امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آخر کاراپنے دور ِ اقتدار کے
آخر میں امریکی نیٹو اتحادی ملک ترکی پر پابندیاں عائد کرکے اطمینان کی
سانس لی۔ترکی نے 2017میں امریکی مخالفت کے باوجود روس سے S-400میزائل سسٹم
خریدا تھا جس کے نتیجے میں اس پر ٹرمپ انتظامیہ نے کئی بار انتباہ دیا اور
آخر کار ترکی پر پابندی عائد کردی۔ امریکہ کا کہنا ہیکہ روسی میزائل سسٹم
نیٹو کے دفاعی نظام کیلئے خطرہ بن سکتا ہے جبکہ ترکی اس بات سے انکار کرتا
ہے۔ رپورٹس کے مطابق S-400میزائل سسٹم امریکہ کے جدید ترین فائٹر جیٹ
F-25کو مارگرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ترکی کو
S-400میزائل سسٹم کے پارٹس 2019میں ملنا شروع ہوگئے تھے کیونکہ ترکی پہلے
ہی روس کو اس خریداری کیلئے بھاری قیمت ادا کرچکا ہے اور اب ترکی کو
F-35طیاروں کی خریداری سے روکا جارہا ہے۔امریکہ کی جانب سے پابندی عائد کئے
جانے کے بعد ترکی نے اپنے ردّعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسکی مذمت کی ہے۔ترک
صدر رجب طیب اردغان کی قیادت میں منعقدہ صدارتی شوریٰ کمیٹی نے امریکہ کے
یکطرفہ فیصلہ کی مذمت کی ہے ۔ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں صدارتی شوریٰ
کمیٹی کے بند کمرے اجلاس کے بعد صدارتی محکمہ کے سربراہ مواصلات فخر الدین
آلتن نے کہا کہ اجلاس میں امریکہ کی جانب سے پابندیوں کے یکطرفہ فیصلے کی
مذمت کی گئی اور اجلاس میں ترکی کے قومی سلامتی اور خودمختاری حقوق سے
متعلقہ موضوع پر لئے جانے والے اس غلط فیصلے کے خلاف ممکنہ ضروری اقدامات
کا بھی جائزہ لیا گیا۔ترک صدر رجب طیب اردغان نے امریکی کی جانب سے لگائی
گئی پابندیوں کے فیصلے کو علی الاعلان ترکی کی خود مختاری پر حملہ قرار دیا
۔انکا کہنا تھاکہ امریکہ کا اصل مقصد دفاعی صنعت میں ترکی کی ترقی کا راستہ
کاٹنا اور ترکی کو محتاج بنانا ہے۔انہوں نے کہا کہ پابندیوں کے ذریعہ
انسدادِ مخاصمت کے قانون CAATSAکے معاملے میں امریکہ نے ترکی کے علاوہ کسی
اور ملک پر یہ پابندیاں نہیں لگائیں، پہلی مرتبہ کسی نیٹو کے رکن ملک پر یہ
پابندیاں لگائی گئی ہیں۔صدر اردغان نے کہا کہ اس فضائی دفاعی سسٹم کے حصول
کیلئے امریکہ نے ہماری کسی بھی شرط کو پورانہیں کیا اور جب ہم نے اپنی
ضرورت کو کسی اور جگہ سے پورا کرلیا ہے تو اس نے پابندیوں کو اسلحے کے طور
پر استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ پابندیوں کا فیصلہ ہماری ملکی خودمختاری پر
کھلا حملہ ہے۔ ہم دفاعی صنعت کے سربراہ اسماعیل دیمیر اور انکی ٹیم کے ساتھ
پہلے سے بھی زیادہ تعاون کریں گے۔رجب اردغان نے کہاکہ ’’پابندیوں کا فیصلہ
ہمیں روک نہیں سکتا بلکہ اس فیصلے کی وجہ سے ہم عالمی سطح پر قائدانہ حیثیت
کی حامل دفاعی صنعت کی تعمیر کے لئے اپنی کارروائیوں کو تیز ترکردیں گے۔ ہم
اپنی دفاعی صنعت کو خودکفیل بنانے کیلئے ماضی کے مقابلے میں دوگنی محنت
کریں گے‘‘۔ اس طرح صدر ترک رجب طیب اردغان نے ایک نئے عزم و حوصلہ کامظاہرہ
کرتے ہوئے اپنی طاقت کو مزید مستحکم بنانے کی طرف اشارہ کیا اورترکی کے جن
اشخاص یا کمپنی پر پابندی لگائی گئی انکا بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کیا۔
امریکہ کی جانب سے پابندیاں عائد کئے جانے کے بعد نیٹو کے سکریٹری جنرل
ژانزاسٹولٹن برگ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیٹو کے رکن ممالک کا
ایک دوسرے پر باپندیوں کا نفاذ قابلِ افسوس ہے انہوں نے اس امید کا اظہار
کیا کہ نیٹو اور اس کے رکن ممالک آپس کے تنازعات کو حل کرنے کی کوشش
کرینگے۔اسی طرح ترکی پر عائد کی گئی پابندیوں کے خلاف ایران نے بھی امریکہ
