|
خوش آمدید2021ء ٭ ڈاکٹر رئیس صمدانی 2020ء رخصت ہوا، سال نو2021ء کا آغازہوچکا۔ جانے والے ماہ و سال پوری دنیا کو دکھی کرکے گیا۔ آنے والے 365دن کے مہمان کو خوش آمدید، خیر سے آؤ، برکتیں اور خوشیاں لاؤ، پریشانیوں سے محفوظ رکھنا، کورونا سے نجات دلانا، بیماروں کو شفاء دینے، بے روزگاروں کو روزگار، مشکل میں گرفتاروں کی مشکل دور کرنا۔ مسلمان کی حیثیت سے ہمارا نیا سال یعنی اولین مہینہ تو محرم الحرام ہے جب کہ آخری مہینہ ذولحجہئ کا مہینہ ہے۔ یعنی ہماری ابتدا قربانی اور انتہا قربانی ہے۔ پاکستان قائم تو ہوا اسلام کے نام پر لیکن بہت سے معاملات میں اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں ہوتا ان میں سے ایک ماہ و سال بھی ہیں۔ یہاں انگریزی مہینوں اور تاریخوں کے مطابق زندگی کے معاملات پرعمل ہوتا ہے۔ بمشکل تمام جمعہ کی چھٹی ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے کردی تھی لیکن حکومتوں نے کچھ اور تو نہ کیا اس اسلامی کام کو دوبارہ جمعہ کے بجائے اتوار مقرر کردیا دلیل یہ دی گئی تھی کہ پوری دنیا اتوار کو بند اور جمعہ کو جاگ رہی ہوتی ہے تو ہم جمعہ کو کیسے سوجائیں۔ ملک کا نقصان ہوتا ہے، دنیا جاگ رہی ہوتی ہے بھلا پاکستانی قوم اس دن کیسے سوتی رہے وغیرہ وغیرہ۔ سعودی عرب سمیت کئی اسلامی ممالک میں جمعہ کی چھٹی ہوتی ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کی منطق اپنی الگ ہی ہے۔ اسلامی سال اور اول مہینے کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے اسے کوئی کم نہیں کرسکتا، بے شمار کام ہم چاند دیکھ کر ہی کرتے ہیں حج کا دن مقررہے، قربانی کا دن متعین، رمضان کے روزے رکھتے ہیں چاند دیکھ کر، عید مناتے ہیں چاند دیکھ کر، اسی طرح بہت سے کام چاند دیکھ کر ہی کر رہے ہوتے ہیں لیکن زیادہ کام انگریزی مہینوں اور دنوں کے اعتبار سے ہورہے ہوتے ہیں۔ سب سے اہم بات اجرت محنت کشوں کو تنخواہ ملتی ہے انگریزی مہینے کے اعتبار سے، چھٹی کے معاملے میں ہماری قوم خود کفیل ہے یعنی اسلامی تہوار ہو تب چھٹی انگریزی مہینوں میں کوئی تہوار ہو تب چھٹی،اس لیے ہماری زندگی میں انگریزی ماہ و سال کا عمل دخل زیادہ ہے۔گزرے سال کے لیے دعائے خیر گو سال2020ء انسانوں کی ہلاکتوں کے عتبار سے بڑا ہی ظالم سال ثابت ہوا، اس سال کورونا جیسا وائرس کوڈ19 ہزاروں نہیں لاکھوں جانیں نگل گیا۔دنیامیں کنفرم کیسیز کی تعداد 83,590,802جب کہ اموات پوری دنیا میں کوروناسے ہوئیں 18,21,228۔ پاکستان میں کل کیسیز کی تعداد 3,52,716کل اموات کورونا سے 10,105 امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں کورونا سے مرنے والوں کی تعداد 3,52,716رہی۔ یہسال اپنی نشانی کورونا اپنے ساتھ لے کر نہیں گیا بلکہ اسے آنے والے نئے سال کو تحفہ میں دے گیا ہے۔اللہ اپناکرم کرے، نئے آنے والے مہمان کو خوش آمدید۔ سیاسی اعتبار سے پاکستان میں نئے سال کا آغاز حکومت مخالف محاذ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یعنی پی ڈی ایم کے سربراہان کا اجلاس یکم جنوری 2021ء کو نواز شریف کی راج دھانی ’جاتی امرا‘ جسے رائے ونڈ محل بھی کہا جاتا ہے میں منعقد ہونے جارہا ہے۔ گویا نیاسال اپنے ساتھ سیاسی گہما گہمی، کشیدگی، سیاسی دنگل اپنے ہمراہ لے کر آرہا ہے۔ حکومت اپنی جگہ مستعد اور حوصلہ مند، کپتان مطمئن اور بے خوف، دوسری جانب حزب اختلا ف میں شامل 11سیاسی جماعتیں اپنی جگہ پر امید کہ وہ کپتان کو گھر بھیجنے میں اب کامیاب ہوئے کے تب۔ گویا دونوں پہلوانوں نے اپنی اپنی تیاری کر رکھی ہے۔ سیاسی مخالفت، جلسے جلوس، ریلیاں، دھرانا حزب اختلاف کا حق ہوتا ہے اور جمہوری نظام کا یہ حسن ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس وقت سیاسی ماحول میں جو زبان سرکاری نمائندے اور جو زبان پی ڈی ایم آزادانہ استعمال کر رہی ہے وہ کسی بھی طرح ایک اسلامی، مہذب، تہذیب یافتہ معاشرہ کے شایان شان نہیں۔ لیکن یہ کوئی اب نہیں ہورہا۔ میری عمر کے لوگوں کو ذوالفقار علی بھٹو کا دور اور اس کے خلاف شروع ہونے والی تحریک جو پی این اے کی تحریک کے نام سے شروع ہوئی، اس میں حزب اختلاف کی 9جماعتیں شامل تھیں، اس حوالے سے نو ستاروں کی تحریک بھی کہلائی۔ مولانا فضل الرحمن کے والد محترم مفتی محمود صاحب اس اتحاد کے سربراہی کر رہے تھے۔ بھٹو صاحب نے بھی اس دور میں مخالف سیاست دانوں کو کوئی اچھے ناموں سے نہیں پکارا، جانوروں سے تشبیہ دی تھی۔ مخالفین کا طرز عمل بھی ایسا ہی تھا۔ ممکن ہے کہ نئے نسل کو اپنے سیاست دانوں کو یہ زبان استعمال کرتے ہوئے دیکھ کر حیرانی ہوتی ہو کم از کم میری نسل کو پریشانی نہیں ہوتی، سیاست اور سیاست دان پاکستان کی وہ عجیب و غریب طبقہ ہے جو اقتدار کے لیے، مخالف کو نیچے دکھانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ جھوٹ بولنا تو بہت ہی معمولی سے بات ہے۔ ٹی وی پر بیٹھ کر سیاست دان ایسا ایسا سفید جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ ان کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ اللہ انہیں نیک ہدایت دے۔ کچھ کچھ دیکھائی ایسا دے رہا ہے کہ پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکلناشروع ہوگئی ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کے فیصلے نے مولانا صاحب مریم نوز کو دکھی کردیا ہے۔ اب خبر آئی ہے کہ بلاول یکم کو ہونے والے پی ڈی ایم کے سربراہ اجلاس میں آمنے سامنے بیٹھ کر پارٹی کے فیصلے نہیں بتائیں گے بلکہ وہ اس اجلاس میں ویڈیو لنک پر شریک ہوں گے۔ یہ بھی ایک جھٹکا ہے۔ سامنے رہتے ہوئے پھر بھی مشکل ہوجاتا ہے صاف گوئی سے بات کرنا، ویڈیو لنک پر نظریں نیچے بات کرنے سے کام چل جاتا ہے۔ دوسری جانب مولانا سے سابقہ سال کی شب کے اندھیرے میں محمد علی درانی کا اچانک ملاقات اور اختتام اجلاس میڈیا سے گفتگو بہت کچھ بتا رہا ہے۔ نون لیگ پنجاب کے صدر ران ثناء اللہ نے کہا کہ ’پی پی کو منانے کا مصمم ارادہ ہے، نہ مانے تو ہم مان جائیں گے‘۔ گویا پہلے تو تسلیم کیا کہ ناراضگی موجود ہے۔ خود مان جانے کا مطلب پی ڈی ایم کا اپنے بنیادی موقف سے ہٹ جانا ہے۔نیب مستقبل میں کیا کردار ادا کرتی ہے، اس کا کردار بھی سیاست میں گرمی اور سیاست میں دھیماپن لاسکتا ہے۔ حکومت کی پالیسی پر بھی منحصر ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ عمران خان ملک کا مال لوٹنے والوں سے دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھائے گا، چاہے اس کی حکومت ہی کیوں نہ چلی جائے۔ حزب اختلاف ہر صورت یہی چاہتی ہے کہ عمران خان چلا جائے۔ حزب اختلاف کی تحریک کی کامیابی میں یہی عنصر رکاوٹ ہے کہ انہوں نے عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کو اپنے مطالبات کا بنیادی نقطہ بنایا۔ وہ انتہا ئی اقدام ہے، اگر وہ حکومت کی پالیسیوں، مہنگائی جیسے ایشوز کو بنیاد بناتے تو وہ ہتھیار زیادہ مفید ثابت ہوتا۔ زمینی حقائق یہی بتا رہے ہیں کہ کپتان کی حکومت اس تحریک سے جاتی دکھائی نہیں دیتی۔ مستقبل میں مولانا فضل الرحمن کی پارٹی میں ہونے والی بغاوت یا جس جانب عمران خان نے توجہ دلائی کے فارورڈ بلاک بن سکتے ہیں۔ نون لیگ میں زیادہ آثار ہیں اس بات کے کہ نئے سال میں فارورڈ بلاک یا کچھ اراکین صوبائی اور قومی باغی ہوسکتے ہیں۔ البتہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست مختلف سمت جاتی دکھائی دے رہی ہے، بغاوت یافارورڈ بلاک کی کوئی امید نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ وہ اعلان ہے جو بلاول نے اپنی پارٹی کے سینئرز ساتھیوں کے خیالات کی روشنی میں کیا۔ یہی عقلمندی ہے۔یعنی جمہوری نظام کے چلتے رہنے، ضمنی اور سینٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کے اعلان نے پیپلز پارٹی کو فضل الرحمن یانون لیگ کی پارٹی بننے سے روک لیا۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ 2020چلاگیا اب نیا سال ہے سب اچھا ہوجائے گا، نیاسال امن لائے گا، سیاست میں شائستگی لائے گا، سیاست دان اپنے معاملات افہام و تفہیم سے، گفت و شنید سے حل کر لیں گے تو یہ خام خیالی ہے،نئے سال میں پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں زیادہ بحران متوقع ہے۔ امریکہ کی سیاست نئے صدر سے بدل سکتی ہے، کورونا کی ویکسین کی تیاری اور اس کی فروخت میں مسائل پیدا ہوں گے۔ ویکسین بنانے والے ملک اپنی اپنی ویکسین کو کارآمد دوسروں کی ویکسین کو فضول قرار دیں گے تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمائیں۔ ویکسین کی تیاری پر چند بڑے ممالک کی اجارہ داری ہوگی۔ وہ غریب ممالک کو ویکسین سپلائی کریں گے اور رقم کمائیں گے۔پاکستان میں پی ڈی ایم کی تحریک کو دیکھتے ہوئے بعض احباب بہت پریشان ہیں کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے، لمحہ میں کچھ کا کچھ ہوسکتا ہے۔یہی کچھ اب بھی ہوگا۔ زیادہ آسار یہی دکھائی دے رہے ہیں کہ پی ڈی ایم کسی بھی معاہدہ کی صورت میں خاموش ہوجائے گی۔ یہاں مسئلہ نون لیگ کا ہے، باقی سب آرام سے ہیں۔ پیپلز پارٹی جمہوریت کو جاری و ساری رکھنے کی روش پر دکھائی دیتی ہے، مولانا کی پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہے، دیگر جماعتیں شامل باجا ہیں۔ نون لیگ کو کسی بھی طرح خاموش کرادیا جائے گا آئندہ انتخابات تک،یہ جب ہوگا جب شہباز جیل سے باہر آئیں گے۔ شہباز مصلحت کے تحت جیل میں ہیں ان کی تو ضمانت ہوچکی تھی انہوں نے کینسل کی درخواست از خود دی۔ شہباز باہر آئیں گے اور یہ معاملات نارمل ہوجائیں گے۔آخرمیں گیلپ پاکستان کا سروے ”کتنے فیصد پاکستانی مستقبل میں بہتری کے لیے پر امید؟“ اس سروے کے مطابق 47فیصد پُر امیداور 30فی صد مایوس اور 10فیصد خاموش جس کا مطلب کہ وہ نہ امید نہیں۔اندازہ لگایا جاسکتا ہے ہے کہ اس قدر ابتر حالات، کورونا کے علاوہ مہنگائی، سیاست میں ہلچل، بے شمار مسائل سے پاکستانی دوچار اس کے باوجود پاکستانیوں کی اکثریت مستقبل سے پر امید ہیں۔ یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان پر اپنا فضل کرے، کورون سے نجات دے، سیاست دانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے آمین۔اپنی بات کسی شاعر کے اس شعر پر ختم کرتے ہوئے دعا ہے کہ نیا سال ملک و قوم کے لیے نیک فعال ثابت ہو۔ نہ کوئی رنج کا لمحہ کسی کے پاس آئے خدا کرے کہ نیا سال سب کو راس آئے (یکم جنوری2021ء) |