پیپلز پارٹی اور کمیشن

پاکستان میں ان دنوں پھر ”کمیشن “ کی باتیں تیز ہوگئی ہیں کچھ لوگ سنجیدگی سے کمیشن قائم کرنے کے مطالبات کررہے ہیں تو بعض ایبٹ آباد میں امریکیوں کی کارروائی کے بعد بنائے جانے والے کمیشن کے حوالے سے اظہار خیال کررہے ہیں حکمران طبقہ ”کمیشن بنانے“ کے مطالبات پر بھی اسی طرح حیران و پریشان ہے جیسے کمیشن کھانے کے الزامات پر تشویش میں مبتلا ہوتا ہے شائد وہ ان مطالبات کو اسی جملے سے ہی تعبیر کررہے ہیں ۔؟

پیپلز پارٹی اور کمیشن کا تو پرانا رشتہ ہے پارٹی کے ایک موجودہ رنڈوہ لیڈر جب پارٹی کا حصہ بنے تو انہوں نے سب سے زیادہ توجہ کمیشن پر ہی دی حالانکہ پارٹی میں انہیں پرانے لیڈرز سے بڑا حصہ دیا گیا تھا جس کی وجہ سے کئی پرانے پارٹی لیڈرز کو فکر ہوگئی تھی اور سوچنے لگے تھے کہ اب ان کے شیئر کا کیا ہوگا ؟ پارٹی میں ۔۔۔ بہرحال انہوں نے بھی تجربے کی بنیاد پر کچھ نہ کچھ حصہ حاصل کر ہی لیا ۔

بات ہورہی تھی کمیشنز کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ملک کی جو حالت ان دنوں ہوگئی ہے میرا خیال تھا کہ کئی معاملات ، مسائل اور واقعات پر کمیشن قائم ہونے چاہیئے مثلآٓ سلیم شہزاد شہید کے قتل پر ، مہنگائی ، بڑتی ہوئی بیروزگاری پر ، بجلی کے بحران پر ، اور دو روز قبل رینجرز کے ہاتھوں نوجوان کی ہلاکت پر ۔۔۔۔لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا حالانکہ پیپلز پارٹی میں دیگر کاموں کے مقابلے میں ”کمیشن “کو زیادہ شہرت حاصل ہوئی ہے، کمیشن بنانے پر اس حکومت نے اپنے ہر دور میں توجہ دی کمیشن بنانے کا عروج اپنے وقت کے مسٹر ٹین پرسنٹ کی کارکردگی سے ہوا ۔ لیکن ابھی ٹین پرسنٹ کو عروج پر پہنچانے والے کا عروج چل رہا ہے۔ ہمیں ڈر لگ رہا کہ کہیں اس تعریف میں کوئی جذباتی ہوکر ہمارے لیئے وردی والوں کو زحمت نہ دے دے۔

بہرحال لگتا ایسا ہے کہ ماضی میں جو ٹین پرسنٹ تھے اب انہوں نے اپنی اس کارکردگی کو حدود کے بند ھن سے آزاد کردیا ہے اور اپنے ساتھیوں کے خیال سے انہیں بھی اپنے معاملات میں” شیئر کرنے کا حکم دیا ہے“۔ تب ہی تو سب ہر بات پر کمیشن بنانے پر تیار ہوجاتے ہیں۔

کمیشن کھانا اورکمیشن بنانا دو مختلف الفاظ ہیں، بعض ماہرین اردو اسے کمیشن قائم کرنا بھی کہتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں نہ جانے کیوں اس کا ایک ہی مطلب سمجھا جاتا ہے؟۔۔۔۔۔۔آپ مسکرائیے مت یہ تو رونے کی بات ہے لیکن ہنستے ہنستے ۔۔۔۔۔

اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ملک میں صرف کمیشن کھانے پر توجہ دی جاتی ہے ، آپ یقین کریں کہ اپنے پڑوسی ملک بھارت کے آسام میں پادیش تالوکدھر نامی ایک صاحب ایسی صلاحیت رکھتے ہیں کہ فرنیچر ، بلب ، ٹیوب لائیٹس، اور ہر وہ چیز جو عام استعمال کی ہیں کھا جاتے ہیں ۔۔۔۔۔ بھارت میں غربت تو بہت ہے شائد اسی وجہ سے انہوں نے متبادل انتظام کے طور پر یہ بھی کھانے کے عادی ہوگئے ہیں ، لیکن غریب تو ہمارا ملک بھی ہے بلکہ عوام کی اکثریت غربت کو رونا ہی رو رہی ہے بس ہمارے حکمران اور سیاست دان ہی ہیں جو غربت وغیرہ سے واقف نہیں ہیں ، تو وزیر داخلہ ملک تو سورہ اخلاص سے ہی سہی طرح واقف نہیں ہے ۔۔۔۔قوم سے خلوص کا تو شائد ہی ان کو علم ہو۔۔۔۔۔۔۔

اللہ کا شکر ہے کہ غربت کے باوجود ہمارے ملک میں معجزاتی طور پر خوشحالی کا بھی اظہار ہو ہی جاتا ہے لیکن کھانے پینے کے معاملات کا تعلق تو ذرا سمٹ کر صرف حکمران طبقے تک ہی محدود ہوگیا ہے اور محاورتاٰٰ تو ہمارے حکمران بھی سب کچھ کھا رہے ہیں لیکن ذرا سوچئے کہ اگر ہمارے حکمرانوں میں یہ بھی صلاحیت ہوتی جو بھارت کے پادیش تالوکدھر کی ہے تو پھر کیا ہوتا ؟ ۔۔۔۔۔مختلف قیمتی سامان غائب ہونے پر کمیشن کیسے بنایا جاتا یہ تو ہمارے ملک میں خریدنے پر بنایا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔پھر بس یہ ہی کہا جاسکتا تھا کہ” یہ لوگ تو کمیشن سمیت سب کچھ ہی کھاگئے“۔

ہوسکتا ہے کہ یہ حکومت جاتے جاتے بھی غربت کے خاتمے کے نام پر بھی کوئی کمیشن بنا جائے؟۔۔۔۔عوامی حکومت ہے نا کچھ بھی کر سکتی ہے عوام کے لیئے نہ سہی عوام کے نام پر ہی سہی۔۔۔۔۔

قوم کو توقع تھی کہ اس بار پیپلز پارٹی ، حکومت میں آکر قوم کے لیئے بہت کچھ کرے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ سچ ہی تو ثابت ہوا کہ اس بار تو وہ کچھ اس حکومت نے کردیا کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔۔۔ہے نا۔۔۔۔؟
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 165771 views I'm Journalist. .. View More