کی شدید مذمت کی ہے ، ایران کے وزیر خراجہ جواد ظریف نے اپنی ٹوئٹ میں کہا
کہ روس سے S-400دفاعی نظام کی خریدی پر امریکہ نے ترکی کے خلاف یکطرفہ
اقدام کرتے ہوئے پابندیاں لگادی ہیں جس کی ایران مذمت کرتا ہے۔ پاکستان نے
بھی ترکی پر عائد یکطرفہ امریکی پابندیوں پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے
کہاکہ پاکستانی حکومت اور عوام ، ترک حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑے ہیں،
ترجمان پاکستانی دفتر خارجہ نے مزید کہاکہ پاکستان قومی سلامتی ، امن و
خوشحالی کی جدوجہد میں ترکی کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور مزید کہاکہ
پاکستان ہمیشہ مشترکہ اہداف کے حصول کی جدوجہد میں ترکی کے شانہ بشانہ کھڑا
رہے گا۔ ترک امور خارجہ کا کہنا ہیکہ وہ امریکہ کی جانب سے لگائی گئی
یکطرفہ پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے اس کی مذمت کرتے ہیں۔ بیان میں کہا گیا
ہیکہ’’ ترکی ، امریکہ سے اس غیر منصفانہ فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے واپس
لینے کامطالبہ کرتا ہے، بصورت دیگر ترکی مناسب وقت پر اس سلسلے میں ضروری
اقدامات لینے پر بااختیار ہوگا‘‘۔ ترک اسپیکر اسمبلی مصطفی شین توپ نے اپنے
ٹوئٹر پیغام میں امریکہ کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہاکہ ’’یہ
پابندیاں اتحاد اور اتحاد ی ملک سے تعلقات کو معمول پر لانے سے ہم آہنگ
نہیں ہیں، دفاعی صنعت میں ترکی کو اسیر بناسکنے کی مفاہمت اب ماضی بن چکی
ہے۔ نائب صدر فواد اوکتائے کا کہنا ہیکہ ترکی کے اٹل مؤقف کو کسی بھی ملک
کی پابندیاں اثر نہیں کرسکتیں، امریکی پابندیاں ہمارے صدر محترم کی قیادت
میں قومی مفادات اور ہماری دفاعی صنعت میں اٹھائے گئے اقدامات کو مزید
تقویت دلائیں گے۔ وزیر خارجہ میولود چاوش اولو کا کہنا ہیکہ امریکہ کی جانب
سے پابندیوں کا فیصلہ قانونی و سیاسی ہر دو اعتبار سے ایک غلط قدم ہے۔ یہ
اس کا ایکطرفہ فیصلہ ہے اور ترکی یا پھر کسی اور ملک کے حقِ خود مختاری پر
حملے کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر پابندیوں کی مندرجات پر غور
کیا جائے تو یہ کوئی ایسی پابندیاں نہیں ہیں کہ جو ہم پر جڑ سے ہلادینے کی
حد تک منفی اثرات مرتب کریں۔ اگر اسے پس قدمی کرنا ہوتی تو اس وقت تک کرچکا
ہوتا۔ پابندیوں کے اثرات کیا ہیں، ان کا قدو کاٹھ کیا ہے ہمارے ساتھی اس کا
جائزہ لے رہے ہیں اور یقینا اس سب کا جائزہ لینے کے بعد ہم بھی اس سے ہم
آہنگ قدم اٹھائیں گے‘‘۔ وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ امریکہ اور ترکی کے
درمیان تعلقات معمول پر آنے کیلئے امریکہ کو ترکی کی توقعات کو پورا کرنا
ضروری ہوگا۔ صدارتی ترجمان ابراہیم قالن نے اس حوالے سے اپنے پیغام میں کہا
کہ ترکی دفاعی صنعت کے اہداف کے حصول میں اپنے سفر کو جاری رکھے گا۔ ترکی
حکومت نے ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے اسکی مذمت کی ہے لیکن
دیکھنا ہیکہ جنوری 2021میں نئے امریکی صدر کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد
جوبائیڈان ترکی کے خلاف ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلہ کو برقرار رکھتے ہیں
یا پھر نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات
بنائے رکھنے کیلئے کوشش کرتے ہیں۔
عالمی سطح پر ترکی معاشی میدان میں سرفہرست ہوگا۰ اردغان
ترکی کی طاقت اور معاشی ترکی کو دیکھتے ہوئے اس کے مخالفین آئے دن اس کے
خلاف کچھ نہ کچھ اقدامات کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس سے قبل یورپی یونین نے
ترکی کو انتباہ دیا تھا اور اب امریکہ کی جانب سے یکطرفہ پابندیاں عائد
