ست پارہ جھیل

ست پارہ جھیل
تحریر: شبیر ابن عادل
اسکردو کے نو کلومیٹر شمال میں ست پارہ جھیل واقع ہے، جس کے بے مثال فطری حسن کے باعث مشہور ہے کہ یہاں پریاں آیا کرتی تھیں۔ اسکردو سے تقریبا ً بیس منٹ کا سفرکرنے کے بعد سیاح اس جھیل پر پہنچ جاتے ہیں۔ اور اس کے سحرزدہ حسن میں کھوجاتے ہیں۔ پہلے صرف جھیل ہواکرتی تھی، اب یہاں ست پارہ ڈیم بن گیا ہے۔ کشتی پر جھیل کی سیر کے دوران بہت مزا آتا ہے، کیونکہ اس کا پانی بے حد شفاف اور سرد ہے۔
یہاں پر رات کے قیام کے لئے پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) کے huts بنے ہوئے۔ جہاں قیام کا تجربہ کسی دیومالائی کہانی سے کم نہیں۔ کیونکہ جب رات اس علاقے کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے تو اتنا گھپ اندھیرا ہوتا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا اور آسمان کی طرف دیکھیں تو ستارے اتنے چمکدار اور شفاف نظر آتے ہیں کہ ان کا نظارہ ہی سیاحوں کو مبہوت کردیتا ہے۔
اس جھیل کے بارے میں علاقے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں، ایک یہ بھی کہ اس جھیل کے پانی کی تہہ میں سونے کی کان تھی، یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے میں اس کاپانی دن میں سنہری نظر آتا تھا۔
اس جھیل میں دریائے سندھ سے نکلنے والے ایک چھوٹے نالے سے پانی آتا ہے، جسے ست پارہ نالہ کہا جاتا ہے۔ سطح سمند ر سے اس کی بلندی آٹھ ہزار چھ سو فٹ ہے اور یہ 2.5مربع کلو میٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔ ست پارہ ڈیم کی تعمیر کے بعد جھیل کے سائز میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ ڈیم سن 2013میں دس سال کی مدت میں مکمل ہوااور اس سے 17اعشاریہ تین چھ میگا واٹ ہائیڈروبجلی پیدا ہوتی ہے، جسے اسکردو وادی کے تیس ہزار گھر وں کو فراہم کیا جاتا ہے، پندرہ ہزار 536ایکڑ زمین سیراب کی جاتی ہے اور اسکردو کو اکتیس لاکھ گیلن یومیہ پینے کا پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ اس طرح ڈیم کی تعمیر سے زرعی پیداوار میں ماضی کے مقابلے میں چارگنا اضافہ ہوا ہے۔
اس جھیل میں فشنگ یا ماہی گیری کا مزا ہی کچھ اور ہے، اس مقصد کے لئے سیاحوں کو فشنگ پرمٹ اور فشنگ کرنے کا سامان فراہم کیا جاتا ہے۔ جہاں مزیدار ٹراؤٹ مچھلی ملتی ہے، جس کے شکار کے بعد فرائی کرنے کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ ٹراؤٹ مچھلی اتنی مزیدار ہوتی ہے کہ لوگ اس کا مزا برسوں یادرکھتے ہیں۔
اسکردو جانے کے دو راستے ہیں، فضائی راستے کا انحصار موسم پر ہے۔ اسلام آباد اور اسکردو کے درمیان پی آئی اے کی روزانہ ایک بوئنگ پرواز ہے۔ اسکردو تک کا فضائی سفر بہت سنسنی خیز اور بہت یادگار ہوتا ہے، کیونکہ اس سفر میں کے ٹو اور دوسری چوٹیاں صاف نظر آتی ہیں۔ جبکہ سڑک کے راستے اسلام آباد سے اسکردو کا فاصلہ 793کلومیٹر ہے اور یہ سفر چوبیس گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ یہ راستہ شاہراہ ریشم اور اسکردو روڈ پر مشتمل ہے، اور اس کا سفر کسی مہم جوئی سے کم نہیں۔ جس کے دوران بہت مزا آتا ہے۔ اسلام آباد اور اسکردو کے درمیان ناردرن ایریا ٹرانسپورٹ کمپنی یا ناٹکو کی بس اور کوچ سروس کے علاوہ دیگر کمپنیوں کی سروس موجود ہے۔
گلگت بلتستان کے چپے چپے پر فطری حسن بکھرا پڑا ہے اور گرمیوں کے موسم میں وہاں خوبانی کثرت سے ہوتی ہے، اتنی کثرت سے کہ کسی بھی ریستوران میں کھانے ناشتہ حتیٰ کہ شام کی چائے کے ساتھ بہت ساری خوبانیاں مفت پیش کی جاتی ہیں۔ سیاح درختوں سے خوبانی توڑ کر بھی کھاتے ہیں۔
غرض پورے گلگت بلتستان اور خاص طور پر ست پارہ جھیل کا سفر اور وہاں کم از کم ایک رات قیام ایک ایسا تجربہ ہے، جو اپنے پیچھے بہت سی یادیں چھوڑ جاتا ہے۔

====================

shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 110473 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.