میڈیا کے کردار اور اہمیت سے کوئی بھی شخص انکار نہیں
کرسکتا،اس کی ضرورت اور افادیت مسلم ہے لیکن اس سے بھی اہم چیز یہ ہے کہ
معاشرے کو دکھایا کیا جائے؟ٹی وی پر دکھائے جانے والے ٹاک شوز،مارننگ
شوز،کامیڈی شوز،ڈرامے اور فلمیں کس نہج پر بننی چاہیں؟اس کے اندر پاکستان
سے محبت،اپنے اخلاقی اقدار کا پاس کتنا ہونا چاہے؟اور غیرو ں کے کلچر کو کس
حد تک پرموٹ کرنا چاہئے؟یہ سب سوا ل آج تک ہمارے میڈیا کے ارباب حل و عقد
پر سوالیہ نشان ہیں۔
ہم مسلمان ہیں ہمارا ملک پاکستان اسی عقیدہ پر حاصل کیا گیا،مگر ملک حاصل
کرنے کے بعد ہم جہاں بنانے والوں کی قربانیاں بھلا چکے وہیں اس کے بنانے کے
مقاصد کو فراموش کرچکے ہیں بلکہ اغیار نے بڑ ی چال بازی سے ان روایات،عقائد
اور اقدار کو پس پشت ڈال کر ہمیں مغربی تہذیب اور کلچر کا دلدادہ بنادیااور
نوجوان نسل کے ذہنوں کی میڈیا انڈسٹری کے ذریعہ ایسی برین وشنگ کی گئی کہ
وہ مغرب کے خاندانی،اخلاقی اور تہذیبی اقدار سے کوسوں دور معاشرے کو اپنا
آئیڈیل سمجھنے لگے۔
ہماری ڈرامہ انڈسٹری اس میں پیش پیش ہے کہ ہم لوگ اسلام اور اپنے کلچر کی
بجائیمغرب اور ہندووؤں کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔ آج کے دور کا کوئی بھی
پاکستانی ڈرامہ دیکھ لیں اور ساتھ ہی ساتھ ہندوستانی ڈرامیکا اس سے موازنہ
کر لیا جائے کوئی خاص فرق نظر نہیں آئے گا۔کہیں ساس بہو کا جھگڑا،کہیں بہن
ہی بہن کا گھر اجاڑ رہی ہیاس کے ساتھ ساتھ بھائی ہی بھائی کا سب سے بڑا
دشمن بنا بیٹھا ہیاور پھر ان چیزوں کو ان واقعات کو بیان کرنے کا جو غیر
مناسب انداز استعمال کیا جارتا ہیاگر اسی انداز سے یہ چیزیں بیان کی جاتی
رہیں، ایسے ہی انکو دکھایا جاتا رہا تو یقینا ان سب چیزوں کا معاشرے خصوصاً
نوجوان نسل پر بہت برا اثر ہوگا اور معاشرتی بد اخلاقی کی شرح میں اضافہ
ہوگااور آنے والے وقت میں انسان اپنے سگے رشتوں سے بھی ایسے ہی پیشے آئے گا
جیسے غیروں سے پیش آتا ہے،ان غیر اخلاقی روایات کے امین ڈراموں کی وجہ سے
رشتے احساس سے ناپید ہو جائیں گے،انسانیت دفنا دی جائے گی،صرف نام کے انسان
رہ جائیں گے۔
انسان جو دیکھتا ہے سنتا ہے پڑھتا ہے اس پہ اثر انداز ہوتا ہیاگر ہم لوگ یہ
دیکھائیں گے کہ کس طرح بہن نے بہن کا گھر اجاڑا معتبر رشتے کو رونداتو ظاہر
سی بات ہے ہمارے معاشرے کے نوجوان اس بات کے انجام کی پرواہ کیئے بغیر اس
چیز پہ عمل پیرا ہونگے۔اگر ہم لوگ یہ دیکھائیں گے کہ کیسے ایک بھائی بھائی
کا حق کھا کر اس کا ہاتھ تھام کر چلنے کی بجائے اس کے مستقبل کو تاریک کرتا
ہے تو ہمارے بچے یہی سیکھیں گے،بچے جب یہ دیکھیں گے کہ بوڑھے ماں باپ کو
چھوڑ کر خود غرضی سے کیسے اپنے فرائض سے روگردانی کی جا سکتی ہے تو وہ یہی
سیکھیں گیاور والدین سے منہ موڑ لیں گے۔
اب یہ وقت کا تقاضہ ہے کہ ڈرامہ انڈسٹری اور فلم انڈسٹری کے ساتھ ساتھ ملٹی
میڈیا کو بھی چاہئے وہ اپنے معاشرے کی بہتری کے لئے اپنا حق ادا کرے۔ قرآن
پاک کی پیروی کرے، ہمارے مذہب اور عقائد کی پاکستان حاصل کرنے کے مقصد کی
پیروی کرے۔ہم بھول چکے ہیں ہم کون ہیں نوجوان نسل کو معاشرے میں بڑھتے بے
حسی کے کینسر سے نجات دلانے کے لئیاپنے اسلاف کی کاوشوں ان کی قربانیوں سے
روشناس کروانا ضروری ہے،انہیں رشتوں کا تقدس بتایا جائے،تعلق کو نبھانے کے
اصول بتائے جائیں،ان کے اندرانسانیت کی روح اجاگر کی جائیتب ہی ممکن ہے ہم
اپنے اصل مقصد کی راہ پہ گامزن ہوپائیں گے۔اب بہت ہوچکا انتشار زدہ فلمیں،
ڈرامیاورسیریز کوبند کیا جائے۔تہذیب و تمدن اور تاریخ و ثقافت کا جب تک علم
نہیں ہوگا اس وقت تک عمل نہیں کیا سکتاپھر کیسے ممکن ہے ترقی یافتہ ممالک
میں شمار ہونا؟۔
جب تک معاشرتی ماحول کو خراب کرنے والی چیزیں ہی بتائی اوردیکھائی جائیں گی
تو کیسے ممکن ہے یہ مسائل حل ہوں؟ مت بتائیں معاشرتی خرابیاں یہ ہیں یہ
بتائیں ہم کیا ہیں کون ہیں ہماری تاریخ کیا ہے ہم نے پاکستان کیوں حاصل کیا۔
جب مقصدیت کا علم ہوگا جب مقصدیت پہ کام ہوگا تو انتشار کا کینسر اپنی
اہمیت کھو دے گا اور اپنی موت آپ مر جائے گا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں
معاشرتی برائیاں اور جھگڑے تب بھی موجود تھے مگر اس وقت انھیں اہمیت نہیں
دی جاتی تھی،ہر دور میں ہر اقتدار میں یہ عنصر نمایاں رہا مگر اس کو اتنا
بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا جاتا رہا آج بھی اس امر کی ضرورت ہے کہ اس کو پس
پشت ڈال کر اصل مقصد پہ کام کیا جائے تاکہ آنے والی نسلوں اور موجودہ وقت
میں انسانیت زندہ رہے۔
|