مولانا شیرانی اور اسرائیل

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے فرمایا تھا اسرائیل ناجائز بچہ ہے ، قائد کا یہ فرمان ہر سچے پاکستانی کے لئے آج بھی مشعل راہ ہے ، اسی فرمان کی روشنی میں ہماری خارجہ پالیسی ہمیشہ سے فلسطین کے حق میں رہی ، صرف بانی پاکستان ہی نہیں ، شاعر مشرق علامہ اقبالؒ بھی اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف تھے ، منٹو پارک لاھورمیں بانیان پاکستان نے بھی 3 روزہ اجلاس کے بعد 23 مارچ 1940 کو جہاں ہندوستان میں دو قومی نظرئیے کی متقفہ قرارداد منظور کی وہیں دوسری قرارداد اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خلاف بھی منظور کی تھی ، اس لئے اب پاکستان میں جو بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرے تو اس بات کو وہ خوب جان لے کہ وہ جانے انجانے میں 23 مارچ 1940کی قرارداد سے بھی انحراف کر رہا ہے ، الحمدللہ ہماری حکومت ، ریاست ، اپوزیشن اور عوام سب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے خلاف ہیں ،

گزشتہ دنوں میں پاکستان میں یہ بحث زوروں پر تھی کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم وزیراعظم عمران خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اس بات کی سختی سے تردید کر دی تھی، مگر ایسے میں سابق رکن قومی اسمبلی اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق سربراہ مولانا محمد خان شیرانی صاحب کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔
اپنے حالیہ بیان میں مولانا محمد خان شیرانی نے بلوچستان کے ضلع لورالائی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور وہ اس چیز کے حق میں ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے۔

اسرائیل کے تسلیم کرنے کے حق میں اگر کوئی بیان دیتا ہے تو اس کی سیاسی وجوہات ہوسکتی ہیں، لیکن کوئی بھی پاکستانی اس مؤقف کا حامی نہیں ہے؛ کیونکہ پاکستان ان سلامی ممالک میں شامل ہے جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔

اسرائیل کے حق میں بیان سے جو انگلیاں اُن پر اٹھ رہی ہیں وہ بالکل غیر متوقع نہیں ہیں ، مولانا محمد خان شیرانی صاحب اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیرمین اور رکن پارلیمنٹ بھی رہ چکے ہیں ، وہ کئی سرکاری کمیٹیوں میں بھی شامل رہے ہیں؛ لہذا ان کے اس بیان کو ان کی سادگی کہنا بھی حقائق سے نظریں چرانے کے مترادف ہوگا ، بہت بہتر ہو کہ وہ اپنے اس بیان سے رجوع کر لیں ، اگر انہوں نے اپنے اس بیان سے رجوع نہ کیا تو آنے والی نسلیں شیرانی صاحب کو شاید اچھے لفظوں سے یاد نہ کریں ، باقی شیرانی صاحب کو اسلاف اور اکابرین کی تاریخ کو بھی یاد رکھنا چاہیئے ، ہمارے اکابرین نے انگریز کے خلاف بہت قربانیاں پیش کی ہیں ان اکابرین کے نام آج کسی کی نادانی کی وجہ سے داغدار ہوں یہ مناسب نہیں ہے ، دہلی کی جامع مسجد سے لے کر ہر چھوٹے بڑے علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی اکابر علماء نے وہاں جاکر لوگوں کو انگریز کی غلامی سے نکلنے کا درس دیا ، انگریز کے خلاف جب ان کی جدوجہد بڑھی تو انگریز نے علماء کرام کو جکڑنے کے لئے فورتھ شیڈول کا قانون بنایا تاکہ علماءاور عام مسلمانوں کے رابطوں کو توڑا جاسکے ، کیونکہ علماء کرام نے ہندوستان میں فتوی دے دیا تھا کہ انگریز کی فوج میں شامل ہونا حرام ہے ، انگریز نے جب یہ دیکھا کہ لوگ علماء کرام کی بات پر توجہ دے رہے ہیں ، ایک طرف انگریز کی فوج میں لوگ بھرتی نہیں ہو رہے اور دوسری طرف مزاحمت بڑھ رہی ہے ، تو انگریز نے اس دور میں فورتھ شیڈول کا قانون بنایا اور اُس وقت علماء کو پابند کیا کہ وہ بغیر بتائے اپنے تھانے کی حد سے نہیں نکل سکتے ، جن کا نام فورتھ شیڈول میں آجائے وہ پبلک سے خطاب نہیں کرسکتے ، لیکن پھر بھی علماءکرام جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلتے تھے اور اپنے لوگوں کو منظم کرنے کی کوشش کرتے ، یہ صورتحال دیکھی تو انگریز نے مسلمانوں کے اندر سے غدار تیار کئے تاکہ وہ انگریز حکومت کو علماء کرام کی سرگرمیوں سے آگاہ کریں ، پھر یوں ہوتا کہ جب علماء کرام سفر شروع کرتے تو انگریز کے مخبر فورا انگریز سرکار کو مخبری کرتے کہ """سر ، فلاں ، فلاں علماء عوامی رابطوں پر نکلے ہیں ، ان کے نام فورتھ شیڈول میں ہیں ، اگر ان مخبروں سے کوئی پروگرام رہ جاتا تو وہ مخبر یہ بھی ساتھ بتاتے کہ سر فی الحال تو انہی علاقوں کا پتہ چلا ہے ، جیسے ہی مزید پتہ چلیں گے تو آپ کو اطلاع کریں گے""" جواب میں انگریز سرکار کے افسر مخبر کو شاباش دیتے ، سرکاری پروٹوکول مخبروں کو مل جاتا ، ایک مخبر فخر الدین کلال نے ایک عالم کی مخبری اس شرط پر کی کہ مولانا صاحب کا اسکول اور پراپرٹی انگریز سرکار بعد میں مجھے دے ، انگریز سرکار نے وعدہ وفا کیا اور پراپرٹی واقعی اس مخبر کو مل گئی لیکن مولانا صاحب کو مراد آباد میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا اور مراد آباد میں مسلمانوں کو شکست ہوئی ، اپنوں کی اس مخبری اور غداری سے علماء حق کے لئے مشکلات بڑھتی گئیں ، علماء کرام کے لئے اپنوں سے رابطہ مشکل ترین ہو گیا ، پھر بھی اس دور کے علماء کرام اپنے مخلص لوگوں کے ساتھ مل کر انگریز کے خلاف قربانی دیتے رہے ، آخر کار علماء کامیاب ہوئے اور الحمدللہ ان قربانیوں کی وجہ سے انگریز کو ہندوستان سے جانا پڑا ، مگر قسمت کی ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں کہ جن علماء کرام نے انگریزوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کی قربانیاں دیں ، آج انہیں کچھ لوگ مشکوک بنانا چاہ رہے ہیں اور پھر وہ دن بھی آئے کہ انگریز کے اسی قانون فورتھ شیڈول کو 1997 میں ن لیگ کی حکومت نے فقط نام تبدیل کر کے پھر نافذ کردیا ، پہلے نام کچھ اور تھا اور اب نام فورتھ شیڈول ہے ، لیکن علماء حق کو اسی انداز میں جکڑا گیا ہے ، وفاق المدارس اور دینی جماعتوں کے جب بھی حکومت سے مزاکرات ہوتے ہیں میری تجویز ہے کہ حکومت کے سامنے اس مسئلے کو اٹھانا چاییئے اور کم از کم حکومت کو اس بات پر مجبور کرنا چاہیئے کہ کسی عالم دین کا نام فورتھ شیڈول میں شامل نہیں ہونا چاہیئے ، اگر وفاق المدارس اور دینی جماعتیں ظالم حکمرانوں کو اس بات پر قائل کر لیتی ہیں تو یقین جانیں اس سے علماء کرام کے وقار میں اضافہ ہوگا ، علماء کرام اپنے آپ کو محفوظ تصور کریں گے ، پھر کسی کی اتنی جرات نہیں ہوگی کہ وہ علماء کرام کی بے توقیری کر سکے باقی۔خیر سے علماء حق اور ان کے رفقاء نے اُس وقت بھی قربانیاں دی تھیں ، آج بھی علماء حق اور ان کے رفقاء قربانیاں دے رہے ہیں ، درباری اُس وقت بھی مزے مزے کے کھانوں پر ہاتھ صاف کرتے تھے ، آج بھی مزے ، مزے کے کھانوں پر ہاتھ صاف کرنے میں لگے ہیں ، اُس وقت کے علماء کرام کو انگریز سرکار نے باغی کہا تھا ، لیکن میں دلائل اور حقائق کی روشنی میں یہ سمجھتا ہوں کہ مولانا محمود الحسنؒ ، مولانا حسین احمد مدنی ؒ ، علامہ فضل حق خیر آبادیؒ ، مولانا عبدالوحید مدنیؒ اور دیگر اکابر علماء باغی نہیں تھے ، لیکن جن انگریزوں اور ان کے مخبروں نے کرپشن کی ، غیرقانونی طور پر ہندوستان پر سازش کر کے قابض ہوئے ، جنہوں نے عزتیں لوٹیں ، جن کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے رنگین ہوئے ، وہ سب داغی تھے ، ان کا علماء کرام کو باغی کہنے کا مقصد فقط اپنے گھناونے جرم کو چھپانا تھا۔

مولانا شیرانی کے بقول اگر ہم نے اسرائیل کو بحیثیت ریاست تسلیم کرلیا تو ہم کشمیر سے دستبردار ہو جائیں گے۔ کیوں کہ پھر کوئی بھی ہمیں مضبوط موقف پیش کرنے نہیں دے گا۔ہماری حکومت ، ریاست ، اپوزیشن اور عوام سب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے خلاف ہیں ۔
 

Muhammad Nafees Danish
About the Author: Muhammad Nafees Danish Read More Articles by Muhammad Nafees Danish: 43 Articles with 28121 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.