خلیجی ریاستیں اب تک تقریباً100ملین ڈالراس مہم جوئی
پرخرچ کرچکی ہیں،جوانہوں نے پچھلے تین سال سے سفارتی تعلقات کے خراب ہونے
کے بعدشروع کررکھی ہے۔امریکی وزیرخارجہ پومپیونے امریکاقطراسٹریٹیجک
مذاکرات کاافتتاح کرتے ہوئے اس بات کااعلان کیاکہ خلیجی ریاستوں کے تنازعات
اب ماضی کاحصہ ہیں،یہ ریاستیں ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں کودفن کرکے سفارتی
تعلقات کانئے سرے سے آغازکرچکی ہیں لیکن پومپیو کے بیان کے برعکس100ملین
ڈالرکی خطیررقم یہ ظاہرکرتی ہے کہ سفارتی تعلقات کی تجدیدمیں ابھی مزید وقت
لگے گا۔اصل موضوع یہ ہے کہ3 سال پہلے دوخلیجی ریاستوں کے سفارتی تعلقات ختم
ہونے کے بعدسے قطراورمتحدہ عرب امارات نے مہم جوئی کیلئےواشنگٹن میں کتنی
رقم خرچ کی ہے۔ رقم کازیادہ حصہ ایک دوسرے کے خلاف لڑائی میں خرچ
ہوا۔ابوظہبی نے دنیاکے سامنے قطرکوایک دہشتگردبدمعاش ریاست کے طورپرپیش
کیاجبکہ دوحہ نے اپنے دفاع میں خودکوایک بھروسے کے قابل مغربی اتحادی کے
طورپرپیش کیا۔
فلاحی بین الا قوامی پالیسی مرکزکے ڈائریکٹرفارن انفلوئینس بن فرامین
نے’’مڈل ایسٹ آئی‘‘کوبتایاکہ موجودہ حالات میں جتنا میں سمجھ سکاہوں یہ
ایک بڑی جنگ ہے،یہ جنگ جون2017ءسے اب تک جاری ہے۔2017ءمیں سعودی عرب،بحرین
اوردبئی نے قطرپراخوان المسلمون کی مدد کاالزام لگاتے ہوئے اس پرپابندی
عائدکردی تھی۔ متحدہ عرب امارات اپنااثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اس جنگ میں
قائدانہ کرداراداکررہاہے،2016 ءسے2017ءتک بالترتیب 4ء10ملین ڈالرسے4ء21ملین
ڈالر قطرمخالف مہم جوئی میں خرچ کیے گئے ہیں۔قطرنے بھی اپنے مخالفین کی طرف
پیش قدمی کرتے ہوئے ٹھیک انہی کی طرح اس مہم جوئی کیلئےاسی مدت کے دوران
اپنا بجٹ تین گناکردیا،یعنی4ملین سے12ملین تک لابنگ میں خرچ ہوئے۔
مرکزبرائے ذمہ دار سیاست کے مطابق اثرورسوخ کی یہ جنگ اس وقت اپنے عروج
پرہے،قطری حکومت نے16 کمپنیوں کی خدمات حاصل کی ہوئی ہیں جبکہ متحدہ عرب
امارات نے 8۔دونوں ریاستوں نے2016ءکے بعدسے5مزیدکمپنیوں کوشامل کیاہے۔
واشنگٹن کے تجزیہ نگاراورفاؤنڈیشن فورڈیفنس ڈیموکریزکے سینئرنائب صدرنے
کہاکہ امریکاکی حدتک جب سے میں دیکھ رہا ہوں تب سے ابھی تک اس جنگ میں
مسلسل رقم خرچ کی جارہی ہے۔یہ بات یقینی ہے کہ ساری رقم محض اس مہم جوئی
میں خرچ نہیں ہورہی بلکہ اس کا ہدف ایک دوسرے کی مخالفت ہے اوریہ صورتحال
