دنیا کی فضا بدل چکی ہے، ہر طرف نفرت اور مفادات کی
آلودگی پھیل گئی ہے۔یہ آلودگی 1948 میں نفرت کی ریاست کے آغاز کے بعد سے
پھیلنی شروع ہوئی جس نے آسمان و زمین کے درمیان موجود ساری فضا کو آلودہ کر
دیا ہے۔خلافت عثمانیہ کے اختتام اور جدید نظام عالم کے آغاز کے بعد سے اب
تک اگر ہم یہ کہیں کہ استعماری طاقتوں کی رائے ہمارے بارے میں بد لی ہے تو
ہم غلط ہیں۔ اسی سو چ اور سست روی نے ہمیں آج اس نہج پر پہنچا دیا ہے جس سے
پوری مسلم دنیا نبرد آزما ہے۔ ہماری بدبختی اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ
ہمارے حکمران جنہیں اس انجام کا ادراک تک نہیں جو عذاب اﷲ نے فتنوں کی صورت
میں نازل کر دیا ہوا ہے۔ کفر کے پھیلاؤکے بعد پوری طرح سے اسلام کا نفاذ اﷲ
کا وعدہ ہے اور یہ سب اسی کے محرکات ہیں۔ عصر حاضر کی نسلیں نہیں تو
آئندگان،جس کے حصے میں اﷲ نے اپنا کام لکھ دیا ہے اس نے نبھانا ہے ۔ اس
حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انسا ن جو بوتا ہے وہی کاٹتاہے
۔دور حاضر میں جہاں استعماری قوتوں کو مختلف محاذوں پر غیر معمولی
کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں وہیں مسلم ممالک کے حکمرانوں کے ذاتی مفاد ، بے
فہمی ، نا اندیشی اور کمزوریوں کی وجہ سے آج مسلم اتحاد اور پونے دو ارب
مسلم آبادی کی بقا خطرے میں ہے۔ آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت کے
بیانیے نے کوئی تعمیری کردار ادا تو نہیں کیا لیکن ان دو بیانیوں کی وجہ سے
معاشرت ، سماجت سمیت زندگی کے تمام پہلوؤں میں نوجواں نسل کو بگاڑنے میں
کوئی کثر باقی نہیں رکھی ہے۔ وطن عزیز کے مختلف مسائل میں ایک بڑا المیہ یہ
بھی ہے کہ یہاں پراپیگنٖڈوں کو تقویت آسانی سے مل جاتی ہے۔ لیکن سچ کیلئے
تحقیق کوئی نہیں کرنا چاہتا۔ اس سے بھی بڑھ کر افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان
کے اعتبار کا معیار مرچ مسالہ اوربدتمیز ترین لہجے ہیں۔ان میں بات کرنے
والے نام نہاد دانشور ہیں ، یہ معیار معصومیت نہیں بلکہ منافقت ہے ۔ اور
منافقت کے انجام کار یہی ہوا کرتے ہیں، جو آج یہ قوم بھگت رہی ہے۔المناک
بات یہ بھی ہے کہ جہاں استعماری قوتوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے وطن
کے تھنک ٹینکس نے موجودہ حکومت کے ساتھ ایک ٹرائیکا بنایا تھا وہیں وہ
داخلی چیلنجز میں اس قدر گھرے ہوئے ہیں کہ بیرونی سازشوں پر دھیان نہیں پڑ
رہا۔ لیکن ایک بات پی ڈی ایم کے وجود میں آنے کے بعد عیاں ہو چکی ہے کہ
استعماری قوتوں کا یہ دائرہ آئے روز تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ اگر ہم تسلیم کر
بھی لیں کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کا انتخاب استعماری طاقتوں کے منہ پر
طمانچے سے کم نہیں تھا توکیا فائدہ کہ آج پچاس سال بعد ہم پچاس سالہ گند
دھونے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پاکستان میں قومی
سلامتی کے ادارے ستر کی دہائی کے بعد سے اب تک صرف جمہوریوں کے گند دھو رہے
ہیں۔ نہ تو سنبھلنے کا کوئی موقع ہاتھ آ رہا ہے! اور شکنجے میں اس قدر جکڑے
ہوئے ہیں کہ حرکت کرنے کے قابل نہیں۔آج فلسطین اور کشمیر میں مظالم نظر آتے
ہیں ، تب سارے مسلم ممالک کہاں تھے جب مسلم دہشتگردی کا کارڈ کھیل کر مختلف
مسلم ممالک پر حملہ کر دیا گیا تھا، اور اس وقت جب ساری دنیا جانتی تھی کہ
امریکہ یہودیوں کا پیدا کردا ملک ہے ، اور ورلڈ بنک، اقوام متحدہ، ایف اے
ٹی ایف انکی لونڈیاں! جو کبھی بھی ان کی بین الاقوامی پالیسیوں کے خلاف
مظلوموں کا ساتھ نہیں دے گی تو کیوں اپنا اونٹ ان کی کروٹ بٹھایا گیا؟ چلیں
ہم یہ بھی تسلیم کر لیتے ہیں کہ وقتی مفاد کی خاطر ایسا کرنا ضروری ہو،
