اپوزیشن جماعتیں، جلسے، جلوس، احتجاج کر کے حکمران
جماعت پی ٹی آئی بالخصوص کپتان کو للکار رہی ہیں اور اپوزیشن نے حکومت کو
گھر جانے کے لئے 31 جنوری تک کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے۔ اپوزیشن کے سربراہ
مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے دی گئی تاریخ تک مستعفی نہ ہونے کی صورت
میں یکم فروری کو اسلام آباد میں لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کرنے کا کہہ
رکھا ہے۔ جبکہ اس سے قبل پی ڈی ایم نے 24 دسمبر کو بہاوالپور میں احتجاجی
ریلی، 27 دسمبر کو لاڑکانہ میں جلسے، 28 دسمبر کو سرگودھا سمیت کئی شہروں
میں احتجاجی جلسے کرنے کا شیڈول جاری کر دیا ہے، اپوزیشن کا یہ شور شرابہ
اور احتجاج کپتان کی حکومت کیلئے آفٹر شاک جھٹکے ثابت ہو رہے تھے کہ حکومت
نے مارچ 2021ء میں ہونے والے سینیٹ انتخابات قبل از وقت فروری میں کرانے کا
اعلان کر دیا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ سینیٹ الیکشن شو آف ہینڈ کے
تحت ہونگے، ماضی میں قومی، صوبائی، اسمبلیوں اور سینیٹ کے انتخابات چونکہ
خفیہ ووٹنگ کے ذریعے ہوتے آئے ہیں اس کیلئے حکومت نے الیکشن کمیشن اور
سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ شو آف ہینڈ کے ذریعے سینیٹ
الیکشن کرانے کی وجہ حکومت ہارس ٹریڈنگ کو روکنا بتا رہی ہے جو ماضی میں
اسمبلیوں اور سینیٹ انتخابات میں خوب ہوتی آئی ہے۔ حکومت کے اس اعلان پر
اپوزیشن جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو آفٹر شاک جھٹکے
لگے ہیں، کیونکہ اپوزیشن تو فروری میں اسلام آباد میں احتجاجی دنگل لگانے
کا اعلان کر کے اسے کامیاب بنانے کیلئے آئے روز اجلاس کر کے حکمت عملی طے
کرنے لگی ہوئی ہے۔ حکومت کا سینیٹ الیکشن اور وہ بھی فروری میں کرانے کا
فیصلہ اپوزیشن کے اسلام آباد لانگ مارچ کو ثبوتاڑ کرنے کا منصوبہ لگتا ہے۔
جس پر اپوزیشن تلملا رہی ہے کہ شو آف ہینڈ کے ذریعہ سینیٹ الیکشن حکومت
دھاندلی کے لئے کر رہی ہے۔ یہ ہم کسی صورت نہیں ہونے دیں گے۔ حالانکہ مسلم
لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے پچھلے انتخابات اور چیئر مین سینیٹ کے خلاف عدم
اعتماد کی ناکامی پر واویلہ کیا تھا کہ دھاندلی روکنے کیلئے الیکشن شو آف
ہینڈ اور دیگر طریقہ پر غور کیا جائے، سو اب حکومت سینیٹ الیکشن شو آف ہینڈ
کے تحت کرانے جا رہی ہے تو اپوزیشن اس پر راضی نہیں اور سینیٹ کی ووٹنگ
مارچ اور خفیہ طریقہ سے کرانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
قابل ذکر امر یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو سینیٹ میں قانونی پیچیدگیوں کا
بھی سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ مسلم لیگ (ن) میاں نواز شریف کے نام سے
الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے اور اب میاں نواز شریف نا اہل اور عدالت سے سزا
یافتہ ہیں۔ اس صورت میں مسلم لیگ (ن) سینیٹ میں اپنے امیدواروں کو ٹکٹ جاری
نہیں کر سکے گی؟ اس لیے مسلم لیگ (ن) چاہتی ہے کہ سینیٹ الیکشن نہ ہوں۔
بصورت دیگر سینیٹ الیکشن ہونے پر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کسی اور جماعت کے
ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیں گے جو مسلم لیگ (ن) کی قیادت کیلئے تکلیف دہ ہو
گا۔ کیونکہ وہ اب بھی ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہونے کی دعویدار ہے۔
سیاسی ذرائع سینیٹ انتخاب کو قبل از وقت اور شو آف ہینڈ کے ذریعے کرانے
بارے کہتے ہیں کہ اس سے حکومت کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن اپوزیشن جو
