سبل ۔ سوامی میچ فکسنگ

چار اور پانچ جون کی درمیانی شب میں رام لیلا میدان سے رام دیو کے اکھاڑے کو اکھاڑ پھینکنے کی دہلی پولیس کی کاروائی سے اس میچ فکسنگ کا بھانڈا پھوٹ گیا جو سبل اور سوامی کے درمیان ہوئی تھی۔اگرچہ ’سوامی‘ جی مہاراج عوام کو یہ باور کراتے رہے کہ وہ اپنی اس تحریک میں پوری شفافیت برت رہے ہیں، لیکن اس دعوے کی پول اس وقت کھل گئی جب ان کے ہی ’منتری‘ جی کی ایک تحریر سے جو خود ان کی موجودگی میں ، ان کی منظوری سے لکھ کر سرکار کو دی گئی تھی ، یہ عیاں ہو گیا کہ’انشن‘ سے پہلے ہی اپنے مطالبات پر سرکاری اقدامات سے مطمئن ہوکروہ سرکاری نمائندوں کپل سبل اور سبودھ کانت سہائے کے ساتھ ایک معاہدہ کرچکے تھے اور انشن کا ڈرامہ صرف اس لئے کرنا چاہتے تھے کہ ان کی ساکھ بنی رہے، ان کے حامیوں میں مایوسی نہ پیدا ہو۔لیکن جب حسب وعدہ انہوں نے اپنا یہ ڈرامہ لپیٹنے سے گریز کیاتو سرکارنے ، جو اب تک نرمی دکھارہی تھی،سختی دکھادی ۔جو لوگ مسٹر رام دیو کی دہلی آمد پر چار سینئر وزیروں کی ایرپورٹ پر موجودگی اور پھربڑے ادب و احترام کے ساتھ ان سے کئی گھنٹے کی ملاقات پر حکومت کو گھٹنے ٹیک دینے کا طعنہ دے رہے تھے وہی اب سختی دکھانے پر نالاں ہیں اور رام لیلا میدان میں پولیس کی کاروائی کو سخت ظلم و زیادتی بتارہے ہیں۔ آڈوانی جی کو جلیان والا باغ یاد آگیا اور شاہ نواز اور سشما سوراج کو ایمرجننسی دکھائی دینے لگی۔ بھاجپا لیڈروں نے صدر جمہوریہ سے اس ’شدید زیادتی‘ کی شکایت کی۔ کسی نے اعلا عدالتی جانچ کا مطالبہ کیا، کسی نے وزیر اعظم کے استعفے کا اور کسی نے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔یہ سب اس سنگھ پریوار کے ستون ہیں جن کو پولیس کاروائی میںرام دیو کے چند افراد کے چوٹیںآجانے سے سخت تکلیف پہنچی ہے، مگرگجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام پر کوئی اعتراض نہیں ہوا۔

رام دیو کتنے عظیم ستیہ گرہی ہیں اس کا اظہار اس بات ہوگیا کہ باوقار طور پر خود کو پولیس کے حوالے کردینے کے بجائے انہوں نے نکل بھاگنے کی کوشش کی۔ پولیس کی نظروں سے غائب ہوجانے کے کوئی ڈھائی گھنٹے بعد وہ اتفاقاً زنانہ لباس میں اسٹیشن جاتے ہوئے عورتوں کے درمیان پکڑ لئے گئے۔ اگرنہ پکڑے جاتے اور کہیں روپوش ہوجاتے تو آج پورا ہندستان فساد کی لپیٹ میں آگیا ہوتا۔ یہی شاید ان کی اور سنگھیوں کی منشاءبھی تھی۔ اس بات پرکسی کو اعتراض نہیں ہورہا کہ سادھو اور سنت سیاست کیوں کرنے لگے ہیں، اس بات پر شور مچایا جارہا ہے کہ سیاست داں سادھو سنتوں کی طرح برتاﺅ نہیں کرتے؟یہ بھی کہا جارہا ہے کہ میچ فکسنگ کے اس کھیل میں دونوں کوزک اٹھانی پڑی ہے۔ لیکن یہ خیال غلط ہے۔درحقیقت رام دیو کو پہلے سر آنکھوں پر بٹھا کر اور پھر زنانہ لباس میں دہلی سے چلتا کرکے کانگریس نے ایک بڑا کھیل کھیلا ہے جس کانتیجہ الیکشن میں سامنے آئےگا ۔ اپنی سیاسی حیثیت سے زیادہ عزائم رکھنے والے رام دیو اس ’فتح ‘پر مخمورہیں۔ وہ جب چناﺅ میں اپنے امیدوار اتاریں گے تب بھاجپا کو اپنی ’بابا رام دیو‘ نوازی کا مزا چکھنا ہوگا اور تبھی یہ بھی عیاں ہوگا کہ سیاست کے اس کھیل میںبڑا کھلاڑی کون ہے؟

