" />

پاکستانی ڈرامہ" محلہ" پرانی خوشبو کی نئی لہر



پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری نے ایک شاندار ماضی دیکھا ہے، مگر وقت کے ساتھ یہ اپنی اصل پہچان کھو بیٹھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے میں ایکسپریس انٹرٹینمنٹ کا ڈرامہ "محلہ" پرانی خوشبو کی نئی لہر ثابت ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ڈرامہ عام زندگی اور محلے کی کہانیوں کو حقیقت کے ساتھ پیش کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکرپٹ رائٹر مصطفیٰ ہاشمی اور ہدایتکار عدنان وائی قریشی نے سادگی اور گہرائی کو دوبارہ زندہ کیا ہے، جبکہ کاسٹ نے کرداروں کو حقیقی رنگ دیا ہے۔ شاندار سیٹ، بہترین کردار نگاری اور معاشرتی عکاسی نے اسے پاکستانی ڈراموں کی اصل روایت کی یاد دلا دی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "محلہ" امید دلاتا ہے کہ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری اپنی کھوئی ہوئی شناخت دوبارہ حاصل کر سکتی ہے




پاکستانی ڈرامہ" محلہ" پرانی خوشبو کی نئی لہر
محمد جعفر خونپوریہ
03232920497
[email protected]
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی تاریخ ایک سنہری داستان ہے، لیکن ساتھ ہی یہ داستان زوال، بحران اور نئے امکانات سے بھی بھری ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی یہ ڈرامے ہماری ثقافت، رشتوں، اور انسانی حقیقتوں کے عکاس تھے، تو آج یہ انڈسٹری اپنے اصل رنگ کو کھو بیٹھنے کے دہانے پر کھڑی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے میں جب سب کچھ سطحی اور نقل شدہ محسوس ہو رہا تھا، ایک نیا ڈرامہ "محلہ" سامنے آیا ہے، جو نہ صرف اس بحران کے بیچ روشنی کی کرن ہے بلکہ پاکستانی ڈرامے کی کھوئی ہوئی پہچان کی یاد بھی دلاتا ہے
قیامِ پاکستان کے بعد جب ڈرامہ انڈسٹری نے جنم لیا تو ابتدا سادہ تھی، مگر حقیقت سے جڑی ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستر اسی اور نوے کی دہائی میں پی ٹی وی نے اس سفر کو ایک سمت دی۔ "وارث"، "دھوپ کنارے"، "تنہائیاں"، "ان کہی" جیسے ڈرامے ہی تھے جنہوں نے پاکستانی معاشرے کو ایک آئینے میں دکھایا
اس دور میں اشفاق احمد، بانو قدسیہ جیسے ادیبوں کی تحاریر ڈراموں کی زینت بنتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معاشرتی مسائل، انسانی جذبات، اور رشتوں کی نزاکت کو اتنی فنکاری سے پیش کیا جاتا تھا کہ کردار حقیقت کے عکاس بن جاتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی وہ پہچان تھی جس نے پاکستانی ڈرامے کو دنیا بھر میں سراہا ۔۔۔۔۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ صنعت اپنی اصل سے دور ہوتی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ بھارتی ڈراموں کے اثرات نے ہماری کہانیوں کو مصنوعی چمک دمک میں لپیٹ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رشتوں کی صداقت اور کرداروں کی گہرائی کی جگہ غیر ضروری ڈرامائی پن اور فرسودہ رسم و رواج نے لے لی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یوں محسوس ہونے لگا کہ ہماری ڈرامہ انڈسٹری بھی وہی راہ اختیار کر رہی ہے جس نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو زوال کی جانب دھکیلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس حقیقت نے سوال کھڑا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہماری انڈسٹری اپنی شناخت کو دوبارہ پا سکے گی
ایکسپریس انٹرٹینمنٹ پر شروع ہونے والا ڈرامہ محلہ اسی سوال کا جواب دیتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔ پہلی قسط نے ہی واضح کر دیا کہ یہ ڈرامہ صرف ایک کہانی نہیں بلکہ پاکستانی ڈرامے کے اصل ورثے کی بازیافت ہے
ابتدائی مناظر میں ایک عام محلے کی جھلک پیش کی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر رفتہ رفتہ یہ ظاہر ہوا کہ ہر چہرے کے پیچھے ایک مکمل کہانی چھپی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی سادگی اور حقیقت جو کبھی پاکستانی ڈراموں کی پہچان تھی، محلہ میں دوبارہ محسوس ہوئی
