پاکستان کے ممتاز ادیب و شاعر اورپروفیسر احمد عقیل
روبی 6 اکتوبر 1940ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے اور23نومبر2014ء کو اس دنیا
سے رخصت ہوئے۔پروفیسراحمد عقیل روبی بحیثیت قلم کار کئی حیثیتوں سے جانے
اور مانے جاتے ہیں۔ شاعری‘ ناول نگاری‘ ترجمہ‘ سوانح نگاری‘ تنقید‘ ڈرامہ
نویسی…… ان تمام حوالوں سے وہ منفرد شناخت کے حامل انسان ہیں۔ ان کی 30 کے
لگ بھگ تصانیف شائع ہو چکی ہیں جن میں سوکھے پتے‘ بکھرے پھول‘ ملی جلی
آوازیں‘ا ٓخری شام‘ سورج قید سے چھوٹ گیا‘ کہانی ایک شہر کی‘ بلائی ٹس‘
دوسرا جنم‘ آدمی صدی کا خواب‘ چوتھی دنیا‘ بنجر دریا‘ جنگل کتھا‘ فاہیان‘
ساڑھے تین دن کی زندگی‘ کھرے کھوٹے‘ جناور کتھا‘ نصرت فتح علی خان‘ کرنیں
تارے پھول‘ علم ودانش کے معمار‘ ایڈی پس ریکس‘ میڈیا‘ دوسرا جنم‘ تیسواں
پارہ‘ نماز‘ یونان کا ادبی ورثہ‘ دو یونانی کلاسک ڈرامے‘ باقر صاحب‘ مجھے
تو حیران کر گیا وہ‘ بولڈ اینڈ بیوٹی فل‘ قتیل کہانی‘ علی پور کا مفتی اور
معزز فاحشہ شامل ہیں۔آپ 2001ء میں صدر شعبہ اردو ایف سی کالج کی حیثیت سے
ریٹائر ہوئے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے ادب ، ڈرامہ نگاری اور شاعری کے
میدان میں آپ کی وسیع تر خدمات پر 14 اگست2012 کو "تمغہ امتیاز"نوازا گیا۔
احمد عقیل روبی وسیع المطالعہ شخص تھے ، یونانی ادب ان کا مرغوب موضوع تھا۔
اس کے علاوہ روسی‘ فرانسیسی‘ امریکی‘ انگریزی ادب پر ان کی گہری نظر ہے جس
کا ثبوت ان کی کتاب ’’علم ودانش کے معمار‘‘ ہے جو نیشنل بک فاؤنڈیشن کے زیر
اہتمام شائع کی گئی۔ یہ ان تمام زبانوں کے تفصیلی جائزہ پر مشتمل ہے اور
2011ء میں اس کے دو ایڈیشن چھپ چکے ۔ پنجاب یونیورسٹی‘ گورنمنٹ کالج لاہور‘
ایجوکیشن یونیورسٹی اور ایم اے او کالج لاہور کی جانب سے آپ کی شخصیت اور
فن پر ایم فل اور ایم اے کے تھیسزلکھے جاچکے ہیں۔ آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
میٹرک‘ ایف اے تک الٹے سیدھے شعر کہے‘ جن باتوں کا تجربہ نہیں تھا ان باتوں
کو شاعری کا حصہ بنایا۔ قتیل شفائی سے ملاقات ہوئی تو سب کچھ پھاڑ کر پھینک
دیا۔ جب میں پانچویں جماعت میں تھا تو جنرل اعظم خان کے مارشل لاء کے خلاف
ایک فلمی گانے کی دھن پر نظم لکھی۔ پولیس پکڑ کر لے گئی۔ ایک رات جیل میں
رہا۔ تھوڑا تھوڑا یقین آ گیا کہ میں نے جو کچھ لکھا تھا اس میں کوئی ایسی
بات ضرور تھی جو حکومت اور پولیس کو بری لگی۔ اس کے بعد پوری ترقی پسند
تحریک پڑھ ڈالی۔ اس میں بیدی‘ کرشن چندر‘ عصمت چغتائی‘ احمد ندیم قاسمی‘
فیض‘ منٹو شامل ہیں۔ ایم اے کرنے لاہور آیا تو سجاد باقر رضوی‘ ناصر کاظمی
جیسی عظیم شخصیات کی قربت نصیب ہوئی۔ انتظار حسین کو دور سے دیکھا۔ بعد میں
قربت بھی حاصل ہوئی۔ بس یہ سب لوگ میری تربیت گاہ کا درجہ رکھتے تھے۔ انہی
سے میں نے بات کرنے کا سلیقہ‘ نثر لکھنے کا انداز اور شاعری کے رموز جانے‘
سمجھے اور سیکھے۔غزل لکھی‘ جب دیکھا کہ بات نہیں بن رہی تو ناول لکھے‘ جب
دیکھا ناول کی ڈور ڈھیلی پڑ گئی ہے تو ترجمہ شروع کردیا۔ ترجمے سے جی
اکتایا تو سوانح نگاری شروع کر دی۔ سوانح نگاری سے دل بھرا تو فلمی گیت
لکھے۔ دیکھا وہاں یکسانیت کا شکار ہو گیا ہوں تو افسانے لکھنے شروع کر دیئے
مگر میں نے کہیں اپنے آپ کو دہرایا نہیں…… اور پھر ایک ہی رستے پر چلتے
چلتے پیر تھکنے لگے ۔ اچھا لکھنے والا وہی ہے جب ایک راستے پر تھکن محسوس
