In the loving memory of Mohtarma Benazir Bhutto Shaheed
دنیا میں بہت کم شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو کامل طرز حیات رکھتی ہیں۔ جن کا
رہن سہن، ملنا جلنا، اٹھنا بیٹھنا، بات چیت، لب و لہجہ، اخلاق و تمیز الغرض
شخصیت کا ہر زاویہ کامل اور بے مثال ہوتا ہے۔بے نظیر بھٹو بھی ایسی ہی
چنیدہ شخصیات میں سے ایک تھیں۔انہوں نے چمنستانِ حیات کو اپنی دیدہ وری سے
منور کیے رکھا۔ ان کی شخصیت میں کوئی خام پہلو نہیں تھا۔ اُنھیں سیاسی طور
پہ پسند کرنے والے اور نا پسند کرنے والے ،حمایتی اور مخالف.. ہر وہ شخص جس
نے کچھ وقت، خواہ چند لمحے ہی بے نظیر بھٹو کی معیت میں گزارے ہوں ان کی
تعریف میں رطب اللسان نظر آتا ہے۔ بے نظیر بھٹو ایسی شخصیت جنھوں نےصرف
تاریخ کے اوراق پہ لوگوں کے دلوں پہ نہ مٹنے والے نقوش چھوڑے ہیں ۔ جن کی
بہادری جن کی بُردباری مثال ہے۔
موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ اس دنیا میں موجود ہر انسان، ہر ذی روح نے ایک نا
ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس فانی دنیا میں ہر چیز کی
بنیاد ہے ماسوائے انسان کے۔دیکھا جائے تو انسان کی زندگی چند پل کے سوا اور
کچھ نہیں۔ اس کے بعد مادی وجود خاک میں مل جانا ہے۔ پیچھے رہ جاتی ہے تو
صرف گزاری ہوئی زندگی یعنی طرز حیات...یہی وہ طرز حیات ہے جو طے کرتا ہے کہ
آپ کے بعد لوگ آپ کو کن الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ اگر آپ نے اچھے اخلاق اور
اعلی میعار کے ساتھ ایک بہترین طرز حیات پر مبنی زندگی گزار لی تو یقین
کیجیے اس دنیا سے جا کر بھی زندہ رہیں گے۔ کیونکہ وہ تمام اشخاص جن سے آپ
کا کبھی نا کبھی واسطہ رہا ہو گا وہ آپ کو اچھے الفاظ میں یاد کریں گے۔ اور
یہی الفاظ آپ کا سرمایہ حیات ہیں۔
بے نظیر بھٹو کی زندگی اس مقالے پر مشتمل تھی " جانا تو ایک نا ایک دن ہے
ہیتو کیوں نا ایسی زندگی گزاری جائے جو دوسروں کے لیے مثال بن جائے۔"بے
نظیر بھٹو خوبصورتی اور ذہانت کا بہترین امتراج۔ بے نظیر بھٹو نے ایک مشکل
سیاسی زندگی گزاری لیکن سیاسی جِدوجُہد کا دامن نہیں چھوڑ۔ بے نظیر
ذوالفقار علی بھٹو کی لاڈلی اولاد تھیں مختلف سیاسی مواقعوں پہ انکے ساتھ
نظر آتی اور زندگی کے آخری لمحات میں بھی اُن کے لیے حوصلے کی نوید رہیں
اپنے والد کے عوامی خدمت کا عَلمبے نظیر بھٹو نے تھاما۔
بے نظیر بھٹو 21جون1953ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ریڈ کلف کالج اور ہارورڈ
یونیورسٹی سے اعلٰی تعلیم کے بعد بے نظیر بھٹو نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے
سیاسیات،اقتصادیات اور فلاسفی میں اعلٰی ڈگری حاصل کی اور آکسفورڈ
یونیورسٹی سے ہی بین الاقوامی قانون اور ڈپلومیسی کا کورس مکمل کیا۔بے نظیر
بھٹو آکسفورڈ یو نیورسٹی یونین کی منتخب ہونے والی پہلی ایشائی مسلمان
خاتون تھیں۔جو یونین کی صدر منتخب ہوئیں۔بے نظیر بھٹو کو دنیائے اسلام کی
پہلی خاتون وزیراعظم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔بے نظیر برطانیہ سے تعلیم
حاصل کرنے کے بعد جون 1977ء میں اس ارادے سے وطن واپس آئیں کہ وہ ملک کے