یہ بات صاف ہے کہ اس پوری تحریک کے پس پشت سنگھ پریوار کا ہاتھ ہے۔ممبئی پر دہشت گردانہ حملے کے نتیجہ میںوزیر داخلہ شیوراج پاٹل کی رخصتی اور چدمبرم کی تقرری کے بعد جب دہشت گردی کا سنگھی چہرہ بے نقاب ہونے لگا اور سنگھ پریوار کی قوم پرستی کی پول کھلنے لگی تب اسے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بچانے اورسنگھی دہشت گردی سے عوام کی توجہ ہٹانے کی فکر ہوئی۔ چنانچہ اس نے بدعنوانی کے سنگین مسئلہ کو چھیڑنے کہ تدبیر اختیار کی۔ بھاجپا نے یہ مہم چھیڑی مگر کیوں کہ وہ خود گلے گلے بدعنوانی میں ڈوبی ہوئی ہے اس لئے بات بنی نہیں۔تب انا ہزارے اور رام دیوکا سہارا لیا گیا۔ سرکار اس وقت چونکی جب انا ہزارے کی تحریک نے چشم زدن میں پورے ہندستان میں وبال کھڑا کردیا۔مرکز نے ہزارے اور رام دیو کے مقابلے جو خود سپردگی جیسارویہ اختیار کیا اس سے لگا کہ سرکار کا’اقبال‘ اورپارلیمانی جمہوری نظام کا ’وقار‘داﺅں پر لگا دیا گیاہے۔ لیکن خود رشوت ستانی اور کرپشن جیسے سنگین مسئلہ میں سپریم کورٹ سے پھٹکار کھائی ہوئی سرکار کےلئے اس عوامی اضطراب وآواز کو نظر انداز کرنااس سے کہیں زیادہ بڑی غلطی ہوتی۔سرکار نہ ہزارے کے سامنے جھکی ہے اور نہ رام دیو کے آگے ، بلکہ انانیت کا مظاہرہ کرنے بجائے کرپشن کے خلاف عوام کے سروکار کو بجا طور پر تسلیم کیا ہے اور اس کے حل پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ ان تحریکوں سے بیشک وقتی طور سے سنگھی دہشت گردی کا معاملہ پس پشت چلا گیا ہے ، مگراس تحریک کے باوجود سرکار سنگھ کے دباﺅ میں نہیں آئی ہے جس کا اظہار18 مئی کو مکہ مسجد کیس میں این آئی اے کے ضمنی چارج شیٹ میں آر ایس ایس کے سرکرہ لیڈر اندریش کمار کا نام شامل کئے جانے سے ہوتا ہے۔

