جب 1989ءمیں روس افغانستان سے نکل گیاتوکشمیرمیں بھارتی
حکمرانی کے خلاف مزاحمت میں تیزی آگئی تھی۔مسئلہ کشمیر کاتنازع بھارت
اورپاکستان کے درمیان برسوں سے چلاآرہاہے لیکن اب اس جنگ کوافغانستان سے
بھی ایک ربط حاصل ہے کیونکہ کابل بھی اب پاکستان اورنئی دہلی کے درمیان جنگ
کامیدان بن چکاہے۔5/اگست کوجب سے بھارت نے کشمیرکی خصوصی حیثیت کوختم کرتے
ہوئے وہاں غیرانسانی کریک ڈاؤن شروع کیاہے،کابل حکومت کے بھارت کے اس اقدام
کے حق میں کئی بیانات ریکارڈکاحصہ بنے ہیں۔افغان حکومت کے خیالات عمومی
طورپر پاکستان مخالف ہیں لیکن کشمیرکی پیچیدہ ہوتی صورتحال پرلوگوں کے
تاثرات ملے جلے ہیں اوروہ اس مسئلے پرنئی دہلی کی مکمل حمایت نہیں
کررہے۔بھارت اس صورتحال پرکافی پریشان ہے۔مخالف نقطہ نظرنہ صرف بھارت کے
مستقبل پراثر اندازہورہا ہےبلکہ وقت کے ساتھ ساتھ خطے میں اس
کاتھانیداربننے کاخواب بھی چکنا چورہورہاہےاوراپنے تمام ہمسایوں کی حمایت
بھی کھوبیٹھاہے۔
امریکی مددنےبھارت کے افغانستان کے ساتھ پُراثرتعلقات میں اہم
کرداراداکیاہے۔بھارت افغانستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والے والے
ممالک میں سے ہے،کچھ اہم منصوبے مثلاًسڑکوں اورعمارتوں کی تعمیراورپارلیمنٹ
ہاؤس کی تعمیرمیں بھی بھارت پیش پیش رہاہے۔نوجوان افغانیوں کوبھارت کی
ثقافت کی طرف مائل کرنے اورافغانستان سے دیرپااورمضبوط تعلقات کیلئےبھارت
بڑے پیمانے پرافغانستان میں انڈین فلموں کو پھیلارہا ہے۔افغان حکومت عمومی
طورپربھارتی فوج کوخطے میں توازن قائم رکھنے والی قوت سمجھتی ہے۔اس کے
برعکس پاکستانی فوج کے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات اورپاک افغان سرحد
پرہونے والی جھڑپوں کی وجہ سے افغان عوام میں اس کامنفی تاثرہے۔اس کی واضح
مثال2014ءسے 2017ءتک بڑے پیمانے پرہونے والے احتجاجی مظاہرے تھے جس کے
پیچھے بھارتی لابی بڑی سرگرم رہی لیکن اب بھارت کواس محاذپربھی پسپائی
اختیار کرنا پڑرہی ہے۔
5؍اگست کوجموں وکشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعدآرٹیکل370کے
نفاذکیلئےبھارت نے38ہزارمزیدبھارتی فوجی کشمیرمیں بھیج دیے، اس دوران ہرقسم
کے ذرائع ابلاغ پر پابندی لگادی گئی جوہنوزجاری ہے۔کشمیرکی سیاسی قیادت کو
گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیاگیا،طویل ہوتے کریک ڈاؤن کی وجہ سے پاکستانی
پالیسی سازوں نے کشمیرکے سلگتے موضوع کو امریکاافغان امن مذاکرات سے
جوڑدیاتاکہ مغربی پالیسی سازبھارت پردباؤڈالیں لیکن ہماری کمزورخارجہ
پالیسی ہنوزاس میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔جوبائیڈن کی انتخابی فتح کے
بعدٹرمپ مودی رومانس کی لہرختم ہوگئی ہے جس کوبحال کرنے کیلئے بھارتی لابی
اسرائیل کی مددسے شب وروزامریکامیں سرگرم ہے۔
کٹھ پتلی کابل حکومت نے مذاکرات کے مسئلہ کشمیر کے ساتھ تعلق کومستردکیاہے
اورانہوں نے مسئلہ کشمیرکودوممالک کا داخلی مسئلہ قراردیا ہے جبکہ افغان
طالباان مظلوم کشمیریوں کے حق میں کئی مرتبہ اپنے جذبات کااظہارکرچکے
ہیں۔افغان خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ امراللہ صالح نے بھارت کی حمایت کرتے