کرے‘ راستہ بدل لے۔ایک سوال کے جواب میں پروفیسر احمد عقیل روبی نے فرمایا
کہ میری خاکہ نگاری‘ ناول نگاری‘ بحیثیت سوانح نگار‘ بطور مترجم اوربطور
شاعر یونیورسٹی اور کالجوں میں مقالے لکھے جا چکے ہیں۔ ان سب میں ہر مقالہ
نگار نے یہ لکھا ہے کہ میں نے ہر صنف میں انصاف کیا ہے۔ مجھے ان کی باتوں
پر تھوڑا تھوڑا یقین بھی آیا ہے لیکن میں ابھی تک یہ طے نہیں کر پایا کہ
میں کیا کہلانا پسند کروں…… اصل بات یہ ہے کہ میں جس صنف میں طبع آزمائی
کرتا ہوں اسی کا ہو کے رہ جاتا ہوں۔ سر سے لے کر پاؤں تک اس میں انوالو ہو
جاتا ہوں…… ہوا یہ کہ میں نے یورپ اور مغربی مصنّفین پر بہت کام کیا۔ ان پر
لکھتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ ان کا رشتہ ہر صنف سخن سے جڑا ہوا ہے۔
مثلاً گوئٹے نے شاعری بھی کی‘ ناول بھی لکھے‘ سفر نامہ بھی لکھا‘ سائنس کے
تجربے بھی کئے‘ پتھروں کی قسمیں بھی دریافت کیں…… فرانس کے وکٹر ہیوگو نے
شاعری کی‘ ناول لکھے‘ مصوری کی‘ موسیقی ترتیب دی…… بس انہیں پڑھ پڑھ کر میں
کچھ گمراہ ہو گیا تھا۔ بہرکیف ان جیسا تو نہ بن سکا مگر ان کی پیروی ضرور
کی…… ادب کے ایک علاقے میں میرا قیام نہیں رہا۔ بلکہ میں نے چل پھر کر یہ
سارا علاقہ دیکھنے کی کوشش کی …… اس لمبی تمہید کے بعد میں یہ کہنا چاہتا
ہوں کہ میں ایک ادیب اور مصنف کہلانا پسند کروں گا جس کی جیب میں مختلف
اصناف سخن کے سکے موجود ہیں‘ جس سکے کو جب چاہتا ہے چلے نہ چلے‘ مارکیٹ میں
چلا لیتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ سکہ کھوٹا ہے۔
ہر انسان ادب تخلیق نہیں کر سکتا۔ صرف وہی انسان اس میدان میں اترتا ہے جو
اپنی ذات کا اظہار کرنا چاہتا ہے‘ اپنے آپ کو دوسروں سے نمایاں کرنا چاہتا
ہے۔ اپنی پہچان بنانا چاہتا ہے…… اسے ایسا کرنا چاہئے تاکہ اس کے مشاہدے‘
تجربے اور فکر کی روشنی سے دوسرے انسان راستہ تلاش کر سکیں۔ میر‘ غالب‘
اقبال‘ ٹالسٹائی‘ شیکسپیئر‘ ہومر‘ اگر ادب تخلیق نہ کرتے تو ہمارے لئے
زندگی کا سفر کتنا مشکل ہو جاتا۔ بڑے ادیبوں کا تخلیق کردہ ادب…… دراصل
تاریک اور اندھی راہوں میں جلتے چراغ ہیں جن سے آنے والی نسلیں اپنی منزل
پاتی ہیں۔ اگر ادب کی تخلیق رک جائے تو نہ جانے کتنے لوگ‘ انسانوں کی کتنی
نسلیں اندھی گپھاؤں میں دم توڑ دیں۔ادب کا مطالعہ شخصیت میں نکھار پیدا
کرتا ہے اور اسے ایک ایسی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں وہ دنیاوی قدروں سے
ہاتھ چھڑا کر روحانی مسرت حاصل کرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ادب اس روحانی مسرت
سے مالامال کرتا ہے جو دنیاوی لالچ‘ لوبھ سے آدمی کو چھٹکارا دلاتی ہے۔
ترجمہ کرنا کرائے کے گھر میں رہنے کے برابر ہوتا ہے۔ مالک مکان کی شرط ہوتی
ہے کہ اس گھر میں ہنسی خوشی رہو مگر اسے تبدیل کرنے کا حق تمہیں بالکل
نہیں۔ چنانچہ مترجم کو اس گھر کو سجانا ہوتا ہے۔ آرائش کرنا ہوتا ہے مگر
اسے توڑپھوڑ اور تبدیلی کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ اصل میں ترجمہ وہی کر سکتا
ہے جو دونوں زبانوں کو اچھی طرح جانتا اورسمجھتا ہو‘ دونوں کلچرز سے واقفیت
رکھتا ہو۔ زبان کی باریکیوں سے آشنا ہو۔ لغت پر عبور ہو اور انسانی نفسیات
کا ادراک رکھتا ہو۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہو گا کہ پروفیسر احمد عقیل
روبی کا شما ر دورحاضر کے بہترین مصنفین بلکہ آل راؤنڈر شخصیات میں ہوتا جن
کے ذکرکے بغیر پاکستانی ادب کی تاریخ مکمل قرار نہیں دی جاسکتی ۔
|