ملک میںجاری مختلف سیاسی سرگرمیوں میں باہم ربط کو سمجھے بغیر انفرادی تحریک سے آدمی دھوکہ کھا سکتاہے۔ اگر بھاجپا انا ہزارے اور رام دیو کی تائید کررہی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بھی عوام کی طرح بدعنوانی سے پریشان ہے۔ ہوتی تو خود اس کی سرکار والی ریاستوں میں کرپشن کا بول بالا نہ ہوتا۔ اس تائید سے اصل منشاءعوام کی توجہ سنگھی دہشت گردی اور بھاجپائی فرقہ پرستی کے اہم موضوع سے ہٹانا ہے۔ افسوس کہ خود ہم اس جال میںپھنس گئے ہیں اوربغیر سوچے سمجھے ان تحریکوں سے ہمدردی جتارہے ہیں ۔انا ہزارے کی تحریک میں رام دیو ان کے ساتھ تھے۔ مگر ان کو لگا کہ ہزارے کا قدجتنا بہت بڑھ گیا ہے ان کا نہیں بڑھا۔ چنانچہ اپنا قد بڑھانے کےلئے انہوں نے اپنی الگ تحریک شروع کردی۔ سنگھ پریوار کو اس طرح تحریک کے اعادہ میں فائدہ نظرآیا۔چنانچہ ہزارے کی تائید تومصلحتاً پس پردہ کی تھی لیکن رام دیو کی تائید میں کھل کر سامنے آگیا۔ بھاگوت، گڈکری، جیٹلی، راج ناتھ ، سشما سوراج اورآڈوانی کے بیانات سے اور سشما سوراج کے بھاگ کر ہری دوار جانے سے صاف ظاہر ہے کہ بھاجپا اس تحریک سے اظہار یک جہتی کرکے سیاسی فائدہ اٹھانے کے فراق میںہے ۔ اس کی مجبوری یہ ہے کہ ہزارے اور رام دیو کے منظرعام پر آنے سے بھاجپا پس منظر میں چلی گئی اورقومی اپوزیشن کا رول اس کے ہاتھ سے نکل کرہزارے اوررام دیو کے ہاتھوںمیں چلاگیا۔ حالیہ اسمبلی انتخابات میں بھاجپا کی جو درگت ہوئی وہ سب کو معلوم ہے۔ مغربی بنگال، کیرلہ، تمل ناڈو اور پانڈیچیری میں اس کا ایک بھی امیدوار کامیاب نہیں ہوا۔ آسام میںصرف 5 امیدوار جیتے ہیں۔ ایسی صورت میں اس کےلئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اپنا جھنڈا لیکر اس ہجوم کے ساتھ ہولے جو کرپشن کے مخالفت کے نام پر جمع ہواہے۔ حالانکہ کرپشن کے معاملہ بھاجپا کا ریکارڈاجگ ظاہر ہے۔ بنگارو لکشمن اور جودویو کی ویڈیو کلپنگ کوکون بھلا سکتا ہے؟ انہی رام دیو نے اتراکھنڈ کے سابق بھاجپا وزیر اعلا کھنڈوری کے دور میں رشوت مانگے جانے کا انکشاف کیا تھا۔اس کا ایک ایم پی کبوتر بازی کے معاملہ میں جیل میں ہے۔ پارلیمنٹ میں سوال کے عوض پیسہ لینے کی پول بخوبی کھل چکی ہے۔کرناٹک میں روز ایک نئی کہانی سامنے آرہی ہے۔

سنگھ پریوار سے رام دیوکے رشتے کو اور ان کی اس تحریک کو سمجھنے کےلئے پہلے خود رام دیو کو سمجھنا چاہئے۔ ’رام کشن یادو‘ عرف رام دیو ہریانہ کے ضلع مہندرگڑھ کے گاﺅں علی سید پور میں رام نواس یادو اور گلابو دیوی کے گھر پیدا ہوئے۔رام نواس کا گھرانہ قوم پرست آریہ سماجیوں کا رہا ہے۔ تقسیم سے قبل پورے پنجاب میں(جس میں ہریانہ بھی شامل تھا)ہندو مہاسبھا کے ایک ممتاز نظریہ ساز مہاشے منشی رام معرف بہ ’سوامی‘ شردھانند کی شخصیت آریہ سماجیوں کا آئیڈیل رہی ہے۔یہ وہی شردھانند ہیں جنہوں نے شدھی تحریک چلائی تھی تاکہ مسلمانوں کومرتد کرکے ہندو مذہب میں داخل کیا جائے۔ رام کشن یادوعرف’بابا‘ رام دیو نے کمسنی سے مہاشے شردھانند کا گن گان سنا اور ان کے عقیدتمند بن گئے۔ہندو احیاءپرستی کے تحریک سے متاثر رام کشن کا دل سیکولر تعلیم میںنہیںلگا اور شہزاد پور سے آٹھویں پاس کرکے ’ارش آریہ گوروکل خانپور‘ داخل ہوگئے جہاں یوگ و سنسکرت کی تعلیم پائی۔مذہبیت کا رنگ اتنا گہرا چڑھا کہ کم عمری میں ہی سنیاس کا اعلان کردیا اور’ سوامی رام دیو‘ بن گئے۔یہ گیروی رنگت ان کو خوب راس آئی۔ 2003 سے سادھنا چینل پر یوگ کلاسوں سے ان کی اقبال مندی اوردولتمندی کا دور شروع ہوا اورآٹھ سال کی مختصر مدت میں انہوں نے ڈیڑھ ہزار کروڑ روپیہ سے زیادہ کی املاک جمع کرلیں۔ آیرلینڈ کا ایک جزیرہ بھی ان کی ملکیت میں آگیاجس پرصحت مرکز بنایا جارہا ہے۔ان پر الزام ہے کہ نیتاجی سبھاش چندر بوس اور شہید بسمل کی تصویروں کی آڑ میں وہ خوب دولت بٹور رہے ہیں۔ ان کے اوشدھشالہ کی دواﺅں کی سالانہ فروخت 300کروڑ روپیہ سے زیادہ ہے۔ کوئی 30کروڑ روپیہ سالانہ کتابوں اور سی ڈیز کی فروخت سے آتے ہیں۔ ان کے پاس اپناایک ہیلی کاپٹر ہے اور وہ عموما نجی طیارے سے سفر کرتے ہیں۔ مادی دنیا میں ان چشم کشا فتوحات نے ان کے اندر سیاسی عزائم پیدا کردئے ۔ فی الحال انہوںنے اپنی سیاسی پارٹی بنانے کا منصوبہ آر ایس ایس کے اصرار پر ملتوی رکھا ہے ۔ لیکن رام لیلا میدان کی لیلا سے ان میں جوہوا بھری ہے وہ انہیںچین سے بیٹھنے نہیں دے گی۔انہوں نے آج ہی ہری دوار میں اعلان کیا ہے اب وہ گیارہ ہزار افراد پر مشتمل اپنی الگ سینا بنائیں گے۔