مستقبل کی اچھی پیشگوئی نہیں کرتی۔
فرامین جنہوں نے تین ملکوں کی لابنگ پرایک تفصیلی رپورٹ لکھی ہے،ان کے
مطابق اس جنگ میں تیزی ٹرمپ کے الیکشن جیتنے کے بعدآئی ہے،ان ملکوں کی
کوشش کی وجہ سے بین الاقوامی طورپرقطراکیلارہ گیااس کابائیکاٹ
کیاگیااورقطربے آسراکردیاگیا۔فرامین نے مزیدکہاکہ وہ ایک لمحہ تھاجب ہم نے
دیکھاکہ قطرنے اس حقیقت کوجان لیاکہ ان کیلئےامریکامیں مشکلات ہیں، وہ
سعودی اورمتحدہ عرب امارات سے اثرورسوخ میں بہت پیچھے ہے،اس کے بعدقطرنے
آگے بڑھناشروع کیااورزیادہ سے زیادہ طاقتورفرمزکومخالفین کے خلاف لابنگ
کیلئےاپنی طاقت اوراپناہتھیاربنایا۔ان ملکوں کااثرورسوخ ٹرمپ انتظامیہ کے
ساتھ واضح نظرآیا،جب انہوں نے قطرکا بائیکاٹ کیااورٹرمپ نے قطرکو کنارے
لگاتے ہوئے سعودی عرب کادورہ کیاتاہم ایک سال سے بھی کم عرصے میں وائٹ
ہاؤس میں قطرکی ایک اہم شخصیت کی امریکا کے دوست کی حیثیت سے میزبانی
کی،وائٹ ہاؤس تک راستہ ہموارکرنے میں قطرلابی نے بہت محنت کی تھی۔
دیکھنے میں آیاہے کہ سعودی عرب سے کہیں چھوٹے ملک امارات نے قطرکے خلاف
لابنگ میں سعودی عرب سے بہت زیادہ کامیابی حاصل کی،اس کی وجہ سعودی عرب میں
پھیلی افراتفری تھی،جس میں سعودی عرب صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں
اپنادفاع کرتارہایایمن کی جنگ میں پھنسارہا۔واشنگٹن انسٹیٹیوٹ میں خلیج
ریاست کے ایک سینئراسکالرحسین ایبش نے بتایاکہ ان ملکوں کے درمیان جنگ
کابنیادی سبب عرب ریاستوں میں سیاسی اسلام کو فروغ دینایااس کی حمایت
کرناہے۔ قطرکیلئےاخوان المسلمون اورحماس جیسے گروپ انتہاپسندوں کی روک تھام
ہے،جبکہ امارات کیلئےیہ انتہا پسندوں کو طاقت فراہم کرتے ہیں اوریہ
قطراورامارات کے درمیان نظریاتی جنگ ہے،یہ ایک بڑی جنگ ہے جوکہ سیاسی
کلچرکوواضح کرے گی،جبکہ سعودی عرب کے نزدیک یہ جنگ قطرکے رویے کوواضح کرے
گی۔
یادرہے کہ قطری حکومت نے خلیجی جنگ میں امریکاکے ساتھ مشترکہ فوجی
کاروائیوں کے بعدالعدیدبیس کی تعمیرپرایک ارب ڈالرخرچ کیے تھے۔جب امریکانے
عراق پہ حملہ کیاتواپنے فضائی جنگی آپریشنوں کاہیڈکوارٹرسعودی عرب سے
العدید بیس پر منتقل کردیاتھااورشام میں امریکی فضائی حملوں کیلئے بھی
العدیدبیس ہی جنگی ہیڈکوارٹرتھا۔گیس کے بےپناہ ذخائراورامریکا کیلئے اِس کی
اسٹریٹیجک اہمیت نے قطرکواِس قابل بنادیاکہ سعودیوں سے آزادانہ طورپراپنے
سیاسی وزن کومنواسکے۔ عراق جنگ اورخصوصاً 2011ءمیں شروع ہونے والی عرب
