کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے ؟

؁۲۰۲۰ آخری سانس لے رہا ہے ۔ اس دوران مرکزی حکومت کی کارکردگی پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ یہ سرکار اگر ملک دشمن نہ سہی تو ملک دوست بھی نہیں ہے۔ اس کو عوام کے مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کورونا کی وبا کے تعلق سے حکومت نے بے شمار فیصلے کیے پابندیاں لگائیں بلکہ ملک میں تالہ بندی تک کا اعلان کردیا لیکن اس سے پیدا ہونے والے مسائل کا بالکل بھی اندازہ نہیں کیا گیا ۔ خیر مودی سرکار سے یہ توقع بھی نہیں تھی کہ وہ پیش آئندہ مسائل کا ادراک کرسکے گی لیکن ان خطرناک اثرات کے منظر عام پر آجانے کے بعد جس بے حسی کا مظاہرہ کیا گیا وہ ناقابلِ یقین تھا۔ ایک خطرناک وباء کا حکمت کے ساتھ مردانہ وار مقابلہ کرنے کے بجائے تالی ، تھالی اور دیا بتی جیسی نوٹنکی کا سہارا لیا گیا ۔ عوام کے مسائل کا عملی حل پیش کرنے کے بجائے ان کو بھاشن اور پروچن سے بہلانے پھسلانے کی احمقانہ سعی کی گئی۔

لاکھوں مہاجر مزدوروں نے سرکاری احکامات کو قدموں تلے روند کر اپنے گھروں کی جانب کوچ کیا ۔ یہ ایک معنیٰ میں حکومت کے اوپر سے عدم اعتماد کا سرِ عام اعلان تھا لیکن مرکزی حکومت نے شتر مرغ کی مانند اپنا سر ریت میں چھپا لیا ۔ عدالت عظمیٰ میں جاکر یہ جھوٹ کہا کہ کوئی مزدور سڑک پر نہیں اور عدالت نے آنکھ موند کر اس پر یقین کرلیا۔ اس سال رونما ہونے والایہ محیر العقول واقعہ بھلایا نہیں جاسکتا۔ غریب مزدور جب مرتے پڑتے اپنے گھروں میں پہنچ گئے تو عدالت کو ہوش آیا اور اس نے حکومت کو اتنی تاخیر سے احکامات دیئے کہ جب ان کی کوئی افادیت نہیں تھی۔ یہ قدرتی نہیں سرکاری آفت تھی جس میں مقننہ عدلیہ کو گمراہ کررہی تھی اور وہ بصد شوق ہورہا تھا ۔ انتظامیہ مظلوم مزدوروں پر سرحد بند کرکے ڈنڈے برسا رہی تھی اور جمہوریت کا چوتھا ستون عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے ایک خیالی تبلیغی جہاد کا فتنہ پھیلانے میں مصروف عمل تھا ۔ کورونا کی وباء نے ہندوستانی جمہوری نظام سیاست کو پوری طرح برہنہ کردیا ۔

کورونا کی عالمی وبا نے ساری دنیا میں تباہی مچائی۔ اس آزمائش کی گھڑی میں مختلف حکومتوں نے اپنے عوام کے مسائل حل کرنے کی حتی الامکان کوشش کی مثلاً امریکہ نے ایک ایسے غیر معمولی اقتصادی پیکیج کا اعلان کیا جس کے تحت ہر شہری کو ماہانہ ۸۵ ہزار روپیوں کی خطیر رقم دی گئی ۔ جنوبی امریکہ کے برازیل اور یوروپ کے کئی ممالک میں اس طرح کی امداد دی گئی یہاں تک کہ پاکستان میں غریب لوگوں عوام کی براہِ راست مدد کا اہتمام کیا گیا لیکن اپنے ملک میں وزیر اعظم کے مطابق ۶۰ فیصد خاندانوں کو ماہانہ دس کلو چاول اور پانچ کلو چنا دینے کا اعلان کیا گیا ۔ اس مدد سے کتنے لوگوں نے استفادہ کیا یہ تحقیق کا موضوع ہے؟ مرکزی حکومت نے کورونا کے پیکیج کے نام پر اپنے بجٹ کے منصوبوں کو اس میں شامل کرنے کایہ تماشہ کیا ۔ اس کے بیشتر فائدے بلا واسطہ تھے جس سے عوام براہِ راست استفادہ نہیں کرسکے ۔ اس لیے قومی سطح پر پیش کیا جانے والا کورونا پیکیج ایک سراب ثابت ہوا جس کے ذریعہ لوگوں پانی کے بجائے پیاس ملی۔

