ہم کس کے ہاتھ پر اپنا لہو ڈھونڈیں۔۔؟؟

پرسوں کراچی میں جو کچھ ہو ا اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے ۔ہر کسی نے اپنا اپہنا تبصرہ دیا۔ہر کوئی افسوس کرتا ہوا نظر آیا۔ یہاں تک کہ جاوید ہاشمی قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے ، اور ان کی یہی حالت ایک نجی ٹی وی کے ٹاک شو میں بھی دیکھی گئی ۔

اس ملک میں کیا کچھ نہیں ہورہا ۔ کس قسم کے ظلم اس نہتے عوام پر نہیں ہورہے۔ بھوک بیماری مہنگائی بے روزگاری ان سب مصیبتوں سے بندہ تھوڑی دیر نجات حاصل کرنے اگر کسی پارک میں کچھ وقت گزارنا چاہتا ہے تو اب اسے یہ حق بھی نہیں ہے کہ وہ دو پل سکون سے گزارے ۔۔ ایک جواں سال لڑ کا جو پارک میں بیٹھا ہوا ہے ان کے گھر والوں کے مطابق بجلی بند ہونے پر وہ باہر نکل گیا تھا اسے ایک انتہائی سفاکانہ ظلم نگل گیا۔۔ ایک سول وردی میں ملبوس شخص اسے بالوں سے پکڑ کرمارتے ہوئے لایا اور لات مار کر رینجرز کے آگے پھینک دیا۔ اور پھر رینجرز کے ان جری اہلکاروں نے جو سلوک اس کے ساتھ کیا وہ واقعی میں ایک ملک کے جانباز فوجی جوانوں کی جانب سے اسی ملک کے نہتے بچے کے ساتھ کیے جانے کا مستحق تھا یہ وہ فرض تھا جس کے لئے رینجرز کے ان فرض شناس سپاہیوں کو لگایا گیا تھا۔ آج انہوں نے یہ فرض بخوبی پوراکیا۔۔ کتنا افسوس کا مقام ہے کہ وہ بیچارہ ان کے آگے ہاتھ جوڑ جوڑ کر معافیا ں مانگتا زندگی کی بھیگ مانگ رہا تھا مگر اس پر کسی کو ترس نہیں آیا ۔ اس کے زندہ رہنے نہ رہنے کے تمام اختیار ان رینجرز کے بہادر جوانوں نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔ یہ کس قسم کی درندگی ہے ۔ یہ دشمن کی فوج تھی یا اپنی ۔؟ یہ کس کو بچانے کے لئے کس کو قتل کررہے تھے ۔؟ کیا ان کی ڈیوٹی یہ ہے کہ جن کی حفاظت کرنا ان کا فرض ہے وہ اپنی جان بچانے کے لئے ہاتھ جوڑ جوڑ کر گڑگڑائیں مگرپھر بھی ان کی جان بخشی نہیں ہوگی ۔۔ اس لڑکے کا جرم کیا اتنا بڑا تھا کہ معافی کی کوئی گنجائش نہیں تھی ؟؟ موقع پر موجود رینجرز کے تمام جوان آواز لگارہے تھے کہ مارو مارو۔ پہلے تو ان تجربہ کار وطن کے وفادار جوانوں کی جانب سے بیان آیا کہ اسے مقابلے میں مار دیاہے ۔ یعنی یہ ڈاکو تھا اور اس کے پاس اسلحہ تھا رینجرز کے ساتھ مقابلے میں یہ مارا گیا ہے۔۔ کتنے ایسے ماورائے قانون قتل ہوئے ہیں ان کا کوئی حساب نہیں ۔ جب بھی ان بہادرفوجیوں اورپولیس والوں کو گن پر اپنا ہاتھ سیدھا کرنا ہوتاہے تو اسی طرح کے نہتے غریب اور سب سے بڑھ کر اسی ملک کے پر امن شہری مل جاتے ہیں۔۔ اور یہ بیان دے کر تمام قصے ختم کردیتے ہیں کہ پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے ان کے خاندان لاکھ چیخیں ، چلائیں کوئی ان کا سننے والا نہ ہوگا۔۔ یہ تو ہوتا رہا ہے ہوتا رہے گا ۔۔ جس ملک میں کوئی ریاستی قانون نہ ہو وہاں طاقت کا قانون چلتا ہے ۔ یہاں اسی کا قانون ہے جو طاقتور ہے چاہے وہ فوج ہو چاہے پولیس ہو چاہے ایجنسی والے ہوں یا چاہے طالبان یا کوئی اور۔۔ جس کے ہاتھ میں اسلحہ ہوگا اسی کا قانون چلے گا۔۔۔

چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کراچی واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ فوری طور پر استعفی دے دیں۔۔ اور یہ حکم دیا ہے کہ رینجرز کو تین دن کے اندر تبدیل کردیا جائے۔۔ اس واقعے پر اس ملک میں سبھی غمگین نظر آئے ۔ کوئی آنکھ شائد ایسی نہ ہوگی جو اس بیچارگی پر نہ روئی ہو۔۔ یہ لڑکا گولی لگنے کے بعد اپنے خون میں لت پت گڑگڑا تا رہا کہ اسے ہسپتال لے جایا جائے۔مگر اس بیچارے کو کیا معلوم تھا کہ گولی مارنے والے کبھی ہسپتال لے کر نہیں جاتے۔وہ اس کے مر جانے کا انتظار کر رہے تھے۔۔

ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں اس طرح کے سنگین واقعات معمول کی بات ہے ۔ یہ ہر گلی محلے کی کہانی ہے۔۔ آج چونکہ اس واقعے کو ایک کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کرلیا تو ہمیں اصل حقیقت کا علم ہوا ورنہ یہ بھی ایک پولیس مقابلہ تھا ۔۔ جس کا کو ئی نوٹس نہ لیتا۔۔ بد قسمتی سے ہم اپنے ہی ملک میں یرغمال بنے ہوئے ہیں ۔ ہماری بحیثت پاکستانی کسی کی نظر میں قدر نہیں ہے ۔۔ ملک سے باہر جائیں تو بھی ہم ناقابل اعتبار ۔۔ ملک کے اندر طالبان اور دیگر شدت پسندوں کو موقع ملے وہ بم پھوڑ کر ہمیں قتل کردیتے ہیں ،پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کبھی یہ نہیں سوچتے کہ یہ لوگ ہمارے اپنے ہیں ۔ ان کا رویًہ ہمارے ساتھ دشمنوں جیسا ہے۔اس ملک میں انصاف نا پید ہے۔ جس ملک کا وزیر داخلہ رحمان ملک جیسا بے حس آدمی ہو اور ملک کا سر براہ زرداری جیسا شخص ہوگا وہاں کسی کو کیا انصاف ملے گا ۔ یہاں وہی ہوگا جو ہورہا ہے۔ جس فوج کے لئے ہم ملی نغمے گاتے ہیں جن کے کارناموں پر فخر کرتے ہیں جس فوج کی طاقت پر ہم نازاں ہیں کیا وہ فوج کبھی یہ عہد کرے گی کہ وہ کبھی اپنے شہری پر گولی نہیں چلائے گی ۔ اپنے لوگوں کے ساتھ دشمنوں والا سلوک نہیں کریگی۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو پھر کسی کو کوئی فرق نہیں پڑ ے گا کہ یہاں انگریز کی حکومت ہو ۔ امریکہ کی حکومت ہویا کسی اور کی۔۔ دشمن کی فوج شائد پیر پڑنے اور ہاتھ جوڑنے پر معاف کر دے مگر یہ تو نہیں کررہی۔۔۔
habib ganchvi
About the Author: habib ganchvi Read More Articles by habib ganchvi: 23 Articles with 23423 views i am a media practitioner. and working in electronic media . i love to write on current affairs and social issues.. .. View More