ہوئے فوری طورپریہ ٹوئیٹ کی کہ’’بھارت کویہ حق حاصل ہے کہ وہ کشمیر کی
خصوصی حیثیت کوتبدیل کرے‘‘ انہوں نے پاکستان پریہ الزام لگایا کہ “وہاں
مدارس میں دہشتگردتیارہوتے ہیں جوافغانیوں کوصرف اس لیے قتل کردیتے ہیں کہ
وہ بھارت مخالف نہیں ہیں”جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اور بھارت
پاکستان میں دہشتگردی کیلئے افغان سرزمین استعمال کررہاہے۔
افغانستان کے سیاستدانوں میں ہرقسم کی رائے رکھنے والے لوگ موجود ہیں،کچھ
تو غیرجانبداررہتےہیں اورکچھ اپنے مفادات کی خاطرپاکستان سے دشمنی میں
بھارت کی حمایت کرتے ہیں لیکن حال ہی میں افغان صحافیوں کے ساتھ ہونے والی
گفتگو میں اس بات کااندازہ لگانامشکل نہ تھا کہ رائے عامہ اب تیزی سے بدل
رہی ہے۔ خانہ جنگی کے حوالے سے وہ اپنے تجربات کا اظہار کررہے ہیں اوراسی
تناظرمیں وہ کشمیرکے بدترین حالات کاادراک رکھتے ہیں، ارسلائی کے مطابق
افغانیوں کی کشمیریوں کے ساتھ ہمدردی اسی وجہ سے ہے کہ وہ جنگ کے دوران ظلم
وجبرکے حالات کا طویل مدت تک سامناکررہے ہیں۔
افغانستان میں عوام کی اچھی خاصی تعدادکشمیریوں سے ہمدردی رکھتی ہےلیکن
افغانستان میں اشرافیہ بھی بھارت سے اپنے تعلقات پرنظرثانی کر رہی ہے
۔افغان حکمران اسلام آباد سے نالاں ہیں،وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان
افغانستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرتاہے جبکہ بھارتی پروپیگنڈہ
سے متاثران کی یہ منفی سوچ ہی انڈیا کے تمام برے کرتوتوں پر پردہ ڈال دیتی
ہے۔80کی دہائی میں مجاہدین کے ساتھ مل کرروس کے خلاف لڑنے والے افغان
ڈرائیوراکبرخان نے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے بتایاکہ’’کشمیریوں کے
ساتھ ہمدردی کی جانی چاہیے اورآزادی حاصل کرنے کیلئےان کی مدد بھی کی جانی
چاہیے اورہم سب کی خواہش ہے کہ افغانستان سے استعمارکی واپسی کے
بعدیقیناًکشمیریوں کی مدداور انہیں بھارتی چنگل سے آزاد کروانا ہمارا فرض
ہے۔
کشمیر اپنی مخصوص جغرافیائی وسیاسی صورتحال کی وجہ سے افغان مہاجرین کی
نظرمیں اہمیت رکھتاہےلیکن وہ اسے اپنے ماضی کے سالہاسال کے جنگی تجربے کی
وجہ سے زیادہ باریک بینی سے دیکھتے ہیں یعنی کشمیر کے حال میں وہ اپناماضی
دیکھ رہے ہیں۔افغان کینیڈین کارکن سوریا سحرافغان مہاجرین اورپناہ گزینوں
کیلئےکام کرتی ہیں،ان کے مطابق افغان کشمیریوں کی جدوجہدکے حامی ہیں، لیکن
وہ یہ بات بھی سمجھتے ہیں کہ بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی عروج پرہے
دوسری طرف بھارت کی دہری پالیسی کی وجہ سے مسلمانوں پرنہ صرف اندرون ملک
یعنی بھارت میں زندگی مشکل کردی گئی ہے بلکہ کشمیر میں بھی مسلمانوں کاقتل
عام جاری ہے۔خانہ جنگی کی صورتحال میں کشمیر کامستقبل اندھیرے میں ہے۔افغان
باریک بینی سے مودی کی کشمیرپالیسی کاجائزہ لے رہے ہیں،نئی دہلی کویہ حقیقت
یادرکھنی چاہیے کہ افغان اس وقت مودی کی کشمیر پالیسی کو دیکھتے ہوئے اپنی
رائے بنارہے ہیں،ہوسکتا ہے کہ بھارت اپنے گماشتوں کے ذریعے افغان رائے عامہ
بنانے کیلئے دولت اورطاقت کااستعمال بڑھادےلیکن کشمیر مخالف پالیسی سے بننے
والے عدم اعتمادپر قابو پانے کیلئے بھارت کوبالآخربری طرح شکست وہزیمت
اٹھانی پڑے گی۔
|