ڈرامہ نگاروں اور ہدایت کاروں کے نام

 کسی بھی معاشرے کوسنوارنے یابگاڑنے میں ڈرامے اہم کرداراداکرتے ہیں۔ گزشتہ دس سالوں میں ڈرامہ انڈسٹری نے بہت ترقی کی ہے۔ مختلف موضوعات پر ڈرامے لکھے اورآن ایئرکیے جارہے ہیں۔ ان ڈراموں کومزیدبہتراورموثربنانے کے لیے ان میں پائی جانے والی خامیاں دورکرنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ انسان دیکھنے سے زیادہ سیکھتاہے۔ اس تحریرڈرامے لکھنے والے اورترتیب دینے والے ضرورپڑھیں۔ اس لیے کہ ڈراموں میں جوبھی خامیاں پائی جاتی ہیں وہ ان کی ہی وجہ سے پائی جاتی ہیں۔ یہ بھی ہوسکتاہے اس تحریرمیں جن خامیوں کی نشاندہی کی جائے وہ ڈرامہ نگاروں اورہدایت کاروں کی نظرمیں خامیاں ہی نہ ہوں لیکن راقم الحروف یہ ضرورکہناچاہے گاکہ وہ خامیاں دورکرلی جائیں توڈراموں میں نمایاں بہتری لائی جاسکتی ہے۔

ڈراموں کے ہدایت کاروں کو سب سے پہلے ڈراموں میں کام کرنے والے اداکاروں اوراداکاراؤں کے لباس پرتوجہ دینی چاہیے۔ خواتین اورلڑکیوں کوسادہ اورمکمل لباس میں دکھاناچاہیے۔ خواتین کاحسن نامکمل اورعریاں لباس میں نہیں بلکہ مکمل اورباحیالباس میں ہے۔ پاکستان ایک اسلامی اورجمہوری مملکت ہے۔ ہمیں اپنی ثقافت اوراپنی تہذیب دکھانی چاہیے ۔ قوم کودوسری تہذیبوں اورثقافتوں کاعادی نہیں بناناچاہیے۔ لباس کے بعد ڈرامہ نگاروں اورہدایت کاروں کوزبان اورالفاظ پرتوجہ دینی چاہیے۔ڈراموں میں ایسے ایسے کفریہ کلمات بولے جاتے ہیں کہ اﷲ کی پناہ۔ ایک ڈرامے میں کہاگیاکہ ’’’اﷲ بیٹیاں کیوں پیدا کرتا ہے‘‘‘ اس بات سے انکارنہیں کیاجاسکتاکہ یہ الفاظ لکھنے والے اوربولنے والے یہ بتاناچاہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں خواتین پرکتناظلم ہوتاہے، اس معاشرے میں عورتیں کتنے مسائل کاشکارہیں۔ لیکن اس بات کواورالفاظ کے ساتھ بھی توبتایااورسمجھایاجاسکتا تھا۔مذکورہ جملہ اﷲ تعالیٰ کی قدرت پرسوال ہے اورہم اﷲ تعالیٰ سے سوال نہیں دعاکرسکتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ جوچاہتاہے وہ کرتاہے۔ ایک اورڈرامے میں کہاجاتاہے کہ ’’’ اس سے وہ دوراچھاتھا جب بیٹیوں کوزندہ درگور کردیاجاتاتھا‘‘‘اس جملہ کاظاہری مقصدبھی عورتوں کی مسائل کواجاگرکرناہے۔ اس جملے کایہ مطلب بھی تولیاجاسکتاہے جس طرح زمانہ جاہلیت میں بچیوں کوزندہ درگورکردیاجاتاتھا ، اب بھی ویساہی کیاجاناچاہیے۔ اسلام نے عورت کوعزت دی تحفظ دیا۔ وراثت میں حق دیا۔ کیا اس سے جاہلیت کادوراچھا تھا نہیں ۔ جاہلیت کے دورسے دین اسلام کانظام ہزاروں درجے بہتراورباوقارہے۔ ایک اورڈرامہ میں ایک لڑکی دوسری لڑکی سے کہتی ہے ’’’مجھے اﷲ نے بنایاہے‘‘‘ اس کے جواب میں دوسری لڑکی کہتی ہے ’’’ تجھے بنایا مجھے خوب بنایافرصت سے ‘‘‘ اﷲ تعالیٰ نے تمام انسانوں کوخوب بنایا اوراپنے پیارے محبوب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو خوب تربنایا۔ لیکن اﷲ تعالیٰ مصروف نہیں ہے۔ وہ توکہتا ہے وہ چیزہوجاتی ہے۔ ایک اورڈرامے میں ایک شخص ایک لڑکی کے بارے میں کہتاہے ’’’یہ غلط وقت اورغلط دنیامیں پیداہوئی ہے‘‘‘ ان الفاظ پرغورکیاجائے تویہ جملے اﷲ تعالیٰ کی قدرت اور اختیارپرسوال ہے۔کوئی بھی انسان اس دنیامیں ازخود اوراپنی مرضی سے نہیں آتا۔یہ تواﷲ تعالیٰ کی رضاپرمنحصر ہے کہ وہ کب ،کس وقت اور کس کواس دنیامیں پیداکرے۔ یہ جملے اﷲ تعالیٰ کی توہین ہیں۔ ایک ڈرامے کی اوایس ٹی میں کہاگیاہے ’’’قسمت نے کھودے گڑھے‘‘‘قسمت کسی کے لیے گڑھے نہیں کھودتی انسان خود اپنے لیے گڑھے کھودلیتاہے۔ قسمت اﷲ تعالیٰ لکھتاہے اوراﷲ تعالیٰ کسی کے لیے گڑھے نہیں کھودتا۔خاص طورپرڈراموں میں ایسے کفریہ الفاظ سے اجتناب کیاجائے ۔ ڈراموں میں بولے جانے والے الفاظ لوگوں کی زبان پربھی آجاتے ہیں۔

ڈرامے لکھنے اورترتیب دینے والوں کوڈراموں میں دکھائے جانے والے رویوں پربھی توجہ دینی چاہیے۔اکثرڈراموں میں غلطی کااحساس ہونے پرمعافی تومانگ لی جاتی ہے مگراس غلطی کی تلافی نہیں کی جاتی۔ اس غلط فہمی کی وجہ سے دوسرے فریق کوجوکچھ برداشت کرناپڑا اورجوکچھ اس کانقصان ہوا اس کاازالہ نہیں کیاجاتا۔ غلطی کااحساس ہونے پرمعافی کے ساتھ ساتھ تلافی بھی کرائی جائے۔ ایک ڈرامے میں شوہراپنی بیوی کوجوئے میں ہارجاتاہے اوراسے دھوکے سے جواری کے حوالے کردیتاہے۔ اس ڈرامے میں دکھایاجاناچاہیے تھا کہ جوئے میں بیوی ہارنے کے بعد اس جواری کواﷲ کاخوف آجاتا۔ وہ اس گناہ سے توبہ کر لیتا۔ اسے اس پرپچھتاوا دکھایا جاتا لیکن پورے ڈرامے میں ایسانہیں ہوا۔ جوئے میں بیوی ہارنے کے بعد اسے اس کے رشتہ دار، دوست اورہمسائے سمجھاتے کہ اب توآنکھیں کھول دے اوراس گناہ سے توبہ کرلے۔ وہ جواری جوئے سے توبہ کرلیتا لیکن پورے ڈرامے میں ایسانہیں ہوا۔ ایک ڈرامے میں باپ اپنی ہی بیٹی کوبیچ دیتاہے اوراغوا کے ڈرامے سے خریدارکے حوالے کردیتاہے۔ لیکن پورے ڈرامے میں اس باپ کواحساس نہیں ہوتا کہ اس نے یہ کیاکردیاہے۔ ڈراموں میں کھانے پینے کی چیزوں کی بے حرمتی دکھائی جاتی ہے۔ کھانے پینے کی چیزوں کوپھینک دیاجاتاہے۔ ڈرامہ نگاروں اورہدایت کاروں کواس طرح کے رویے نہیں دکھانے چاہییں۔ڈراموں میں جہاں ایک طرف ساس اوربہو، نندبھاوج،ماں بیٹی اوردیگردورشتہ داروں کی آپس میں لڑائی اورتناؤ دکھایا جائے تو دوسری طرف ایسے ہی رشتہ داروں کی آپس میں دوستی اورپیار ومحبت دکھایاجائے۔ڈراموں میں رشتہ داروں کی آپس میں نفرت ، لڑائی اورتناؤ تودکھایاجاتاہے مگرمحبت، خلوص اورپیارنہیں۔اگردکھایابھی جاتاہے تواس کا تناسب چائے میں چینی کے برابرہے۔ ڈراموں میں دکھایاجاتاہے کہ مرد عورت کوتھپڑ ماردیتاہے یاتھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ اٹھاتاہے لیکن تھپڑ نہیں مارتا۔ اس وقت کہاجاتاہے کہ عورت پرہاتھ اٹھانے والامردنہیں ہوتا، عورت پرہاتھ اٹھانے والابزدل ہوتاہے۔ ہم نے اس طرح کے جتنے بھی مناظردیکھے ہیں ان میں عورت ہی اپنے رویے اورزبان کی وجہ سے مردکوہاتھ اٹھانے پرمجبورکرتی ہے۔ ہم نے کسی بھی ڈرامے میں نہیں دیکھا جس میں عورت کویہ سمجھایاجارہاہو کہ اسے یہ نہیں کرناچاہیے تھا یہ نہیں کہناچاہیے تھا ،اگرتوایسانہ کرتی تووہ بھی ایسانہ کرتا۔ یہ درست ہے کہ مرد کو عورت پرہاتھ نہیں اٹھاناچاہیے لیکن عورت کوبھی اس بات کا خیال رکھناچاہیے کہ وہ ایساکام نہ کرے جس سے مردعورت پرہاتھ اٹھانے پرمجبورہوجائے۔

ڈراموں میں لڑکی والدین کی رضامندی کے بغیربھاگ کرشادی کرتی ہے۔بعد میں کہاجاتاہے یہ حق اس کواس کے مذہب نے دیاہے۔ دین اسلام میں لڑکے اورلڑکی کوپسندکی شادی کرنے کی اجازت توہے لیکن والدین یاسرپرستوں کی اجازت اور رضامندی کے ساتھ یوں گھرسے بھاگ کراوروالدین کی عزت خاک میں ملاکرنہیں۔ ڈراموں میں دکھایاجاتاہے کہ لڑکااورلڑکی آپس میں چھپ کرنکاح کرلیتے ہیں اوراپنے نکاح کوچھپائے رکھتے ہیں۔ نکاح کے اعلان یا باضابطہ رخصتی سے پہلے لڑکی امیدسے ہوجاتی ہے۔ڈراموں میں بھاگ کرشادی کرنے والی لڑکی کوبھی مسائل کاشکار،مظلوم اوربے بس دکھایاجاتاہے اورجولڑکی والدین کی رضامندی سے شادی کرتی ہے اس کوبھی مسائل زدہ، مظلوم اوربے بس دکھایاجاتاہے۔ اس سے کیامیسج دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ڈرامے دیکھنے والوں پراس کاکیااثرپڑے گا۔اگریہ کہاجائے کہ والدین کی رضامندی سے شادی کرنے والی لڑکی کووالدین کے غلط فیصلے کاخمیازہ بھگتناپڑتاہے۔ڈراموں میں والدین کوغلط فیصلے کرتے ہوئے اوراولادکووالدین کے غلط فیصلوں کی سزا کاٹتے ہوئے دکھایاجاتاہے۔ ایسے ڈراموں اورایسے مناظرسے نوجوان نسل پر کیا اثر پڑے گا ۔کیاوہ یہ نہیں سمجھ بیٹھیں گے کہ والدین غلط فیصلے کرتے ہیں۔ اس سے والدین پراولادکااعتماداوربھروسہ مضبوط ہوگایاٹوٹ جائے گا اس پرڈرامہ نگاروں اورہدایت کاروں کوغورکرناچاہیے۔گھرسے بھاگ کرشادی کرنے والی لڑکی کومسائل زدہ، بے بس اورمظلوم دکھایاجائے تاکہ دیکھنے والوں کوعبرت حاصل ہو لیکن والدین کی رضامندی سے شادی کرنے والی لڑکی کواپنے شوہراورسسرال کے ساتھ خوش دکھایاجائے۔ڈراموں میں دکھایاجائے کہ جب ایک لڑکی والدین کی خوشی میں خوش ہوجاتی ہے تووالدین بھی اپنی بیٹی کی خوشی کوترجیح دیں۔ڈراموں میں شادیاں والدین اوراولادکی باہمی رضامندی اورایک دوسرے کی خواہشات کوترجیح دیتے ہوئے دکھائی جائیں تواس سے معاشرے پرمثبت اور بہتر اثر پڑے گا۔ڈراموں میں کہاجاتا ہے ، دوٹکے کامرد، دوٹکے کی عورت۔ یہ انسان کی توہین ہے۔ کوئی بھی انسان دوٹکے کانہیں ہوتا۔ایک انسان کاقتل پوری انسانیت کے قتل کے برابرہے۔ اس سے انسان کی قدروقیمت کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔ کسی بھی انسان کودوٹکے کاکہنے کاسلسلہ بندکردیناچاہیے۔

ڈراموں میں دکھایاجاتاہے کہ شادی کے وقت لڑکے والے جہیزلینے سے انکارکردیتے ہیں۔ لیکن شادی کے بعدلڑکی پرظلم دکھایاجاتاہے۔شادی کے وقت تولڑکے والے جہیزلینے سے انکارکردیتے ہیں لیکن شادی کے بعد لڑکے والوں کی طرف سے جہیزاورمہنگے تحفوں کامطالبہ بھی کیاجاتاہے اور لڑکی والوں کوبلیک میل بھی کیاجاتاہے۔ حالانکہ دکھایاتویہ جاناچاہیے کہ جب دولہاوالے شادی کے وقت جہیزلینے سے انکارکردیں اورایساہی کرناچاہیے ۔شادی کے بعد دولہا یا گھر کا سربراہ سب گھروالوں کو ایک جگہ اکٹھاکرکے یہ سمجھادے کہ دلہن کے والدین سے ہم نے خودہی جہیزنہیں لیا اب دلہن کوجہیز نہ لانے کاطعنہ نہیں دے گا، اس لڑکی کوبھی سسرال میں خوش حال دکھایاجاناچاہیے۔منہ دکھائی میں دولہاکی طرف سے دلہن کومہنگے مہنگے تحفے دیے جاتے ہیں۔اتنے مہنگے تحفے ہردولہانہیں دے سکتا ۔منہ دکھائی کے تحفوں میں تبدیلی لائی جانی چاہیے۔منہ دکھائی میں قرآن پاک، جائے نماز، کپڑوں کاسوٹ ،سیرت مصطفی اوراسلامی اورتاریخی کتابیں بھی منہ دکھائی کے تحفے میں دی جاسکتی ہیں۔ڈراموں میں بچیوں کی شادیوں کے لیے ایسے گھرانے تلاش کیے جاتے ہیں جن میں ساس اورنندیں نہ ہوں ۔اس سے معاشرے کوکیاپیغام دیاجارہاہے۔حالانکہ دکھاناچاہیے کہ بہوساس کی خدمت کرکے خوش دکھائی دے اورساس بہوکی خوشیوں کاخیال رکھے۔ ڈراموں میں دکھایاجاتاہے کہ شوہراپنی بیوی کوکسی بھی وجہ سے طلاق دے دیتاہے بعدمیں پتہ چلتا ہے کہ بیوی امیدسے ہے توکہاجاتاہے اس حالت میں طلاق نہیں ہوئی۔ یہ بھی کہاجاتاہے کہ غصہ میں دی گئی اورغلط فہمی میں دی جانے والی طلاق طلاق نہیں ہوئی۔ علماء کرام سے تصدیق کرلی جائے طلاق غصہ میں دی جائے، مذاق میں دی جائے ، جس حالت میں بھی دی جائے تین طلاق کے بعد طلاق واقع ہوجاتی ہے۔البتہ عدت کی مدت میں فرق ہے۔ عام حالات میں طلاق کے بعدکی عدت چارمہینے اوردس دن جب کہ بیوی امیدسے ہوتوطلاق کے بعدعدت ڈلیوری ہونے تک ہے ۔ ڈراموں میں طلاق کے غلط مسائل بتاکرقوم کوگمراہ کرنے کاسلسلہ بندہوناچاہیے۔ڈراموں میں غیرمسلموں کاکلچر، دکھانے، داڑھی کے ڈیزائن بنانے، جسم پرٹیٹوبنانے ، مردوں کاچٹیابنانے کے مناظردکھانے کاسلسلہ بھی روک دیناچاہیے۔لڑکوں اورلڑکیوں کاگھروالوں سے چھپ کرملنے اورافیئردکھانے کاسلسلہ بھی بندہوناچاہیے۔ڈراموں میں ایسے مناظر دکھائے جائیں جس سے دیکھنے والوں میں دین اسلام پرعمل کرنے، آپس میں پیارومحبت، احترام و شفقت اوروطن سے محبت کاجذبہ پیداہو۔ رزق حلال کے فائدے اورحرام ذرائع سے کمائی کے نقصانات دکھائے جائیں۔ انسان کوجرائم سے توبہ کرتے ہوئے دکھایاجائے۔

ترکی کی طرح پاکستان کوتاریخ اورتاریخی شخصیات پرڈرامے دکھانے چاہییں۔ پاکستان کومحمدبن قاسم، محمدعلی جوہر، مولوی فضل حق خیرآبادی، شاعر مشرق علامہ محمداقبال، قائد اعظم محمدعلی جناح، شہاب الدین غوری، ٹیپو سلطان، شیرشاہ سوری، علماء کرام اجازت دیں توخواجہ غلام فریدگنج شکر، شاہ عبدالطیف بھٹائی، حضرت علی ہجویری داتاگنج بخش، سلطان باہو، شہباز قلندر، حسن بصری، رابعہ بصری اوردیگراولیاء کرام کے حالات زندگی بھی دکھائے جائیں۔

کوئی ڈرامہ ترتیب دینے سے پہلے اس کامسودہ علماء کرام کی کمیٹی سے منظورکرایاجائے ۔ علماء کرام کی کمیٹی یہ دیکھے کہ اس تحریر میں ایسے الفاظ تونہیں جس سے اﷲ تعالیٰ، انبیاء کرام، اولیاء کرام ، علماء کرام، قومی شخصیات اورعام انسان کی توہین ہوتی ہو۔ ڈراموں کی اصلاحات کی بھی ضرورت ہے۔ حکومت کواس طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔اس مقصد کے لیے ایک اتھارٹی بنائی جانی چاہیے جس میں علماء کرام ، وکلاء، صحافی اورانسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندے شامل ہوں۔
 

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 297527 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.