پاک فوج ہدف تنقید کیوں؟

ہماری فوج اپنی پیشہ ورانہ کارکردگی، ڈسپلن اور بہادری کے اعتبار سے دنیا کی بہترین افواج میں شمار کی جاتی ہے۔ یہی خوبی پاکستان دشمنوں کو ہمیشہ کھٹکتی رہی ہے۔ سامراجی قوتوں نے اسے ہمیشہ ہدف تنقید بنائے رکھا اور فوج کے اندر اپنا اثرورسوخ پیدا کرکے بھی اسے بدنام کرنے کی سازشیں کیں۔ کتنی بدقسمتی ہے کہ ماضی میں جب بھی پاکستان میں فوجی مداخلت ہوئی تو اسے سامراجی طاقتوں کی مکمل پشت پناہی حاصل رہی اور سامراج نے فوجی حکومتوں سے اپنے ایجنڈے کے مطابق کام بھی لیا۔ جنرل پرویز مشرف کی تازہ ترین مثال ہمارے سامنے ہے۔ جس کا خمیازہ آج پاک فوج اور عوام بھگت رہے ہیں۔ فوج میں مخصوص افراد کی پشت پناہی کے ساتھ ساتھ سامراجی طاقتوں نے پاک فوج کو بد نام کرنے کے لیے تمام حربے بھی استعمال کیے۔ گزشتہ چند ماہ سے پہلی بار اندرون ملک سے بھی بعض سیاستدانوں نے افواج پاکستان پر کھلی تنقید شروع کر رکھی ہے۔

سانحہ ایبٹ آباد اور مہران نیول بیس کراچی کے افسوسناک واقعہ کے بعد یہ سلسلہ خاصا شدید ہوتا جا رہا ہے۔ حالانکہ ہماری فوج گزشتہ دھائی سے مسلسل اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے نبرد آزما ہے۔سانحہ ایبٹ آباد تو ١١ستمبر کے واقعہ کی طرح مکمل طور پر ٹوپی ڈرامہ ہے، اگراسے پاک فوج کی ناکامی سے تعبیر کیا جا رہا ہے تو پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اسامہ بن لادن جیسے عمررسیدہ، بیمار اور پیدل سفر کرنے والے بوڑھے کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں (نیٹو) ممالک کی افواج جدید ترین ٹیکنالوجی، فوجی مہارت اور سرمائے کی بھرماری کے باوجود بارہ سالوں تک تلاش نہیں کرسکیں تو کسی بھی ملک نے اسے اپنی افواج کی ناکامی سے تعبیر نہیں کیا۔اسے وہ اپنی حکمت عملی کی ناکامی تو کہتے ہیں لیکن اپنی افواج کو ہدف تنقید نہیں بناتے۔ یہ معمولی بات نہیں کہ ٹیکنالوجی اور سرمائے کی بھرمار کے باوجود ہزاروں فوجی بارہ سالوں میں ملا عمر، اسامہ بن لادن اور ان کے دیگر اہم ساتھیوں کی کھوج نہیں لگا سکے۔ اسی طرح مہران نیول بیس کا واقعہ گوریلا کاروائی ہے، جسے آج تک دنیا میں کوئی فوج نہیں روک سکی۔ اسرائیل، عراق، افغانستان اور مقبوضہ کشمیر میں اس طرح کے مسلسل واقعات ہو رہے ہیں۔لیکن کسی بھی ملک میں ایسے واقعات پر اپنی فوج کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاتا بلکہ کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے فوج سے تعاون بڑھایا جاتا ہے۔ یہ صرف ہم ہی ہیں جو موجودہ نازک ترین لمحات میں فوج کے ہاتھ مضبوط کرنے کے بجائے اس کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ امریکہ کے ہزاروں فوجی حکومتی ویزے پر پاکستان کے اندر موجود ہیں اور بلیک واٹر نامی بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیم کے اہل کار بھی پاکستان میں موجود ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ لوگ سیر سپاٹہ کرنے کے لیے آئے ہوئے ہیں یا وہ کسی ہدف پر کام کر رہے ہیں۔پاکستان میں دہشت گردی کو لہر میں بنیادی عنصر یہی ہے، جس کے کئی ایک شواہد بھی موجود ہیں۔ ان لوگوں کو پرویز مشرف اور صدر زرداری نے ویزے جاری کیے ہیں، پاک فوج نے نہیں۔ اس لیے فوج کو ان معاملات میں ہدف تنقید بنانے کے بجائے دشمنوں کے ساتھ اس ان دیکھی جنگ میں ان کے حوصلے بلند کرنے چاہیے۔

