پابندیوں کے پردے

سعودی ولی عہدکاوائٹ ہاؤ س سے طویل رومانس ٹرمپ کی شکست کے ساتھ ہی رخصت ہوتاانظرآرہاہے اورجوبائیڈن سعودی عرب کیلئے ایک سخت گیر حساب کتاب شروع کرنے کاعزم لیکروائٹ ہا ؤ س میں قدم رکھیں گے۔اس لئے کوئی عجب نہیں کہ سعودی ولی عہدممکنہ سخت گیر پالیسیوں سے بچنے کیلئے جوبائیڈن کوصدارت کامنصب سنبھالنے پر اسرائیل تسلیم کرنے کاتحفہ دیں۔چارعرب اورافریقی مسلمان ریاستیں یواے ای،بحرین،سوڈان اورمراکش اسرائیل کوتسلیم کرچکی ہیں اوریہ ایک حقیققت ہے کہ اسرائیل کوگلے لگانے کایہ عمل سعودی ولی عہدکی برکات کی وجہ سے پایہ تکمیل کوپہنچاہے۔

6دسمبر2020 کوامریکامیں سعودی سفیرفیصل الترکی نے بحرین میں منامہ ورچوئل سمٹ میں اپنی تقریرمیں اسرائیل کوایک مغربی نوآبادیاتی طاقت قرار دیتے ہوئے ایک ایسی بدترین ظالم حکومت قراردیاتھاجوآج تک بے گناہ فلسطینیوں کے قتل وغارت اوران کی املاک کوتباہ وبربادکرکے اس پرناجائز قبضہ جماکرنئی یہودی بستیاں تعمیرکررہی ہے اور اس وقت خطے میں غیراعلان شدہ جوہری ہتھیاروں کاایک انبارلگاچکاہے۔علاوہ ازیں سعودی عرب کی توہین کیلئے خطے میں چھوٹے ممالک کوبھی استعمال کررہاہے۔غالباان کااشارہ قطراوراس کے اتحادیوں ترکی اورایران کی جانب تھا۔ سمٹ کے اگلے مقرر اسرائیل کے وزیرخارجہ گبی اشکنازی نے بغیرکسی حیرانگی کے اس بات کا انکشاف کردیاکہ ایم بی ایس نے حال ہی میں اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہوسے ملاقات کی تھی،جس کے بارے میں یہ سمجھاجاتاتھاکہ وہ اسرائیل کو قبول کرنے کی سمت ایک بہترین پیش رفت ہے۔

اگست کے بعدپوراعالمی میڈیاسعودی عرب،مشرق وسطی اوراسرائیل کی سیاست کی سازشوں پربحث کررہاہے۔اسی خطوط پر ایک بہت ہی وسیع مقالہ 12دسمبر2020ء کو اسرائیل کے ہارٹیزمیں شائع ہواجہاں یہ بحث کی گئی کہ اسرائیل کے معاملے پر سعودی بادشاہ سلمان اوران کے بیٹے کے مابین سنگین اختلافات پیداہوگئے ہیں کیونکہ شاہی خاندان کی اکثریت ولی عہدکے اس عمل کوامت مسلمہ میں سعودی شناخت کیلئے شدیدخطرہ اوربدنامی کاسبب سمجھتی ہے اوراس طرح فلسطین کامسئلہ حل ہوئے بغیرختم ہوجائے گااورعالم اسلام کی سعودی قیادت بھی چھن جائے گی۔مغرب میں بعض سعودی تجزیہ نگاروں نے سعودی بادشاہ شاہ سلمان کے خلاف نرم بغاوت کاخدشہ کااظہارکیاہے کہ معاملہ بڑھنے پر سعودی ولی عہداپنے والدکوگھرمیں نظربندبھی کر سکتاہے جس طرح ایک طویل عرصے سے اپنی والدہ کونظربندکیاہواہے۔
اب اس امکان کااظہاربھی کیاجارہاہے کہ جوبائیڈن کے عہدہ سنبھالتے ہی کانگرس اورسینیٹ امریکی عدالت سے جاری سعودی ولی عہد کی گرفتاری کے سمن پرعملدرآمدکروانے پرزوردیں گے جس میں مبینہ طورپرکینیڈامیں ایک سعودی انٹییجنس چیف سعدالجبرکوقتل کرنے کا منصوبہ بنانے کاالزام لگایاگیاہے اوراس کے ساتھ ہی انقرہ میں سعودی نژادجمال خاشفجی کے بے رحمانہ قتل کے سلسلے میں اس کی ترکی نژادامریکی منگیترنے بھی سعودی ولی عہد کے خلاف امریکی عدالت سے انصاف کیلئے مقدمہ دائرکررکھاہے جس کامطلب یہ ہے کہ ایم بی ایس پرامریکا، مغرب اورغیرملکی سفرپرجہاں پابندی ہوگی وہاں بائیڈن نے یہ بھی اعلان کیاہے کہ امریکاسعودی عرب کواسلحہ فروخت نہیں کرے گا۔

