوئی اچھی خبر دے گا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بجٹ بھی معاشی ظلم جبر کے شکار عوام کیلئے موت کا پروانہ ثابت ہوگا۔ اس عوامی حکومت کے دور میں عوام نے آئے روز نئے بجٹ کا سامنا کیا ہے ۔ آئی ایم ایف کے مطالبے پر سیلز ٹیکس اور ویلیوایڈیڈ ٹیکس دونوں ملا کر مجموعی طور پر تقریباً 32فیصد ڈائریکٹ ٹیکس پاکستان کے غریب عوام پر لادنے کی تیاریاں ہیں۔ پاکستان کے 48فیصد عوام جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں وہ اس نئے ٹیکس کے نتیجے میں روٹی سے بھی محروم ہو جائینگے۔ اسلام آباد کے محلوں میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں کو شاید یہ اندازہ ہی نہیں ہے کہ ایک عام آدمی کس قدر مشکل ترین حالات سے گزر رہا ہے۔ پچھلے سال آئی ایم ایف سے جو معاہدہ طے ہوا۔اس معاہدے کے کے مطابق حکومت بجلی، تیل، گندم، گنے اور بعض دیگر اشیا پر دی جانے والی مالی امداد ختم کرنے کی پابند ہے۔ ویٹ ٹیکس کا مسئلہ فی الحال اکتوبر تک لٹکا دیا گیا ہے۔اس نئے ٹیکس کے لگنے کے بعد یہ توقع کرنا کہ اس سے عام آدمی کو فرق نہیں پڑے گا محض طفل تسلی ہے۔ اس ٹیکس کا اثر کم و بیش ہر چیز پر پڑے گا اور اسی نسبت سے مہنگائی میں اضافہ ہو جائے گا۔ کھانے پینے کی اشیا سے لے کر الیکٹرانکس اور عام گھریلو استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں کم از کم بیس سے پچیس فیصد اضافہ لازمی ہو جائے گا۔ اس بار بھی پارلیمنٹ اور حکومت میں شامل وڈیرے اور چوہدری اوربڑے زمینداروں نے ایک بار پھر زرعی آمدنی کو ٹیکس سے بچانے میں کامیاب اور سارا بوجھ غربت میں پسے ہوئے عوام پر ڈالنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت ہماری قوم کا بچہ بچہ اور ہر مرد اور خاتو ن ساٹھ ہزار روپے فی کس مقروض ہے۔ بجٹ میں کوئی ایسا اقدام نظر نہیں آ تا جس سے عوام کو براہ راست کوئی ریلیف ملتا ہو۔ غریب آدمی آٹا‘گھی اور چینی پیٹرول کے بغیر تو زندگی نہیں گزار سکتا ہے۔ صحت ، تعلیم ، امن و امان، بجلی، روزگار کی فراہمی پر بجٹ خاموش ہے -
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 419017 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More