بہارکے بعدجب سعودی عرب اندرونی طورپرکمزور ہوااورخطے میں ایرانی اثررسوخ
میں اضافہ ہواتوقطرکو اپناآزادانہ کرداراداکرنے کاموقع مل گیا۔قطرکاآزادانہ
سیاسی کرداراُس وقت کھل کرسامنے آ گیا تھاجب اُس نے مصرمیں محمدمرسی کی
حکومت کی مکمل تائید جبکہ سعودی عرب نے شدیدمخالفت کی تھی جبکہ الجزیرہ نیٹ
ورک اورمڈل ایسٹ آئی نے اِس مجوزہ”تنازعہ اورخطرے”کے حق میں”مغرب
اورامریکا”میں کامیاب پروپیگنڈہ مہم نے قطرمخالفین پرلرزہ طاری
کردیاگویاقطرنے الجزیرہ جیسے بین الاقوامی میڈیاکی اسی وقت کیلئے پرورش
کررکھی تھی۔ قطری اورسعودی تنازعہ کوہوااُس وقت ملی جب2017ء میں
قطراورایران ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے جب دنیا کے سب سے بڑے گیس فلیڈ
شمالی پارس پہ دونوں نے گیس نکالنے کامشترکہ آپریشن شروع کیا۔جب قطرپٹرولیم
کے چیف ایگزیکٹوسعدالکعبی سے اِس معاملے میں سوال کیاگیاتوانہوں نے کہا”ہم
اس وقت بالکل جدیدعہد میں ہیں،لہذاہمیں بھی نئے اقدامات اٹھانے ہوں گے اور
مستقبل میں ایران کے ساتھ مزیدبہترمعاملات طے ہوں گے۔
اگرمہم جوئی کی بات کی جائے تودونوں جانب مکمل طاقت استعمال کی جارہی
ہے،امارات کے سفیریوسف الثیبہ کے نمائندے جن کے واشنگٹن میں کافی تعلقات
ہیں، انہوں نے اس جنگ میں امریکی کانگریس اورٹرمپ کی انتظامی برانچ پرکام
کیا،اہم شخصیات کے ساتھ تعلقات قائم کیے،جن میں ایلیٹ براڈے اورایڈریس شامل
ہیں۔ ایلیٹ براڈے ٹرمپ کے قریب ہیں،انہوں نے ریپبلکن کیلئےفنڈ اکٹھا
کیا۔2017ءمیں ہونے والی پریس کانفرنس میں ایلیٹ نے قطراوراخوان المسلمون کے
تعلقات کی نشاندہی کی اوراسی کانفرنس میں ایڈریس نے ایک بل پیش کیا،جس میں
انہوں نے بتایاکہ قطراخوان المسلمون کودہشتگردی کیلئےرقم فراہم
کررہاہے۔ابیش نےمختلف تقاریب اورکانفرنسزمیں گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ قطرنے
بھی کانگریس اورانتظامیہ میں تعلقات بنائے لیکن قطرنے گفتگوکا رخ ایک نئے
زاویے کی طرف پھیراہے، قطریہ چاہتاہے کہ دانشور،تجزیہ نگاراورمیڈیااس بات
پر بحث کریں کہ خطے کی موزوں ترین پالیسی کون سی ہے۔
قطر،امریکاانسٹیٹیوٹ کے ذریعے امریکاکی اہم شخصیات کیلئےدوحہ کے سفرپررقم
خرچ کررہاہے۔واشنگٹن میں قطرپرپابندی لگنے کے صرف ایک مہینے بعد قطری
سفارتخانے سے تھنک ٹینک نے2ء5ملین ڈالروصول کیے ہیں،اس کے بدلے میں محکمہ
انصاف نے اس سال کے اوائل میں دوحہ کاغیرملکی ایجنٹ کے طورپراندراج کیاہے۔