حکومت کو گرانے اور کپتان کو گھر بھجوانے کیلئے احتجاج کو شدت دینا چاہتی
ہے کو احتجاج کو تقویت دینے کی منصوبہ بندی اور عوامی رابطہ مہم کے علاوہ
حکومت کے ساتھ قانونی جنگ بھی لڑنا پڑے گی۔ اور سینیٹ الیکشن مارچ میں
کرانے کے ساتھ شو آف ہینڈ کی بجائے خفیہ ووٹنگ کے ذریعے کرانے کیلئے ایڑی
چوٹی کا زور لگانا ہو گا؟ یہ سارا بوجھ مسلم لیگ (ن) پر ہو گا؟ کیونکہ
حالات عندیہ دے رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی سینیٹ الیکشن سے قبل حکمت عملی
تبدیل کرے گی اور اسمبلیوں سے استعفے نہیں دے گی؟ جس کی ایک دلیل آصف علی
زرداری کا سٹیج پر اعلان کے باوجود لاہور جلسہ سے خطاب نہ کرنا بھی ہے۔
سیاسی پنڈت تو یہاں تک کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی سینیٹ الیکشن خوب لڑے گی
اور سرمایہ داروں کو ٹکٹ دے گی؟ اس طرح اپوزیشن میں شامل 11 میں سے آٹھ
جماعتیں (جن میں مولانا فضل الرحمان کی جماعت شامل نہیں) سینیٹ الیکشن میں
امیدوار کھڑے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، کیونکہ ان کی ایوانوں میں
نشستیں کم ہیں۔ اور ان کی سینیٹ الیکشن میں دلچسپی بھی اسی حساب سے ہو گی۔
بہرحال 2021 ء کے سرد موسم کا ماہ فروری کا سیاسی ماحول گرما گرم ہو گا۔
اپوزیشن احتجاج کے لئے زور لگانے کے ساتھ سینیٹ میں اپنی بقاء کی جنگ لڑے
گی۔ اور حکومت اپوزیشن کے احتجاج کو تلپٹ کرنے کے ساتھ سینیٹ میں زیادہ سے
زیادہ تعداد میں اپنے سینیٹرز جتوانے کیلئے ہر حربہ استعمال کرے گی؟
دوسری طرف وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اپنا استعفی پی پی پی کے قائد کے
سپرد کر کے بیرون ملک جا چکے ہیں۔ جس بارے تاثر دیا جا رہا ہے کہ سندھ
اسمبلی سینیٹ الیکشن سے قبل ٹوٹ سکتی ہے۔ ذرائع کہتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں
ہونے جا رہا نہ سندھ اسمبلی ٹوٹے گی اور نہ پیپلز پارٹی استعفے دے گی؟
کیونکہ آصف علی زرداری ماضی میں ہمیشہ مفاہمت کی سیاست اور جمہوریت کی بقاء
کیلئے متحرک رہے ہیں۔ موصوف نے 2013ء سے 2018ء تک (ن) لیگ کے دور میں حکومت
کے خلاف بھر پور اپوزیشن اور شور شرابا بھی کیا اور اسے (ن لیگ )کو اقتدار
کی مدت بھی پوری کرنے دی، سو اگر اس طرح ہو گیا تو اپوزیشن کے غبارے سے ہوا
نکل جائے گی؟ جس کا ریلیف پیپلز پارٹی کی قیادت حاصل کرے گی۔ ذرائع کہتے
ہیں کہ سینیٹ الیکشن تو پیچیدگیوں کے باعث شاید حکومت شو آف ہینڈ کے تحت
کرانے میں کامیاب نہ ہو سکے، کیونکہ سینیٹ میں ہر ووٹر نے ایک سے زیادہ
امیدواروں کو ووٹ کاسٹ کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح شو آف ہینڈ کے ذریعہ ووٹنگ
کرانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے، جس کا اٹارنی جنرل آف پاکستان برملہ اظہار
بھی کر چکے ہیں تا ہم حکومت اس کے متبادل کیا طریقہ کار اپناتی ہے یہ کہنا
قبل از وقت ہے۔ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی، سیاست مفادات کی جنگ
کا نام ہے ، جس میں حریف سیاسی حالات دیکھ کر حلیف بنتے رہتے ہیں اور وقت
کے ساتھ ملک کا سیاسی منظر بدلتا رہتا ہے۔ اور غیر متوقع سیاسی اتحاد بنتے
رہتے ہیں۔ اس لیے سیاست میں کسی بھی سیاسی جماعت سے کچھ بھی بعید نہیں۔
بات کہاں سے کہاں سے نکل گئی بات ہو رہی تھی اپوزیشن کے احتجاج اور حکومت
کے جواب کی، تو فروری میں حکومت اور اپوزیشن میں خوب میدان لگنے جا رہا ہے،
دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن حکومت کو ناک آؤٹ کرتی ہے یا حکومت اپوزیشن کو؟ اس
بارے حکومت اور اپوزیشن کیا لائحہ عمل اختیار کرتی ہیں یہ آئندہ چند روز
میں واضح ہو جائے گا؟
|