مرکزی حکومت نے بڑی چالاکی سے جی ایس ٹی کی معرفت صوبائی حکومتوں کا ٹیکس اپنے خزانے میں جمع کرکےخرچ کردیا۔ اس کے بعد جب ریاستی حکومتوں نے اسے طلب کیا اور تقاضہ کرنے لگے تو بڑی ڈھٹائی سے انہیں قرض لے کر کام چلانے کی تلقین فرما دی ۔ یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ عوامی فلاح و بہبود کے زیادہ تر کام صوبائی حکومتوں کی معرفت انجام پاتے ہیں ۔ ان کو اس طرح ٹرخا دینا دراصل عام لوگوں کے مفاد پر شب خون مارنے جیسی حرکت تھی ۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ مرکز کی جانب سے ریاستی حکومتیں خصوصی مدد کی توقع کررہی تھیں بڑی بے مروتی کے ساتھ انہیں ٹھینگا دکھا دینا کمال کی سفاکی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس حکومت کے پاس صوبائی حکومت کا حصہ ادا کرنے کے لیے روپیہ نہیں تھا اس کے خزانے میں ایوان پارلیمان کیتعمیر نو بلکہ کمپلکس کے لیے۲ہزار کروڈ کی خطیر رقم مہیا ہوگئی۔ یعنی عوامی فلاح بہبود کی چتا سےجمہوریت کے چراغ روشن کیے گئے ۔

بین الاقوامی سطح پر بھی وطن عزیز کے لیےیہ سال آزمائش سے پر تھا ۔ ایک طرف چینی وائرس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور دوسری جانب چینی فوجی لداخ کی سرحد میں داخل ہوگئے ۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے ساری دنیا کو فکر مند کردیا لیکن ہمارے وزیر اعظم اعلان کررہے تھے کہ کوئی چینی ہماری سرحد میں نہیں گھسا اور نہ اس نے ہماری کسی چوکی پر قبضہ کیا۔ ایسے میں ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوگیا کہ پھر چینی افسران سے مذاکرات کس لیے ہورہی ہیں ؟ اور اس سے بھی اہم سوال یہ سامنے آیا کہ آخر ہمارے فوجی کس طرح مارے گئے ۔ وزیر اعظم کی منطق کے مطابق اگر چینی نہیں آئے تو وہ خود چینی علاقہ میں گئے اور چینیوں نے انہیں مار ڈالا۔ مودی جی نے اپنی ہٹ دھرمی سے چینی موقف کی تصدیق کردی کہ جہاں ہندوستانی فوجی تھے یہ ان کا علاقہ ہے اور اسی لیے انہوں ہندوستانی فوجیوں کو مارڈالا۔

مودی جی کے اس دعویٰ پر اندھے بھکتوں کےسوا کسی نے یقین نہیں کیا اور بھکتوں کا تو یہ حال ہے کہ کل مودی جی کہہ دیں چین نام کا کوئی ملک موجود نہیں ہےیا یوگی نے اس کا نام اکھنڈ بھارت رکھ دیں تو وہ بے چوں چرا نندی بیل کی مانند سر ہلا دیں گے۔ مودی جی چینیوں کو کھدیڑ کر نکالنے کا جری فیصلہ تو نہیں کرسکے لیکن عوام کو بہلانے پھسلانے کے لیے چینی مصنوعات پر پابندی لگانے کا لالی پاپ چٹواتے رہے۔ اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا کیونکہ چینی سرمایہ کاری رک گئی اور بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوگیا ۔ اس کی ایک مثال پونے کے قریب جنرل موٹرس کا پلانٹ ہے جس میں چین کی گریٹ وال موٹرس ۵ ہزار کروڈ کا سرمایہ لگانے والی تھی مگر مرکزی حکومت کے فیصلے کی وجہ سے وہ رک گئی اور 1800لوگوں کی ملازمت تو براہ راست چلی گئی لیکن جو لوگ بلا واسطہ اس سے استفادہ کرتے تھے ان کا روزگار بھی چھن گیا۔

پچھلے سال کے اواخر میں مودی جی نے امریکہ میں جاکر اب کی بار ٹرمپ سرکار کا نعرہ لگایا تھا ۔ اس سال کی ابتدا میں ڈونلڈ ٹرمپ کو احمد آباد میں بلاکر مودی جی نے اتنی بار سلام کیا کہ وہ بھی بیزار ہوگئے ہوں گے ۔ اس احسانمندی کے عوض ٹرمپ نے ملیریا کی دوائی کلوروکوین کی رسد پر حکومت ہند کو خطرناک نتائج کی دھمکی دے دی۔ مودی جی نے یہ اعلان کروایا کہ ہم اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے بعد دوائی بھجوادیں گے ۔ ہندوستان میں چونکہ کورونا کاعلاج اس سے نہیں ہورہا تھا اس لیے امریکہ بہادر کے لیے برآمدات کی پابندی اٹھاکرکلوروکوین روانہ کی گئی۔ اس کے باوجود ٹرمپ نے عمران خان کو خوش کرنے کے لیے یہ اعلان کردیا کہ جاپان میں مودی نے خود ان سے کشمیر کے مسئلہ میں ثالثی کرنے پیشکش کی تھی ۔ اس کے بعد مودی سرکارپر تنقید ہونے لگی تو انہوں نے اعلان کروایا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا گویا یہ سراسر جھوٹ ہے۔ خیرمودی جی نے جس ٹرمپ کو سلام کیا اس کو امریکی عوام نے رام رام ٹھونک دیا۔ اس طرح یہ سال ٹرمپ کے ساتھ مودی کو بھی رسوا کرگیا ۔ ویسے مودی جی اب جو بیڈن سے پینگیں بڑھا رہے ہیں ۔ اب دیکھنا ہے کہ آئندہ سال یہ نیا معاشقہ کیا گل کھلاتا ہے بقول غالب ؎
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449334 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.