پینٹاگون میں دوحہ نے بھی اپنے اتحادیوں سے تعلقات بڑھانے شروع کردیے
ہیں،ابیش کے مطابق دوحہ میں ال۔ اودید ہوائی اڈاہے،جوخطے میں غیرمساوی
بنیادی ڈھانچا ہے، جیسے بی52ایس کارن وے۔ابیش نے مزیدبتایاکہ قطراورامارات
دونوں ممالک اس جنگ میں پیسے خرچ کررہے ہیں لیکن دونوں الگ الگ طریقے سے
کھیل رہے ہیں۔
پینٹاگون نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی وجہ سے قطراورامریکاکے تعلقات
خراب کرنے سے انکارکردیاجبکہ متحدہ عرب امارات،ری پبلکن پارٹی میں اپنے
نظریاتی اتحادیوں کوبڑھارہاہے،ان کی مددسے وہ اپنے مشترکہ دشمن الجزیرہ
کوہدف بناسکے گا ۔فارن ہاؤس کمیٹی کی سابقہ چیئرپرسن ایلینارس لیتینن جوکہ
تاحال متحدہ عرب امارات کی اتحادی ہیں نے اکن گمپ سٹرس اورفلڈ کے ساتھ مل
کرکیپٹل ہل پرایک رپورٹ تقسیم کی،جس کامقصد امریکی شعبہ انصاف پرکانگریس
کادباؤبڑھاناتھا تاکہ وہ قطرکےغیرملکی ایجنٹ بننے کیلئےشرائط کوسخت
کردے۔تاہم الجزیرہ نے اس کازوردارجواب دیتے ہوئے اس جنگ میں انٹرنیشنل
لاءفرم ڈی ایل اے پائیپرکو جون2019ءسے اب تک66ء1؍ملین ڈالرکی ادائیگی کی
ہے،یہ ادائیگی لابنگ ریکارڈ کاحصہ ہے۔امریکاکے شعبہ انصاف نے الجزیرہ کویہ
حکم جاری کیاہے کہ امریکی لابنگ قانون کے تحت وہ خودکوامریکا کی موجودگی
میں غیرملکی ایجنٹ درج کرائے، امریکی شعبہ انصاف نے یہ کام اس وقت کیاجب
انہیں یہ محسوس ہواکہ الجزیرہ سوشل میڈیا پر مسلسل سیاسی سرگرمیاں جاری
رکھے ہوئے ہے جیساکہ غیرملکی ایجنٹ رجسٹریشن ایکٹ میں درج کیاگیاہے۔
انہوں نے مزیدکہاکہ الجزیرہ قطری حکومتی عہدیداروں کوہدایات جاری کرتاہے
اورانہیں کنٹرول کرتاہے،امریکی شعبہ انصاف نے یہ بھی کہاکہ ادارتی آزادی
اوراظہار رائے کی آزادی کے دعوؤں کے باوجودقطری حکومت الجزیرہ اوراس سے
وابستہ لوگوں کو فنڈ فراہم کرتی ہے۔متحدہ عرب امارات اور بحرین نے ٹرمپ کے
مسلسل دباؤ میں اسرائیل کے ساتھ تعلقا ت قائم کرنے کیلئےواشنگٹن میں ایک
معاہدہ کیا،کچھ تجزیہ نگاروں کاخیال ہے کہ قطراس دباؤمیں آکرحماس کی
حمایت سے ہاتھ اٹھالے گا۔ ایف ڈی ڈی کے نائب صدرنے کہاکہ میں یہ کہناچاہوں
گاکہ خلیج کے بنیادی اصول تبدیل نہیں ہوئے ہیں لیکن اس کے ساتھ میں یہ بھی
کہنا چاہتاہوں کہ ہم اس خطے میں حالیہ معاہدے کے سبب تبدیلی دیکھ رہے
ہیں،ممکن ہے کہ اس معاہدے میں عمان، سوڈان اور مراکش بھی شامل ہوجائیں
