چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد بہت برہم ہوئے،
انہوں نے کمشنر کراچی اور دیگر افسران کو نہ صرف خوب ڈانٹ پلائی بلکہ حکم
دیا کہ اگر کل تک فلاں فلاں تجاوزات واگزار کروا کے رپورٹ پیش نہ کی تو آپ
کو جیل بھیجنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس نے وزیر اعلیٰ
سندھ کو بھی فوری طلب کیا اور تجاوزات کو ختم کرنے کے لئے ایک ماہ کی مہلت
دی۔ مسئلہ الجھا ہوا تھا، ایک دو نہیں، دسیوں ایسے اہم مقامات ہیں جہاں
طاقت ور لوگوں نے قبضہ کرکے کروڑوں کے غریب خانے بنا لیے ہیں، اپنے قبضوں
کو قانونی حیثیت دینے کے لیے انہوں نے جعلی کاغذات بھی بنوا رکھے ہیں۔ چیف
جسٹس کی برہمی بالکل بجا تھی، کہ متعلقہ افسران کی اجازت (ملی بھگت) سے ہی
ناجائز قبضہ کو قانونی حیثیت مل سکتی ہے اور انہی کی سرپرستی سے ہی ایسا
کام جاری رہتا اور آگے بڑھتا ہے۔ اگرچہ قبضہ گروپ کراچی سے اسلام آباد تک
ہر شہر میں پوری طاقت کے ساتھ موجود ہیں، اس کُھلی کرپشن میں جب تک سرکاری
سرپرستی شامل نہ ہو، ایسا کام ممکن ہی نہیں۔ مگر کراچی کا حال تمام شہروں
سے زیادہ خراب ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ تو ایم کیوایم کی تیس سالہ قبضہ
کہانی ہے، ملک دشمن ٹولے نے شہر کو بے دردی سے تباہ کیا ۔ بھتہ کلچر عام
ہوا ، بوری بند لاشوں کا سلسلہ جاری رہا، دہشت گردی اور دھمکیاں بھی اپنا
کام کرتی رہیں، سیاست میں چھینا جھپٹی بھی چلتی رہی، عوام کو ڈرا دھمکا کر
الیکشن بھی جیتے گئے، اور مخالفین کو قتل تک کردینے سے بھی گریز نہیں کیا
گیا۔ ستم یہ کہ ہر حکومت نے مجبوری کے عالم میں ایم کیوایم سے اتحاد بھی
کیا، یوں پورے شہر کو تباہ کرنے میں ایم کیو ایم کے رستے میں کوئی رکاوٹ نہ
تھی۔ پی پی نے بھی کرپشن اور قبضہ گروپوں کے سر پر دستِ شفقت قائم رکھا۔
کراچی میں تجاوزات کی ذمہ دار پی پی حکومتیں ہیں، یا ایم کیوایم یا پھر
بیوروکریسی۔ مفاد پرستی کی پٹیاں سب نے آنکھوں پر باندھے رکھیں، دور اندیشی
تو دُور کی بات ہے، کرپٹ مافیا نے پیٹ کی آنکھوں سے دیکھا اور تجاوزات اس
حد تک بڑھ گئیں کہ راستے ہی بند ہو گئے۔ کراچی چلنے والی ٹرام کہاں چلتی کہ
ریلوے ٹریک پر یار لوگوں نے گھر بنا لیے۔ ظاہر ہے چلتی ٹرین کے سامنے تو
کوئی نہیں ٹھہرتا، آخر گاڑیاں بند ہوئیں تو قبضہ گروپ آگے آیا۔ پورا
پاکستان ہی قبضہ گروپوں کے شر سے محفوظ نہیں ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ کمزور
بلدیاتی ادارے ہیں، اول تو یہ ادارے فعال ہی نہیں ہوتے، بلدیاتی الیکشن بہت
ہی کم دیکھنے میں آتے ہیں، اگر ہو جائیں تو اِن اداروں کے سربراہ سیاسی
دباؤ برداشت نہیں کرتے، ذاتی تعلقات پر بھی آنکھیں بند کر لی جاتی
ہیں،چھوٹے پیمانے پر بلدیاتی عملہ بھی اپنا کام دکھا دیتا ہے۔ سب کچھ کے
بعد قبضہ چھڑوانا بعض اوقات بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ مافیا جعلی کاغذات بھی
تیار کروا لیتے ہیں۔