اب اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پہلے رام دیو کو وی آئی پی کا درجہ دیکر اور پھر ان کے اکھاڑے کو اجاڑ کر کانگریس نے نادانی کی ہے تو یہ اس کی سادہ لوحی ہے۔یہ حکومت اور ام دیو کے درمیان کا کھیل نہیں ہے بلکہ اس کا منظر نامہ بڑا وسیع ہے۔ کانگریس اور سنگھ پریوار کے درمیان اس وقت شہ اور مات کو جو کھیل چل رہا ہے اس میں کپل سبل ، پرنب مکھرجی اور سبودھ کانت سہائے نے سوچ سمجھ کر یہ بازی کھیلی ہے۔ابھی یہ آغاز ہے، انتہا دیکھئے کیا ہوتی ہے؟

آخری بات: کرپشن کا مسئلہ واقعی سنگین ہے۔اس کی لپیٹ میں ہندو مسلمان سبھی آرہے ہیں۔ مگر ہمارے لئے سیاسی کرپشن ، یعنی’ فرقہ پرستی ‘کا مسئلہ کم سنگین نہیںہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ انا ہزارے اور رام دیو کو مسلم کش فرقہ پرستی دکھائی ہی نہیں دیتی۔ دکھائی دیتی تو انا ہزارے کے منچ پر رام مادھو نظر نہ آتے ، وہ مودی کی مدح سرائی نہ کرتے اور رام دیو کے انشن کا افتتاح سادھوی رتمبھراکی تقریرسے نہ ہوا ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا رشوت خوری کے خلاف مہم میں ہم ایسے عناصرکو تقویت پہنچائیں جو فرقہ پرستوں کے ہم نوالہ و ہم پیالہ ہیں ۔ افسوس کہ اس حساس معاملے کو دہلی پولیس نے بھی یہ کہہ کر فرقہ ورانہ رنگ دیدیا کہ مسلم اکثریتی علاقہ (ترکمان گیٹ) سے متصل رام لیلا میدان میں رتمبھرا کی تقریر سے یہ اندیشہ پیداہوگیا تھا کہ رام دیو پر جان لیوا حملہ نہ ہوجائے اور میڈیا نے متعدد ذرائع سے آنے والی اس اطلاع کواہمیت نہیںدی کہ آر ایس ایس نے رام لیلا منڈپ کو دیر رات آگ لگانے کی سازش رچی تھی تاکہ ملک بھر میں گجرات جیسے حالات پیدا کئے جائیں۔اس دوران پوری کے جگت گورو سوامی ادھوکشانند نے رام دیو کو یہ صائب مشورہ دیا ہے کہ اب جبکہ انہوں نے گیروا لباس پہن ہی لیا ہے تو ان کو چاہئے کہ سنیاس بھی لے ہی لیں۔ (ختم)

(مضمون نگارآل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ کے نائب صدر اور فورم فار سول رائٹس کے جنرل سیکریٹری ہیں)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163107 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.