اوراس وجہ سے خطے کے نظریات میں اصلاح ممکن ہوسکے،انہوں نے مزیدکہاکہ اس
صورتحال نے قطرکے اوپر دباؤبڑھا دیاہے کہ آیا وہ معاہدے میں شامل ہوتا ہے
یانہیں۔
تاہم اب تین سالہ خلیجی جھگڑے کافاتح لابنگ ماحولیاتی مرکزہے جو’’کے
اسٹریٹ‘‘میں واقع ہے،واشنگٹن ڈی سی کے ایریا میں وکلااورایڈوکیٹ کے آفس
موجود ہیں،اب اس ایریاکو’’لابنگ صنعتی ایریا‘‘کہاجاتاہے۔فرامین نے کہاکہ
اگرکوئی مجھ سے پوچھے کہ خلیج کی یہ جنگ کون جیتے گاتومیں کہوں گاکہ ’’کے
اسٹریٹ‘‘ کیونکہ’’کے اسٹریٹ‘‘نے قطرپرعائدپابندیوں کے خلاف جنگ جیت لی ہے۔
یادرہے اس سلسلے میں مغربی میڈیاکے مطابق جنوری2019ءمیں سعودی عرب
اورقطرمیں تنازعہ ختم کرانے کیلئے امریکی وزیرخارجہ پومپیونے اپنےہنگامی
دورہ میں دوحہ میں قطری ولی عہدشہزادمحمدبن زیداورریاض میں سعودی ولی
عہدشہزاد محمد بن سلمان سے ملاقات کرنے کے بعدتینوں عرب ممالک کوجاری
کشیدگی کو ختم کرنے کی ضرورت پرزوردیتے ہوئے کہاکہ یہ تنازع بہت طول
پکڑگیاہے جس سے خطے میں دشمنوں کوفائدہ ہورہاہے اور باہمی مفادات کونقصان
پہنچ رہاہے۔ہمارے سامنےاہم کام ہیں جنہیں مشترکہ طورپرجاری رکھناہے
اورامریکاچاہتاہے کہ تمام فریقین باہمی تعاون کی افادیت پرغورکریں اور وہ
اقدامات اٹھائیں جوان کی صفوں میں اتحادکیلئے ضروری ہیں۔قاہرہ میں بھی
پومپیونے کہاتھاکہ اب وقت آگیاہے کہ پرانی دشمنیوں کوخطے کے وسیع ترمفادمیں
ختم کردیاجائے۔دنیابھرکےمبصرین کے مطابق دراصل امریکی وزیرخارجہ کے دورے
کامقصد ایران کے خلاف حمایت حاصل کرناتھا۔قطرامریکاکاایک اتحادی ملک ہے
اوراس کیلئے تنازع کوحل کرانااس لیے بھی ضروری تھاکہ اس خطے میں”سٹریٹجک
الائنس آف دی مڈل ایسٹ”کے نام سے نیٹوکی طرزپردفاعی اتحاد بنانے کے منصوبوں
کوعمل جامع پہنایاجاسکے۔بعدازاں اس فوجی اتحادمیں خلیجی ریاستوں کے علاوہ
مصراوراردن کوبھی شامل کیاجائے۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان رابرٹ
پیلیڈینوکے مطابق اس دورے کے دوران پومپیونے ترک ہم منصب چاوش اولوسے بھی
فون پرشام سے فوجی انخلاکے معاملے پرتبادلہ خیال کرتے ہوئے شامی سرحدپرترکی
کے خدشات کودورکرنے کے عزائم کااعادہ کیا تھا تاہم عقدہ اب کھل کرسامنے
آگیاہے کہ ٹرمپ کے یہودی نژاددامادجوسعودی ولی عہدکے بڑے گہرے دوست اوران
کے محل میں عملاً قیام پذیررہتے ہیں،مستقبل میں خطے کے تمام اسلامی ممالک
سے اسرائیل کوتسلیم کروانےکے مشن پرفائزتھے اورنتیجہ سب کے سامنے ہے۔
|