سعودی ولی عہدان تمام مشکلات سے آگاہ ہیں اوراس چنگل سے نکلنے کیلئے مصری صدرالسیسی کی مددسے فلسطین اتھارٹی اوراسرائیل کے مابین صرف دوریاستی فارمولے کی تصدیق کیلئے ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں کیونکہ کئی سال قبل یہ تجویزمرحوم سعودی فرمانرواشاہ عبداللہ نے پیش کی تھی اورتوقع یہ کی جارہی ہے کہ اگلے چندمہینوں میں اس پرعملدرآمد شروع ہونے کاقوی امکان ہے جس کے بعدنہ صرف سعودی عرب بلکہ پاکستان بھی اسرائیل کوتسلیم کرکے صہیونی استعمارکے غلاموں کی لائن میں کھڑے ہوجائیں گے کیونکہ عمران خان دو ریاستی فارمولے پرعملدر آمدکے بعداسرائیل کوتسلیم کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں کیونکہ یہ دونوں ممالک سمجھتے ہیں کہ اگست سے لیکر اب تک اسرائیل کوتسلیم کرنے والے چار اسلامی ممالک کوجس ذلت کا سامناکرنا پڑرہاہے،اس سے یہ بچ جائیں گے۔

دنیامیں واحدنیوکلیراسلامی ملک پاکستان پرایک منصوبے کے تحت پچھلے کئی ماہ سے شدیددبا ؤ جاری ہے جس کاآغازیواے ای اورسعودی عرب نے30 نومبر2020کواوآئی سی کے اجلاس میں خودکونہ صرف مسئلہ کشمیرسے الگ کرلیابلکہ ہندوستان کے ساتھ اپنے مراسم کوبڑھاتے ہوئے کئی سوبلین کی تجارتی سرمایہ کاری کے معاہدے بھی کئے ہیں۔ اس سے قبل پہلی مرتبہ اوآئی سی میں بھارتی وزیرخارجہ کی بڑی پذیرائی کی گئی ۔گزشتہ چارمہینوں سے یواے ای میں پاکستانیوں کی ملازمت کے ویزے منسوخ کرکے انڈین کوکھپایاجارہاہے جبکہ سعودی عرب کی سب سے بڑی آئل کمپنی”آرامکو”کانظام انڈین کی غالب اکثریت نے سنبھال لیاہے۔اس کے ساتھ ہی سعودی عرب نے سودپرمبنی اپنے 3/ارب ڈالرکے قرضے کا پاکستان سے مطالبہ کردیاہے جس کی دوسری قسط ایک ارب ڈالر14دسمبرکوچین کی مددسے اداکی گئی ہے۔

ادھرلداخ اورکشمیرپرپاکستان اورچین کے بھارت کے ساتھ تعلقات کشیدگی کی انتہاکوپہنچ چکے ہیں اوران تینوں ایٹمی ممالک کے مابین تنازع ساری دنیا تاریک کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔امریکااوربھارت ،پاکستانی کی ناکام خارجہ پالیسی کے باعث خطے میں یواے ای اورسعودی عرب سے الگ تھلگ کرنے کی کوششوں میں کامیاب نظرآرہے ہیں۔ہندوستان کے آرمی چیف کے دونوں ممالک کے دورے کے بعدتاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ہندوستانی دستے کی تعیناتی عمل میں آرہی ہے۔10دسمبرکے ”یوریشین ٹائمز”میں پہلی مرتبہ اس پرتبادلہ خیال ہواہے کہ ایم بی ایس یقینا مودی سے یمن کی جنگ میں فوجی مددکامطالبہ کرسکتاہے جو مودی کیلئے مشکل ترین چیلنج ہوگاکیونکہ خطے میں ایران کی مخالفت بھارت کیلئے معاشی مشکلات کاسبب بن سکتی ہیں جبکہ ایران پہلے ہی 400بلین ڈالرسے زائدکی چینی سرمایہ کاری کے معاہدوں پردستخط کرچکاہے۔

سوال یہ ہے کہ اسرائیل جوبائیڈن کودوبارہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے نہیں دیکھے گا؟اورکیامتحدہ عرب امارات اسرائیل کے زیراثرمتحدہ عرب امارات سے کام کرنے والی 3000 کے قریب ایرانی کمپنیوں پربھی ”پابندیوں کے پردے”کھینچ سکے گا؟یقیناامریکا کیلئے بھی امتحان ہے کہ وہ آئندہ خطے میں اپنے سیاسی کارڈ کس طرح کھیلتا ہے۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 355913 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.