خارجہ امور میں خدمات سر انجام دیں گی۔ لیکن ان کےپاکستان پہنچنے کے دو
ہفتے بعد جنرل ضیاءالحق نے حکومت کا تختہ الٹ دیااُس وقت کے منتخب وزیر
اعظم ذو الفقار علی بھٹو کو جیل بھیجنے کے ساتھ ساتھ ملک میں مارشل لا نافذ
کر دیا اور ساتھ ہی بے نظیر بھٹو کو بھی گھر کے اندر نظر بند کر دیا
گیا۔اپریل 1979 میں میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ذو الفقار علی بھٹو کو
قتل کے ایک متنازع کیس میں پھانسی کی سزا سنا دی۔ 3اپریل 1979ء کو شہید
بھٹو کے ساتھ اپنی آخری ملاقات میں بے نظیر بھٹو نے اپنے والد کے سامنے
اُن کے مشن کو جاری رکھنے کا نہ صرف عزم کیا بلکہ پاکستان کو آمرانہ اور
جابرانہ تسلط سے آزاد کروا کر جمہوریت کی طرف گامزن کرنے کے لئے اپنی عملی
جد و جہد کا آغاز بھی کیا انہوں نے اپنے شہید والد کو آمرانہ اور جابرانہ
ہا تھوں میں شہید ہوتے ہوئے دیکھااُس وقت بے نظیر بھٹو کو شدید صدمے سے دو
چار ہونا پڑا۔یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا کہ ملت اسلامیہ کے عظیم لیڈر
ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا گیا۔یہ صدمہ دنیا کے لئے نا قابل
برداشت تھا۔ ۔1984ء میں بے نظیر کو جیل سے رہائی ملی، جس کے بعد انھوں نے
دو سال تک برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزاری۔ اسی دوران پیپلزپارٹی کے
رہنماؤں نے انھیں پارٹی کا سربراہ بنا دیا۔ ملک سے مارشل کے خاتمے کے بعد
جب اپریل 1986ء میں بے نظیر وطن واپس لوٹیں تو لاہور ائیرپورٹ پر ان کا
فقید المثال استقبال کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو 1987ء میں نواب شاہ کی اہم
شخصیت حاکم علی زرداری کے بیٹے آصف علی زرداری سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو
گئیں ۔ 17 اگست، 1988ء میں ضیاءالحق طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے تو
ملک کے اندر سیاسی تبدیلی کا دروازہ کھلا ۔ 16 نومبر، 1988ء میں ملک میں
عام انتخابات ہوئے، جس میں قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں پیپلز پارٹی
نے حاصل کیں۔ اور بے نظیر بھٹو نے دو دسمبر1988ء میں 35 سال کی عمر میں ملک
اور اسلامیدنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔اگست 1990میں
بیس ماہ کے بعد صدر اسحاق خان نے بے نظیر کی حکومت کو برطرف کر دیا۔2
اکتوبر 1990 کو ملک میں نئے انتخابات ہوئے ان انتخابات کے نتیجے میں مسلم
لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف وزیر اعظم بن گئے جبکہ بے نظیر قائدِ حزبِ
اختلاف بن گئیں۔1993میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی
حکومت کو بھی بد عنوانی کے الزام میں برطرف کر دیا۔اکتوبر 1993 میں عام
انتخابات ہوئے۔ جس میں پیپلز پارٹی اور اس کے حلیف جماعتوں پہ عوام نے
اعتماد کرتے ہوئے ووٹ دیے اور بے نظیر ایک مرتبہ پھر وزیرِاعظم بن گئیں
مگر1996 میں پیپلز پارٹی کے اپنے ہی صدر فاروق احمد خان لغاری نے بے نظیر
کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ یہ مزید تکالیف ،مقدمات اور جلاوطنی کا آغاز
تھا۔