کردی گئیں۔ اس کے باوجود ترک صدر رجب طیب اردغان اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے
ذریعہ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ دشمنوں کو خاموش کرنے کی
سعی کررہے ہیں۔ رجب طیب اردغان نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ ترک معیشت ہر
قسم کے مشکل تجربات ، نئے مواقعوں اور مختلف صورتحال کے پیش نظر مقابلوں کے
لئے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام حکومت پر بھروسہ رکھے، جو لوگ مسلسل
انارکی پھیلانے کے درپے ہیں انہیں منہ توڑ جواب دیا جائے گا لہذا عوام ملکی
معیشت اور ہماری حکومت پر اعتماد کو بحال رکھے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی
معیشت میں ترکی ایک نئے اقتصادی دور میں داخل ہورہا ہے امید ہیکہ کورونا کے
بعد وطن عزیز ایک مستحکم عالمی کردار ادا کرنے کا حامل ہوگا جبکہ حکومت ،
نوجوانوں اور خواتین سمیت ہر طبقے کیلئے روزگار کے بہترین اور نئے مواقع
فراہم کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ صدر ترک اردغان نے عوام کو یہ خوشخبری بھی
سنائی کہ جلد ہی ترک پرچم خلا میں لہرایا جائے گا۔
ترک انتہائی نگہداشت کے شعبے میں سرفہرست
ترک وزیر صحت فخر الدین قوجہ کے مطابق ترکی ہاسپتالوں میں انتہائی نگہداشت
کے شعبے میں ایک لاکھ بستروں کی گنجائش کے حوالے سے دنیا میں سر فہرست ہے۔
وزیر صحت نے اپنے سوشل میڈیا پر دیئے گئے پیغام میں ترکی عوام سے کہا کہ وہ
اس بات پر فخر کا اظہار کرسکتے ہیں۔
ترکی اور اسرائیل کے درمیان بھی تعلقات بحال
متحدہ عرب امارات اور بحرین و سوڈان کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی
بحالی کے بعد اب ترکی نے بھی اسرائیل کے درمیان اپنے اختلافات کو ختم کرنے
کے لئے پہل کی ہے۔ ترکی اور اسرائیل کے درمیان دو سال قبل سفارتی تعلقات
منقطع ہوگئے تھے تاہم ایک بار پھر یہ تعلقات بحال ہوگئے ہیں۔ ترکی نے اب
اسرائیل کیلئے اپنا سفیر افق اولوتاس کو مقرر کیا ہے ۔ 40سالہ افق اولوتاس
فلسطین کاز کے حامی اور ایران کے امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ ترکی نے یہ
فیصلہ ایک ایسے وقت کیا جب ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے ترکی کے خلاف پابندیاں
عائد کردیں اور پھرنئے امریکی صدرجوبائیڈان کی نئی انتظامیہ کس قسم کا
فیصلہ کرتی ہے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن سمجھا جارہا ہے کہ رجب طیب
اردغان نے یہ فیصلہ نومنتخب امریکی انتظامیہ سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے
کیا ہے او ریہ انکی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔ واضح رہے کہ ترکی نے غزہ میں
فلسطینیوں پر حملوں کے ردعمل میں 2018میں اسرائیل سے اپنا سفارتکارواپس
بلالیا تھا جس کے جواب میں اسرائیل نے بھی اپنا سفیر واپس بلالیا تھا۔
کورونا سے دنیا کی معیشت پر گہرے منفی اثرات۰۰۰شاہ سلمان بن عبدالعزیز
سعودی عرب عالمی سطح پر کئی پریشان و تباہ حال ممالک کے عوام کی مدد کرتا
رہا ہے اور عالمی سطح پر کورونا وبا کے بعد سعودی شاہی حکومت نے اپنے بیمار
شہریوں اور دیگر تارکین وطنوں کی بہتر صحت و نگہداشت کیلئے اہم اور
مؤثراقدامات کئے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق مملکت کے فرمانروا شاہ سلمان بن
عبدالعزیز خادم حرمین شریفین نے آئندہ مالی سال 2021کیلئے 990ارب ریال کے
بجٹ کا اعلان کیا۔ سعودی عرب کے نئے بجٹ میں آمدنی کا تخمینہ 849ارب ریال
لگایا گیا ہے ۔آن لائن اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے
کہا کہ رواں سال دنیا بھر کو کورونا وبا کا سامنا کرنا پڑا جس نے دنیا کی
