صدر ٹرمپ کی 'سب سے پہلے امریکہ 'کی پالیسی نے صدر ٹرمپ
کو اس غلط فہمی میں ڈالے رکھا کہ وہ امریکہ کے لئے کچھ نیا کر رہا ہے۔ صدر
ٹرمپ نے صدر کا عہدہ سنبھالتے وقت یہ نعرہ لگایا تھا کہ وہ امریکی خارجہ
پالیسی کو یکسر تبدیل کردے گا۔ اس نے یہ وعدہ پورا کیا مگر ایسے ہی جیسے
کچھ اور جگہوں پر تبدیلی کی ہوا چل ر رہی ہے!
اس نے امریکہ کو کئی غیر ملکی معاہدوں سے الگ کر کے امریکہ کو نظریاتی اور
سفارتی سطح پر تنہا کرنے میں کافی کامیابی حاصل کی اور آنے والی حکومت کے
لئے ایسے مسائل چھوڑ گیا جن میں امریکہ پہلے یا تو مبتلا ہی نہیں تھا اور
اگر تھا بھی تو معمولی سا۔ اس نے بہت سے حلیفوں کو ناراض کیا اور دوست دشمن
کی تمیز کئے بغیر ٹیرف، تجاری ٹیکس تھونپ دیا۔
نہ صرف بین الاقوامی ماہرین کی اکثریت اس کی 'سب سے پہلے امریکہ' والی
پالیسی کے خلاف ہے بلکہ خود امریکی تھنک ٹینکس بھی اس کے کافی حد تک خلاف
ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس پالیسی نے امریکی کو آزاد خیال ریاست سے سخت گیر
اور شدت پسند ریاست میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ کہیں تو بے جا نہ ہو گا کہ خود
غرض ریاست بنا دیا ہے ۔ خارجہ پالیسی میں ایسی خارجہ پالیسی کی یہ تبدیلی
اب کبھی بھی اپنے اثرات ختم نہیں کر پائے گی۔سسب سے پہلے امریکہ ' پالیسی
کے مخالفین کے مطابق آئندہ بیس سالوں تک امریکہ واحد ملک ہو گا جس کے پاس
سب سے بڑی تجارتی منڈی ہو گی اور وہ سب سے بڑی فوج پالنے والا ملک ہو گا۔
اس کی وجہ آبادی کی عمر میں اضافہ اور آٹومیشن میں ترقی ہو گی۔ نئی
ٹیکنالوجی سے غیر ملکی لیبر میں کمی آئے گی اور امریکہ دنیا کی ایک بڑی
طاقتور طاقت کے طور پر تو قائم رہے گا مگر اپنی وہ حیثیت کہ جس کے ذریعے وہ
لبرل طاقتوں کا سرچشمہ تھا کھو بیٹھے گا۔
صدر ٹرمپ نے جس چیز کو سب سے زیادہ منفی اثر ڈالا وہ یہی لبرل ازم ہی تھا۔
شدت پسند بیانات سخت گیر باتیں یہاں تک کہ مخالفین کے لئے گالم گلوچ کی
روایات کو ٹرمپ نے جنم دیا اور چار سال ان کی آبیاری کرتا رہا۔ اب اچھی
خاصی امریکی آبادی اس طرح کے رویے کی علمبردار بن چکی ہے۔ ہر بات پر گالیاں
دینا اور بد زبانی اختیار کرنا ٹرمپ نے ایسا سکھایا کہ یہ وبا دنیا کے تمام
کونوں تک جا پہنچی ہے۔ دنیا نے اسے اخلاقی ابتری قرار دیا اور میڈیا اور
سوشل میڈیا میں صدر ٹرمپ کا خوب مذاق بھی بنتا رہا مگر وہ اسے اپنی ریٹنگ
بڑھانے کے لئے استعمال کرتتا رہا ۔
ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے بہت سے جن جو بوتلوں میں بند تھے وہ باہر نکل
آئے۔ اس نے اپنی صدارت کی کرسی کو ہر چیز پر فوقیت دی ۔ پہلے تو صدر ٹرمپ
نے کورونا کی وبا کو تسلیم ہی نہ کیا بلکہ خود ہی دوایاں تجویز کرتا رہا
اور بعد میں جب خود شکار ہوا تو بھی اس کا موڈ جارحانہ ہی تھا۔ اس نے کووڈ
19 چینی وائرس قرار دیا اور چین سے پکی دشمنی کی ٹھان لی۔ پہلے لوگوں نے یہ
سمجھا کہ یہ اس کا الیکشن سٹنٹ ہے مگر الیکشن کے بعد بھی اس کا رویہ ویسا
ہی ہے جیسا کہ پہلے تھا ۔ یہ شائد امریکی ایسٹیبلشمنٹ کی پالیسی ہو کہ ایک
طاقتور دشمن کی موجودگی ضروری ہے تاکہ اپنی ملکی اور بین الاقوامی پالیسیوں
کو آگے بڑھانا آسان رہے مگر اب اس پالیسی کو حقیقت میں تبدیل کرنے کا وقت آ
چکا ہے۔
اب صدر جو بائڈن کے کرسی صدارت سنبھالنے کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ وہ کونسی
پالیسی کو اپناتا ہے سب سے پہلے امریکہ یا سب سے پہلے لبرل نظریات اور
جمہوریت کی پرچار؟ مگر ایک بات تسلیم شدہ حقیقت بنتی جا رہی ہے کہ امریکہ
اپنی اجارہ داری کھونے کی طرف تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔
|