مشرف دور میں انہی کی کوششوں کی وجہ سے میثاقِ جمہوریت تشکیل پایا اور ایک
طویل جلاوطنی کی زندگی کی تکلیفوں سے گزر کر بالآخر 18 اکتوبر 2007 کو جب
اکتوبر 2007ء میں اُن کی وطن واپسی ہوئی تو دہشت گردوں نے اسی دن ہی ان کو
ختم کرنا چاہا تھا۔جس میں اللہ نے اُ ن کی حفاظت کی ۔وطن واپسی کے بعد
اُنھوں نے عدلیہ آزادی تحریک کیلئے کوششیں کیں جمہوریت اور ملکی استحکام
کیلئے الیکشن کی تیاری شروع کی۔ 27دسمبر 2007 کوراولپنڈی کے لیاقت باغ میں
ان کے انتخابی جلسے پر حملہ کیا گیا اوردہشتگردی کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو
شہید ہوگئیاور اپنے چاہنے والوں کوداغ مفارقت دے گئے۔ لیکن اپنے پیچھے ایک
ایسی زندگی چھوڑ گئ کہ زمانہ بھی ان کی مثال دیتا ہے۔
اسلامی دنیا کی سب سے پاپولر لیڈر بے نظیر بھٹو، عالم اسلام کے لبرل نظریات
کا استعارہ بھی تھیں۔ محترمہ کے بعد غریبوں اور مزدوروں کے لیے کوئی آواز
اٹھانے والا نہیں رہا۔ میڈیا کی آزادی اور عدالتوں کے فیصلوں پر کوئی بات
کرنے والا نہیں رہا۔ پاکستان کی غلط خارجہ پالیسی اور سٹرٹیجک غلطیوں پر
روک ٹوک کرنے والا کوئی نہیں رہا۔
ہم سب کو معلوم ہے کہ دیگر چیزوں کے ساتھ انہوں نے انسانی حقوق، جمہوریت
اور خطے میں امن کے لئے انتھک جدوجہد کی ۔ میرے نزدیک ان کا حوصلہ اور
بہادری ان کی شخصیت کی صحیح عکاسی کرتے ہیں، میں ہمیشہ ان کے حوصلے سے
متاثر ہوتی۔ باحوصلہ رہنا ایک ایسی صلاحیت ہے جو بہادری اور جرأت کی
صلاحیتوں میں ممتاز مقام رکھتی ہے، یعنی کسی صدمے کے بعد دوبارہ باحوصلہ ہو
جانے کی صلاحیت۔ ایک مرتبہ آپ کو ان کے سحر کی تہوں کے اندر جھانک کر
دیکھنے کے قابل ہو جانے کے بعد جو چیز زیادہ متوجہ کرتی وہ ان کی زندگی میں
بہادری کا عنصر تھا۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد بی بی
شہید کو نظر بندی اور جلاوطنی کی سخت تکالیف برداشت کرنا پڑیں۔
عظیم باپ کی عظیم بیٹی نے اپنے دکھوں کو جھٹکتے ہوئے عوام کا ساتھ دینے کا
فیصلہ کیا اور ہمیشہ ثابت قدم رہیں۔ قید کے دوران بجائے اس کے کہ وہ قید
تنہائی پر اداس ہوتیں، انہوں نے بڑی بہادری اور عزم سے جیل کی سختیاں کاٹ
کر ضیاء حکومت کا سر شرم سے جھکا دیا۔جیل کی سلاخوں کے پیچھے سخت قید میں
یہ حالت تھی کہ انہیں مناسب طبی سہولیات بھی میسر نہیں تھیں۔
بی بی شہید اپنی جدوجہد میں بھی بینظیر تھیں اور زندگی کی آخری سانسوں تک
ہر ظالم و جابر آمر کے سامنے ڈٹی رہیں۔ ان کی رگوں میں موجود بھٹو کے خون
نے انہیں اپنی راہ سے ہٹنے نہ دیا۔وہ دہشت گردی کے سامنے اس وقت کھڑی ہوئیں
جب پاکستان میں چند ہی لوگ اس مزاحمت کو سمجھ سکے تھے، اپنے آخری عوامی
جلسے میں بھی ان کی تقریر مزاحمتی سیاست کی علامت تھی۔
وہ زندہ ہوتیں تو بہت کچھ مختلف ہوتا۔ مگر سب سے زیادہ کمی ان کے نہ ہونے
کی ہے۔
سیاسی اور سماجی موضوعات پر شعر کہنے والی کشور ناہید اپنی رہنما کی
اندوہناک موت پر اپنے جذبات کا اظہار کچھ یوں کرتی ہیں:
بے نظیر تو زمین میں کیسے سمائےگی
کہ یہ ساری دنیا تیرے بے مثل حوصلے کی تمنائی رہے گی
میں نے تیری قبر پہ گوٹا لگے دوپٹوں کو
کبوتروں کو چومتے دیکھا ہے |