کسانوں کے ذریعہ دہلی کی گھیرا بندی کے تقریباً 20 دن بعد
جب سارے سرکاری حربے ناکام ہوگئے تو عدالت عظمیٰ کی زنجیر میں جنبش ہوئی۔
اس معاملے میں کئی لوگوں نے عدالت سے رجوع کررکھا تھا لیکن وہ کمبھ کرن کی
نیند سورہی تھی ۔ شکایت کنندگان کا کہنا تھا کہ سڑکوں کی بندی کے سبب عوام
کو زحمت ہورہی ہے نیز مظاہرین اپنے درمیان فاصلے نہیں رکھتے اس لیے کورونا
کی وباء کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ یہ دعویٰ بالکل درست ہے کیونکہ اس
وقت تک ہریانہ کے بعد دہلی سے راجستھان جانے والی شاہراہ کو بند کیا جا چکا
تھا اور سماعت والے دن نوئیڈا جانے والی سڑک کو چلاّ بارڈر پر جام کردیا
گیا تھا ۔ دہلی ٹرافک پولس نے ٹکری اور دھنسا بارڈر کو بند کرنے کے بعد
جھٹیکرا پر صرف دوپہیوں کی گاڑیاں اور پیدل چلنے والوں کو آمد رفت کی
اجازت دے رکھی تھی ۔ ا ب یہ حالت ہے کہ کسان احتجاج میں بڑی سڑک بند کرتے
ہیں تو انتظامیہ چھوٹی سڑکوں پر اس خوف سے روک لگا دیتا ہے کہ کہیں کسان
مظاہرین شہر کے اندر نہ گھس جائیں۔ حکومت اور انتظامیہ کے اندر یہ خوف و
دہشت تحریک کی ایک بڑی کامیابی ہے۔
عوام کو ہونے والی زحمت کا کسان رہنماوں کو احساس ہے لیکن چونکہ یہ ان کی
زندگی اور موت کا سوال ہے اس لیے وہ معذرت طلب کرکے اس کو گوارہ کرنے کی
درخواست کررہےہیں ۔ ایسے میں عوام کو چاہیے کہ وہ عدالت سے رجوع کرنے کے
بجائے کسانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر حکومت پر دباو ڈالیں لیکن حکومت کے
باجگذاروں سے یہ توقع ممکن نہیں ہے ۔ وہ لوگ عدالت کے ذریعہ اس تحریک کو
کچلنے کا جواز تلاش کررہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے آمدو رفت کے علاوہ یہ الزام
بھی لگایا کہ مظاہرین ماسک نہیں پہنتے، بھیڑ میں بیٹھتے ہیں اس لیے کورونا
کا خطرہ ہے ۔ کسانوں کا جواب ہے کہ زرعی قوانین کورونا سے زیادہ خطرناک ہیں
کیونکہ ان کے سبب ہماری اگلی نسلیں اپنے ہی کھیت میں مالک سے مزدور بنا دی
جائیں گی ۔ اس تحریک کی ابتداء میں معروف کسان رہنما گرنام سنگھ چڑھونی یہ
اعلان کرچکے ہیں کہ یا تو بل واپس لو یا ہمیں گولی ماردو۔سرکاری اعدادو
شمار کے مطابق ہریانہ اور پنجاب کے اندر2019 میں 900 کسان خودکشی کرچکے ہیں
اور چڑھونی کے مطابق اس بل کے بعد حالات مزید بگڑ جائیں گے۔ اس لیے کسانوں
کوخودسوزی پر مجبور کرنے کے بجائے انہیں گولی ماردینا بہتر ہے۔ ویسے سنت
بابا رام سنگھ کی خود کشی نےاس دعویٰ کی دلیل پیش کردی ہے۔ اپنی وصیت میں
انہوں نے صاف لکھا ہے کہ مجھ سے ان کسانوں کی ابتری نہیں دیکھی جاتی۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اٹارنی جنرل کے اس دعویٰ پر
غور کرلیا جائے کہ کسان دوسروں کے حقوق سلب نہیں کرسکتے ،یہ مظاہرین گاوں