اسکرپٹ رائٹر مصطفیٰ ہاشمی نے بڑے سادہ واقعات کو نہایت گہرائی کے ساتھ جوڑا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی تحریر میں روزمرہ کی زندگی کے وہ پہلو سامنے آتے ہیں جو معاشرتی تناظر کے ساتھ معنی خیز ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ہر مکالمہ اور ہر منظر حقیقی محسوس ہوتا ہے، لگتا ہے یہ واقعہ اپنے گرد و نواح میں ہی وقوع پزیر ہوا ہو
ہدایتکار عدنان وائی قریشی نے اپنے جدید اور تربیت یافتہ انداز کے ذریعے محلے کے مناظر کو حقیقت سے قریب تر کر دیا ۔۔۔۔۔۔ عکاسی کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات دیکھنے والی آنکھ کو یہ احساس دلاتی ہیں کہ وہ خود اس محلے میں موجود ہے
محلہ کی اصل طاقت اس کے کردار ہیں۔ ہر کردار اپنے اندر ایک چھپی ہوئی دنیا رکھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی کے اندر خوشی عنصر دکھائی دیتا ہےتو کسی کے اندر غم، کوئی رازدار ہے اور کوئی ہمدرد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی کردار نگاری اسے ایک جیتا جاگتا سماجی شاہکار بنا دیتی ہے
کاسٹ میں جاوید شیخ، شہزاد شیخ، ماہا حسن،صرحااصغر، مہر بانو ،عمر شہزاد ،ڈاکٹر زرناب لاریب، علی حسن شاہ، حنا خواجہ بیات ،صباحت سرہندی
جیسے فنکاروں نے کرداروں میں زندگی بھر دی ہے۔ یہ سب اپنے اپنے کردار کے ذریعے وہ رنگ دکھاتے ہیں جو معاشرے کی اصل تصویر پیش کرتے ہیں
اب تک ڈرامہ "محلہ" کی چار قسطیں نشر ہو چکی ہیں اور کہانی آہستہ آہستہ اپنے عروج کی طرف بڑھ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی رفتار دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ چند اقساط پر مبنی ایک ہلکا سا تجربہ نہیں بلکہ ایک طویل سفر ہے، جو پچاس یا پچپن سے زائد اقساط پر محیط ہوسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پروجیکٹ ہیڈ کاشان احمد انصاری نے تخلیقی اور انتظامی دونوں پہلوؤں پر بھرپور توجہ دی ہے ۔۔۔۔۔۔ خاص طور پر "محلہ" کا سیٹ اپنی شان اور وسعت کے اعتبار سے پاکستان کی ڈرامہ تاریخ کا سب سے بڑا اور مہنگا سیٹ کہا جا رہا ہے، تاکہ یہ ڈرامہ صرف کہانی ہی نہ رہے بلکہ ایک مکمل اور پروفیشنل تصویر بن کر ناظرین کے سامنے آئے
"محلہ" کا یہ تسلسل اس بات کی علامت ہے کہ یہ محض ایک ڈرامہ نہیں بلکہ ایک جاری رہنے والی گفتگو ہے، جو وقت کے ساتھ نئے پہلو اجاگر کرتی چلی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ کرداروں کی ترقی، ان کے تعلقات اور ان کے گرد بسنے والا سماجی ماحول سب کچھ کہانی کو حقیقت سے قریب لے آتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس ڈرامے کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ یہ ناظر کو اس کی اپنی زندگی کا عکس دکھاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کوئی دور کی یا غیر حقیقی بات نہیں، بلکہ وہی روزمرہ کی زندگی ہے جسے ہم سب دیکھتے اور جیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ "محلہ" ناظرین کے دل کو بھی چھوتا ہے اور دماغ کو بھی سوچنے پر آمادہ کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کے سنہرے ماضی اور موجودہ زوال کے بیچ یہ ڈرامہ ایک روشن امید کی کرن ہے، جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری اصل پہچان صرف انہی کہانیوں میں ہے جو ہماری اپنی ثقافت، روایات اور معاشرتی حقیقتوں سے جنم لیتی ہیں اگر ڈرامہ انڈسٹری نے محلہ جیسے منصوبوں کو راہ دکھانے والی مشعل بنا لیا، تو یہ صنعت نہ صرف اپنی کھوئی ہوئی شناخت واپس پا سکتی ہے بلکہ ایک بار پھر دنیا بھر میں اپنی پہچان قائم کر سکتی ہے
بہت شکریہ شہزاد چوہدری بھائی





دد 
محمد جعفر خونپوریہ
About the Author: محمد جعفر خونپوریہ Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.