معیشت پر گہرے منفی اثرات چھوڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مملکت میں کورونا کی
وبا سے نمٹنے کے لئے تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے مرض میں
مبتلا ہونے والے شہریوں اورغیر ملکیوں کے علاوہ وہ غیر ملکی جو مملکت میں
غیر قانونی طور پر مقیم تھے کو بھی مفت علاج معالجے کی سہولت فراہم کی گئی
۔انہوں نے اپنے خطاب میں رواں سال کو تاریخ کا سخت ترین سال بتاتے ہوئے کہا
کہ ہم نے شہریوں اور مملکت میں رہنے والے غیر ملکیوں کی صحت کو اولیت دی ہے
تاکہ کورونا کے اثرات سے بخوبی نمٹا جاسکے۔ سعودی شاہی حکومت نے وبا کے
دوران صحت کے امور سے منسلک افراد جو کورونا وبا سے ہلاک ہوئے ہیں ، ہلاک
ہونے والے ہر کارکن کیلئے پانچ لاکھ ریال مختص کئے تھے اور اس اعلان کا
نفاذ کورونا کے پہلے کیس سے ہی شروع کردیا گیا تھا۔
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان سردمہری تو نہیں۰۰۰؟
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تعلقات کس نوعیت کے ہیں اس سلسلہ میں کچھ
کہا نہیں جاسکتا، لیکن اتنا ضرور ہے کہ پہلے کی بہ نسبت تعلقات میں گرمجوشی
کے بجائے سردمہری دکھائی دیتی ہے۔ سعودی عرب نے 2018ء کے آخر میں پاکستان
کو چھ ارب بیس کروڑ ڈالرز کا مالی پیکج دیا تھا جس میں تین ارب ڈالرز کی
نقد امداد اور تین ارب بیس کروڑ ڈالرز کی سالانہ تیل و گیس کی موخر
ادائیگیاں شامل تھیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ معاہدہ تین سال تک قابلِ
توسیع تھا ، لیکن اگست میں سعودی عرب کے مطالبہ پر پاکستان کو فراہم کردہ
تین ارب ڈالرز میں سے ایک ارب ڈالرز واپس کردیے گئے اور اب منگل 15؍ ڈسمبر
کو پاکستانی حکومت نے سعودی عرب کو مزید ایک ارب ڈالر کی رقم واپس کردی ہے
اس طرح پاکستان ، سعودی عرب کو دو ارب ڈالرز واپس کرچکا ہے اور مزید ایک
ارب ڈالر کی رقم آئندہ ماہ ادا کرنے امکان ہے۔واضح رہے کہ پاکستان سعودی
عرب کو قرض کی ادائیگی کے لئے اس سے قبل چین سے ایک ارب ڈالر حاصل کیا تھا
اور پھر پاکستان نے مزید ڈیڑھ ارب ڈالر چین سے قرض حاصل کیا ہے ۔ بتایا
جاتا ہیکہ سعودی عرب کی جانب سے سالانہ پاکستان کو تین ارب ڈالر کے ادھار
تیل کا معاہدہ بھی معطل ہے اور گذشتہ مالی سال میں پاکستان نے صرف پونے دو
ارب ڈالر کی سہولت حاصل کی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حالیہ عرصے میں پاکستان
اور سعودی عرب کے تعلقات میں سردمہری آئی ہے۔ماہرین اقتصاد کا کہنا ہیکہ
اگر پاکستان سعودی عرب سے حاصل کردہ قرض کی ادائیگی کیلئے متبادل تلاش نہ
کرتا تو اس کیلئے آئی ایم ایف کے پروگرام کو جاری رکھنا مشکل ہوجاتا۔ بین
الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے مطابق
پاکستان اپنے زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم رکھنے کے لئے دوست ممالک سے قرض کا
حصول ہے جو کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے لئے گئے ۔ معاہدہ کے
مطابق پاکستان کے اسٹیٹ بینک اکاؤنٹ میں سعودی عرب نے 15؍ ڈسمبر2018کو تین
سالہ مدت کیلئے رقم ڈالی تھی لیکن سعودی عرب کے مطالبہ پر پاکستان مقررہ
مدت سے قبل رقم واپس کررہا ہے۔ پاکستان معاشی مشکلات کاک سامنا کررہا ہے
اور آئندہ سال کے آغاز پر اسے متحدہ عرب امارات کو دو ارب ڈالر ادا کرنے
ہیں جبکہ چین سے حاصل کئے جانے والے تین ارب ڈالر کی واپسی کی مدت بھی
آئندہ سال کے وسط میں ختم ہورہی ہے اس طرح وزیر اعظم عمران خان ایک طرف
اپنی معیشت کی بہتری کیلئے کوششیں کررہے ہیں تو دوسری جانب قرضوں کی
ادائیگی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۰۰۰
***
|