میں جاکر وباء پھیلائیں گے ۔ وزیر داخلہ نے بھی جب کسانوں کے چالیس نفری
وفد کو مختصر کرنے کا مطالبہ کیا تو بھیڑ کے سبب کورونا کا ذکر فرمایا۔ یہ
عجیب معاملہ ہے کہ بہار کی انتخابی مہم کے دوران جمع ہونے والے ہجوم سے
وینو گوپال کو کوئی تشویش نہیں ہوئی۔حیدرآباد کا روڈ شو امیت شاہ بھول گئے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی حکومت قائم کرنے لیے عوام کو بلی کا بکرا بنانا
جائز ہے لیکن جہاں سیاسی نقصان دکھائی دے وہاں کورونا کا بہانہ بنایا
جائے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بہار میں کورونا کے پھیلاو کو چھپایا
جاسکتا ہے مگر دہلی میں مشکل ہے۔ اوریہ مطلب بھی ہے کہ دہلی کے امیر کبیر
لوگوں میں کورونا کے پھیلنے کی اہمیت زیادہ ہے اور بہار کے دیہات میں رہنے
والوں کی زندگی ارزاں ہے۔ کیا کسی ملک کے اٹارنی جنرل کو عدالت عظمیٰ میں
کھڑے ہوکر اس طرح کا تفریق و امتیاز کی برتنا زیب دیتا ہے؟ حیرت کی بات یہ
ہے کہ ایسا کرنے پر سپریم کورٹ کی بنچ ان کو پھٹکار بھی نہیں لگاتی۔
عدالت عظمیٰ کے اندر سماعت کے آغاز میں ہی سالیسیٹر جنرل نے یہ تجویز پیش
کردی کہ حکومت، کسان تنظیموں اور دیگر متعلقہ فریقوں پر مشتمل ایک کمیٹی
بنانی چاہیےکیونکہ جلد ہی یہ ایک قومی مسئلہ بننے والا ہے اور ایسا لگتا ہے
کہ یہ حکومتی سطح پر سلجھ نہیں سکے گا۔ سالیسیٹر کی جانب سے آنے والی اس
تجویز دراصل سرکاری موقف ہے کیونکہ وہ حکومت کا ترجمان ہوتا ہے۔ اس کے
تجویز کے کئی معنیٰ ہیں مثلاً حکومت یہ تسلیم کرتی ہے کہ یہ جلد ہی قومی
مسئلہ بنے گا جبکہ حقیقت میں یہ ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ اس کا دوسرا
پہلو ہے کہ موجودہ حکومت نے یہ بھی تسلیم کرلیا ہے کہ اس مسئلہ کو حل کرنا
اس کے بس کا روگ نہیں ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس کمیٹی کی تشکیل کا
مشورہ سپریم کورٹ کو دیا جارہا ہے وہ حکومت خود کیوں نہیں بنادیتی ؟ اس
سوال کا جواب سرکار کو معلوم ہے کہ وہ کسانوں کا اعتماد پوری طرح گنوا چکی
ہے۔ اب اس کی بنائی ہوئی کمیٹی پر کوئی بھروسہ نہیں کرے گا۔ اس لیے سپریم
کورٹ کے اعتماد کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن اگر کورٹ نے
سرکار کی موافقت کی تو وہ بھی اپنا اعتبارکھودے گی۔ ملک کی تاریخ میں یہ
پہلی حکومت ہے جس کے اندرخود اعتمادی کا اس قدر شدید فقدان ہے۔
عدالت کو احساس ہوگیا ہے کہ اب یہ کسان اس قانون کے مسترد کیے جانے سے کم
پر راضی نہیں ہوں گے اور اس کے رہتے بات چیت کے لیے آمادہ نہیں ہوں گے اس
لیے اس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا حکومت یہ یقین دہانی کرسکتی ہے کہ