دفاعی معاملات سے ہٹ کر ہمارے سیاستدانوں اور عوام کو اپنی فوج سے کچھ بجا کسی کی شکایات بھی ہیں۔ ان میں بار، بار اقتدار پر قبضہ کرنا اور عوامی حقوق کو پامال کرنا۔ منتخب اداروں پر طاقت کی تلوار لٹکائے رکھنا، سیاسی معاملات میں نظر آنے والی اور مخفی مداخلت کرتے رہنا اور بعض ممالک کے ساتھ فوجی قیادت کے براہ راست مذاکرات شامل ہیں۔ ان وجوہات کی بناء پر عوامی سطح پر یہ رائے مستحکم ہو چکی ہے کہ پاکستان کے اصل حکمران وردی والے ہیں نہ کہ ان کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے سیاستدان۔ یہ بھی سرعام کہا جا رہا ہے کہ خارجہ پالیسی بھی عسکری ادارے بناتے ہیں اور امریکہ ، بھارت، چین اور چند دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کی حدوقیود بھی عسکری ادارے طے کرتے ہیں۔ یہ بھی عام خیال پایا جاتا ہے کہ عسکری ادارے پاکستان میں مخصوص لوگوں کو برسراقتدار لانے کے لیے انتخابی عمل میں براہ راست مداخلت بھی کرتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں منتخب کرواتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں گھوڈے لائن لگا دیتے ہیں۔ اسی طرح عسکری اداروں کے زیر انتظام چلنے والے کاروباری ادارے اور ہاوسنگ سکیموں نے بھی اس ادارے کی ساکھ کو برباد کیا ہے۔ ریٹائرڈ فوجی افسران کے لیے الگ سے عالیشان بستیاں بنا کر بھی انہیں عوام سے کاٹ کر رکھ دیا گیا ہے اور یہ بستیاں پاکستان کی دیگر آبادیوں سے بالکل مختلف مناظر کی عکاسی کرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے فوج اور عوام دو الگ، الگ طبقات کے طور پر نظر آتے ہیں۔

یقیناً ہماری فوج ہمارے سماج کا حصہ ہے، ہمارے بھائی بند ہیں،ہمارے خاندانوں، قبیلوں اور آبادیوں کے باشندے ہیں۔ ہماری طرح سوچتے اور ہماری طرح ہی معاملات کرتے ہیں، اس لیے ان سے فرشتوں جیسے توقعات تو نہیں رکھنی چاہیے اور ان سے غلطی ہونے کے امکانات کو بھی ردنہیں کرنا چاہیے۔ آخری بات تو یہ ہے کہ یہ ہماری اپنی فوج ہے، ہم نے اس کی حفاظت کرنی اور اس نے ہماری۔ یہ پاکستان کی جغرافیائی حدود کے محافظ ہیں، انہیں بھی اپنی حدود میں رہنا چاہیے اور ہمیں پاک فوج کی بارکوں کا محافظ بن جانا چاہیے۔ میں دیکھتا ہوں کہ جہاں کہیں سے کوئی فوجی وردی والا گزرتا ہے لوگ محبت سے اس کی طرف دیکھتے ہیں لیکن میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ جب پاک فوج کے جوان اپنے افسروں کی حفاظت کے لیے ہم پاکستانیوں کی طرف اپنی بندوقوں کی نالیاں تانے گزرتے ہیں تو پھر پاک فوج کے لیے میرے والہانہ جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ نواز شریف کے ساتھ پاک فوج نے نہیں بلکہ جنرل پرویز مشرف نے بدسلوکی کی تھی پاک فوج نے نہیں۔اس لیے میں یہ گزارش کروں گا کہ سیاستدانوں کو اگر فوج سے کوئی شکوہ شکایات ہے تو اسے مناسب انداز میں عسکری قیادت کو گوش گزار کرنا چاہے اور کسی بھی صورت میں ہماری ناراضگی کا اظہار میڈیا سے نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح عسکری اداروں کے حق میں بیانات داغ کر عوام کو فوج کے قریب ہونے یا فوج کا حلیف ہونے کا تاثر دینے کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ آج کچھ لوگ عسکری اداروں پر تنقید کرکے چمپئن بنانا چاہتے ہیں اور کچھ ان کی تعریفوں کے پل باندھ کر عوام کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فوج ان کے ساتھ ہے۔ یہ دونوں روئےے قابل مواخذہ ہونے چاہیے اور فوج سمیت تمام اداروں کو دستور پاکستان میں وضع کردہ حدود کے اندر رہ کر اپنے فرائض انجام دینے چاہیے۔ کوئی بھی فرد اور ادارہ قانون سے بالا تر نہیں ہونا چاہیے۔

فوجیوں اور سول بیوروکریسی کو یہ بتانے کی بھی ضرورت ہے کہ وہ برٹش آرمی اور برٹش سول سروس کے ملازم اور عوام کسی کے غلام نہیں رہے۔ گزشتہ نصف صدی سے ہم آزاد ہو چکے ہیں۔ یہ فوج اور بیوروکریسی ایک آزاد ملک کی ملازم ہے۔ جس کے شہریوں کی حفاظت اور ان کی خدمت فوج اور بیوروکریسی کی ذمہ داری ہے اور ایسی کے صلے میں انہیں تنخواہیں اور مراعات دی جاتی ہیں۔ یہ حاکم نہیں بلکہ سرونٹ ہیں۔ ان دونوں حیثیتوں کے فرق کو بہت واضع کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ سے لگتا ہے کہ وہ ابھی تک 1947 سے پہلے کے دور میں رہتے ہیں۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 117151 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More