لیکن بعدکے لبرل اور مولوی گروپوں نے اس بارے میں کیوں نہیں سوچا؟آج نظر
تویہی آ رہا ہے کہ مارشل لاء کے ادوار میں جو پالیسیاں مرتب کی گئیں تھیں
انہیں سیاسی انتقام کی نظر کر کے وطن عزیز کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ
آگے کھائی اور پیچھے آگ ہے۔ ملک میں مجاہدو ں کو تقویت دینے کی بجائے فتنوں
کی رسی ڈھیلی چھوڑی گئی ۔ اور آج ان فتنوں کی جڑیں اس قدر پھیل چکی ہیں کہ
جہاں سے انہیں پکڑنے کی کوشش کی جائے ہاتھ اپنی گردن پر ہی پڑتا ہے۔ زرداری
دور میں ایرانی لابی نے تقویت پائی اور اس لابی کو ملکی سلامتی کے اداروں
میں اہم عہدوں پر فائز کیاگیا۔ ایسا ہوا تو حکومت کی مرضی سے تھا لیکن آج
پراپیگنڈا پرویز کیانی کو آڑ بنا کر فوج مخالف کیا جاتاہے۔ فتنہ گوہر شاہی
، قادیانیت کے خاتمے کیلئے جس قدر سنجیدہ اقدامات کی ضرورت تھی نہیں اٹھائے
گئے۔ 1973 کے آئین کے مطابق جب انہیں کافر اور اقلیت قرار دے دیا گیا تھا
توانہیں جائیدادیں بنانے کی اجازت نہیں دینی چاہئے تھی۔ مگر زرداری اور ن
لیگ کے جمہوری ادوار میں ان فتنوں نے نہ صرف انجمن افزائش نسل کی بلکہ اپنی
دعوت بھی آزادانہ پھیلائی۔ مجھے ہماری نوجوان نسل پر افسوس ہے کہ نام نہاد
اینکروں اور لکھاریوں کے گھسے پٹے لبرل فلسفوں کی زد میں آ کر پلانٹڈ
لڑکیوں کے بہکاوے میں آگئے اور اپنے شعار اور روایات دونوں سے روگردانی
کی۔ایشیاء میں چوہدراہٹ اور استعماری طاقتوں کے سامنے سرخرو ہونے کیلئے
بھارت، ایران، چین سمیت دیگر ممالک جی توڑ کوشش کر رہے ہیں اور ان سب میں
پاکستان صرف ایک دفاعی ملک بن کر سامنے آیا ہے ۔ یعنی یہ بات واضح ہو رہی
ہے کہ استعماری قوتوں کا نشانہ پاکستان ہے اور دیگر ہمسایہ ممالک لارنس آف
ایشیاء کا کردار نبھا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وقتاََ فوقتاََ پاکستان میں
مختلف ممالک کے فتنہ پرداز متحرک گروہ پکڑے جا رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں
موسوی، جعفر طیار، العباس اور قسوی گروپس متحرک ہو رہے ہیں جن کا کام پی ڈی
ایم کی حمایت کرنا ، پاکستان کی عوام میں حکومت مخالف غم و غصہ کو تیز کرنا
اور عوام کو سڑکوں پر نکلنے کیلئے مجبور کرنا ہے۔یہ گروہ شام و عراق کی جنگ
سے لوٹے لوائے فاطمیون اور زینبیون ہیں جن کا کام آج عراق و شام میں ختم ہو
چکا ہے اور وہ استعماری قوتوں کیلئے پاکستان میں اپنی مذموم ریشہ دوانیوں
سے راہیں ہموار کر رہے ہیں۔ میری نظر میں پاکستان بیرونی طاقتوں کے مقابلے
میں پچاس سال پیچھے ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ فتنوں کو آغاز میں ہی کچل
دیا جاتا۔ مگر اب پاکستان کی سالمیت کیلئے یہ ضروری ہو چکا ہے کہ ان فتنوں
کو کچلنے کیلئے انتہائی اقدامات اٹھا لئے جائیں۔ صدارتی نظام نافذ کر کے
مجرموں کو سرعام پھانسی دی جائے اور مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے آئندہ
پالیسیاں مرتب کی جائیں۔ ہم یا تو ماضی میں بھارت کا سا کردار ادا کرتے اور
سوویت یونین سمیت کسی بھی جنگ کا حصہ نہ بنتے! اب اگر ایسا ہو چکا ہے تو
گڑھے مردے اکھاڑنے کی بجائے آئندہ کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں۔پی ڈی ایم ،
بی ایل اے ، جئے سندھ موومنٹ، موسوی، قسوی، جعفرطیار،العباس، قادیانیت ،
گوہر شاہی سب ایک ہو چکے ہیں۔ ان کی حال ہی میں ایک ملاقات چنیوٹ میں ہوئی
ہے جس میں ان کے درمیان مالی، افرادی ہر سطح کے معاہدے طے پائے گئے ہیں۔ان
سب فتنوں کو فی الفور لگا م ڈال کر انہیں دیوار سے لگایا جائے۔اقوام متحدہ
کی وفا داری چھوڑ کر ہمیں اب خودمختار ملک بن جانا چاہئے اور اس کیلئے
انتہائی اقدامات اشد ضروری ہیں۔
|