جب تک کورٹ کی سماعت چلے گی تب تک قانون کے نفاذ کی خاطر کوئی انتظامی
اقدام نہیں کیا جائے گا ؟ اس پر اٹارنی جنرل نے پوچھا کہ کس طرح کا انتظامی
اقدام؟ اس کی وضاحت کرنے کے بجائے جج صاحب نے کہا کہ ایسا ہوا تو کسان بات
کرنے آئیں گے۔ اس جگل بندی سے ایسا لگتا ہے جیسے سرکار اور عدالت کے
درمیان کوئی نورا کشتی چل رہی ہے اور اپنی رسوائی بچانے کے لیے سرکار عدالت
کی آڑ لینا چاہتی ہے۔ وہ کہے گی سپریم کورٹ کے کہنے پر قانون کے نفاذ کو
معطل کردیا گیا ہے اس لیے کسان پھر سے گفتگو کے لیے آمادہ ہوجائیں لیکن اس
سے بھی بات نہیں بنی تو بالآخر وزیر زراعت تومر نے یہ اعلان کردیا کہ اگر
کسان قانون کی ہر شق میں موجود کجی کو واضح کردیں تو وہ اسے واپس بھی لے
سکتے ہیں ۔ ایسے میں وزیر اعظم کے ان بیانات کا کیا ہوگا کہ یہ قانون
کسانوں کے حق میں ہے۔ ان کو ورغلایا گیا ہے اور ان کندھے پر بندوق رکھ کر
کوئی اور بندوق چلا رہا ہے۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے پہلے ہی دن چیف جسٹس ایس اے بوبڑے نےیہ تسلیم کیا
کہ سرکار کے ساتھ کسانوں کی بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ۔ انہوں نے
مرکزی اور صوبائی حکومتوں سے رپورٹ طلب کی اور مشترکہ کمیٹی بنانے کی اجازت
مرحمت فرمائی ۔ اس دوران ایک وکیل نے شاہین باغ کے معاملے کو دلیل کے طور
پر پیش کردیا ۔ یہ سنتے ہی عدلیہ کے پیر وں تلے سے زمین کھسک گئی۔ چیف جسٹس
نے فوراً کہا نظم و ضبط سے جڑے معاملوں میں کوئی مثاؒل نہیں دی جاسکتی ۔ یہ
عجیب بات ہے کیونکہ کسان تحریک اور شاہین باغ کے درمیان بلا کی مشابہت ہے۔
یہ دونوں عوامی تحریکات ہیں۔ ان کے پس پشت کوئی سیاسی مقصد کارفرما نہیں ہے
اور نہ کوئی سیاسی جماعت اس کی رہنمائی کررہی ہے۔
یہ بھی ایک حسن اتفاق ہے کہ ان دونوں تحریکات کے وجود میں آنے کا محرک
ایوان پارلیمان میں قانون سازی یا ترمیم ہے۔ ان دونوں سے لاحق خطرات و
اندیشوں کے سبب شدید غم و غصہ ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دونوں قوانین ایک
ہی حکومت نے وضع کیے ۔ دونوں تحریکات سے نمٹنے کے لیے یکساں طریقہ کار
اختیار کیا گیا یعنی کبھی پولس کے ذریعہ منتشر کرنے کی یا دبانے کی سعی کی
گئی تو کبھی میڈیا کی مدد سے بدنامی کا طوفان برپا کردیا گیا ۔ ان کے خلاف
جب یہ حربہ ناکام ہوگیا تو اس کے تار بیرون ملک دشمن طاقتوں سے جوڑنے کی
کوشش کی گئی ۔ حکومت کو ان میں کبھی خالصتانی نظر آئے تو کبھی پاکستانی
عناصر دکھائی دیئے۔ مخالفین پر سیاسی مفاد پرستی کا الزام لگا کر سرکار نے
اپنی سیاسی روٹیاں سینکیں اور جب وہ جل کر خاک ہونے لگیں تو عدالت سے رجوع
کیا ۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰جاری )
|