دُور تک دیکھنے کا مسئلہ بہت اہم ہے، حکمرانوں اور بیوروکریسی سمیت دُور
اندیشی سے کم ہی کام لیتے ہیں۔ وجہ اس کی یہی ہوتی ہے کہ جو کام ہو رہا ہے
اس میں متعلقہ سرکاری عہدیدار کی تمام تر توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ کمیشن
کتنا ہوگا اورٹھیکیدار کی اِس پر کہ بچت کتنی ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ تعمیر
ہونے والی سڑک اگلے سال ہی اپنا سر پیٹنا شروع کر دیتی ہے، اگر سڑک خاموشی
سے ٹوٹ بھی جائے تو اُس پر سفر کرنے والے اپنا سر پیٹ لیتے ہیں، اور عرصہ
تک پیٹتے رہتے ہیں۔ یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ یہ سڑک، یہ سیوریج یا کوئی
اور تعمیر شدہ عمارت اگلے کتنے برس ضرورت پوری کر سکتی ہے؟ جگہ بھی کم اور
اوپر سے تجاوزات۔ شہروں میں بازار وں کی اصلی حالت دکھائی نہیں دیتی، پیدل
گزرنا بھی محال ہے۔ پرانی آبادیوں میں گھروں کے باہر گیراج اور واش رومز
تعمیر ہو چکے ہیں، ستر فٹ کی سڑک سے دوگاڑیاں آمنے سامنے سے مشکل سے گزرتی
ہیں۔
موجودہ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی تجاوزات کے خلاف بہت ہی بڑے پیمانے پر
آپریشن شروع کیا تھا، پچاس پچاس برس قبل تعمیر ہونے والی عمارات کو دیکھتے
ہی دیکھتے کھنڈر میں تبدیل کر دیا گیا تھا، دائرہ کار دیہات تک بھی پھیل
گیا تھا، جہاں کچی آبادی کے نام پر پورے پورے گاؤں آباد تھے، کچے گھر بنانا
بھی غریب کے لیے بہت مشکل ہوتے ہیں، مگر سرکار کے لیے انہیں توڑنا نہایت
آسان تھا۔ پھر یکایک نہ جانے کیا ہوا کہ آپریشن روک دیا گیا، بے شمار
ناجائز قبضے رہ گئے، بہت سے غیر ضروری قبضے چھڑوا لیے گئے۔ چندروزہ ہنگامے
کے بعد کسی کو یاد بھی نہیں رہا کہ حکومت نے کسی اہم ترین کام کو ہاتھ ڈالا
تھا، سب برابر نہ ہونے کی وجہ سے بے شمار بے گھر ہو جانے والے لوگ بددعائیں
دے رہے ہیں ۔ اب پاکستان میں ناجائز تجاوزات کا خاتمہ حکومت کے ایجنڈے میں
شاید شامل نہیں رہا، کیونکہ حکومت کی طرف سے مکمل خاموشی ہے، اگر کہیں کوئی
عدالت ایسا حکم دیتی بھی ہے تو لیت لعل سے کام لیا جاتا ہے، اور کافی کچھ
بے عزتی وغیرہ کروانے کے بعد مجبوراً کوئی آپریشن شروع کیا جاتا ہے، جسے
عموماً ادھورا ہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔بڑے قبضہ گروپوں کے سرغنہ ایوان ہائے
اقتدار تک رسائی رکھتے ہیں، اگر وہ خود منتخب نہیں تو بادشاہ گر ضرور ہیں،
وہ کیسے قبضہ چھڑوا سکتے ہیں؟ حکومتی سیاستدان بے حس بھی بہت ہوتے ہیں اور
حریص بھی، بیوروکریسی بھی ملکی ترقی کی بجائے اپنی ذات کی ترقی پر نظر
رکھتی ہے۔ مایوسی گناہ ہے، مگر چیف جسٹس کے ریمارکس حقیقت ہیں اور پورے ملک
پر صادق آتے ہیں کہ ’’۔۔ غیر قانونی تعمیرات حکومت کی مرضی سے ہوئیں، کراچی
کو قبرستان بنا دیا، فاتحہ پڑھ لیں۔۔۔(اور یہ بھی کہ ) بیوروکریسی نے تو
نوکری کے بعد امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا چلے جانا ہے۔۔ یہاں عوام کی انہیں
کیا پرواہ؟۔۔۔‘‘۔قارئین ! آئیے فاتحہ پڑھ لیں!
|