پاکستان میں سیاحت کا فروغ
(shabbir Ibne Adil, karachi)
پاکستان میں سیاحت کا فروغ
تحریر: شبیر ابن عادل
انسان کو سفرکرنے اور سیاحت کا شوق اتنا ہی قدیم ہے، جتنی انسانی تہذیب۔ اسی شوق نے سیاحت کی صنعت کے قیام میں مدد دی۔ دنیا بھر میں یہ صنعت آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ افسوس پاکستان میں حکومتوں نے سیاحت کی صنعت پر کوئی خاص توجہ نہیں دی اور بدقسمتی سے امن وامان کی صورتحال نے بھی اسے پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا۔ ورنہ پاکستان بھی سیاحوں کی جنت بن سکتا تھا۔ اگرچہ قدرت نے پاکستان کو بے پناہ فطری حسن سے نوازا ہے۔ ہمارے ملک میں اگر ایک طرف بلند وبالا پہاڑ، بلند چوٹیاں، بڑے گلیشئیر، خوبصورت جھیلیں اور سحرزدہ حسین وادیاں ہیں تو دوسری طرف چمکیلی ریت والے دلکش ساحل (جو تقریباً ایک ہزار کلومیٹر طویل رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں)، مالا مال ثقافتی ورثہ اور پانچ ہزار سالہ قدیم تہذیبوں کے آثار، جن میں موہن جو دڑو اور ہڑپہ اور ٹیکسلا قابل ذکر ہیں۔ سب سے بڑھ کر پاکستان کے مہمان نواز لوگ۔ پاکستان میں سات ہزار میٹر تک بلند کئی پہاڑی چوٹیاں ہیں،خاص طور پر کے ٹو۔ جہاں دنیا بھر سے کوہ پیما اور مہم جو آتے ہیں۔ شمالی علاقوں میں اگر قدرتی حسن بکھرا ہے اور چترال، گلگت بلتستان کے سحر انگیز مناظر ہیں تو پنجاب میں دریائے جہلم پر سکندر اعظم کا میدان جنگ اور تاریخی شہر لاہور، جسے ملک کا ثقافتی دارالحکومت بھی کہا جاتا ہے، جہاں مغل دور کے کئی تعمیراتی شاہکار ہیں، جن میں بادشاہی مسجد، قلعہ لاہور، شالامار باغ اور شہنشاہ جہانگیر کا مقبرہ قابل ذکر ہیں۔ ویسے تو ملک کے کونے کونے میں فطری حسن، تاریخی اہمیت کے مقامات اور آثارقدیمہ موجود ہیں، مگر گلگت بلتستان کی بات ہی کچھ اور ہے۔ جہاں بے پناہ فطری حسن کی بدولت غیرملکی سیاحوں اور کوہ پیماؤں کی بہت بڑی تعداد آتی ہے۔ گلگت بلتستان میں آٹھ ہزارمیڑ بلند پانچ چوٹیاں اور سات ہزار میٹر سے بلند پچاس چوٹیاں ہیں۔ اس علاقے میں دنیا کے چند بلند ترین پہاڑ ہیں، ان میں قراقرم اور مغربی ہمالیہ شامل ہیں۔ دنیا کے تین بلند ترین گلیشئر بھی اسی خطے میں واقع ہیں، جبکہ بہت سی خوبصورت جھیلوں نے اسے مزید خوبصورت بنا دیا ہے۔ جبکہ دیوسائی کا میدان تبت کے بعد دنیا کا دوسرا بلند ترین میدان ہے۔ اسے 1993میں نیشنل پارک قرار دیا گیا تھا۔ دیوسائی پانچ ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ سردیوں میں اس علاقے پر برف اپنے ڈیرے ڈال لیتی ہے اور یہ دنیا بھر سے کٹ کر رہ جاتا ہے۔ گلگت بلتستان شاہراہ ریشم کے راستے اسلام آباد سے جڑا ہوا ہے۔ جہاں سے گلگت اور اسکردو تک کا سفر بیس سے چوبیس گھنٹے کا ہے۔ جبکہ فضائی راستے سے بھی یہ دونوں شہر منسلک ہیں اور گلگت کے قریب وادی ہنزہ میں درہ خنجراب کے اُس پار چین کی سرحد شروع ہوجاتی ہے۔ جو دنیا کی چند بلندترین سرحدوں میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ خیبر پختون خواہ بھی فطری حسن اور تاریخی آثار سے مالامال ہے۔ جہاں تخت بھائی اور دیگر مقامات پر گندھارا تہذیب کے آثار ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ہندو اور بدھ مت کے دیگر آثار قدیمہ ہیں، جن میں قلعہ بالاحصار، چکدرہ، وادی پنجگورہ اور دیگر شامل ہیں۔ اس صوبے کا اہم شہر مانسہرہ ہے، جہاں شمالی علاقوں اور آزاد کشمیر کے علاوہ وادی کاغان، ناران، شوگران اور بابوسر ٹاپ اور دیگر علاقوں کو جانے والے سیاح بھی گزرتے ہیں۔ اس صوبے میں وادی سوات اور چترال بھی اپنے فطری حسن کے اعتبار سے لاجواب ہیں اور وہاں ہزاروں ملکی اور غیر ملکی سیاح آتے ہیں۔ پنجاب اپنے قدیم ثقافتی ورثے کی وجہ سے مشہور ہے، جہاں وادی سندھ کی تہذیب کے آثار ہڑپہ اور ٹیکسلا ہیں۔افغانستان سے آنے والے مغل اور دیگر فاتحین پنجاب سے ہوکر گزرے۔ اور اپنی یادگاریں چھوڑ گئے۔ لاہور کا قلعہ اور شالامار باغ کو اب عالمی ثقافتی مقامات میں شامل کرلیا گیا ہے۔ اس شہر میں بہت سے تاریخی آثار ہیں۔ راولپنڈی بھی بہت سے ان سیاحوں کی گزرگاہ ہے، جو مری، بھوربن، پتریاٹہ، گلگت بلتستان اور آزادکشمیر جاتے ہیں۔ جبکہ ملتان کو اولیائے کرام کی سرزمین قرار دیا جاتاہے۔ سندھ ملک کا جنوبی صوبہ ہے، جہاں وادی سندھ کی قدیم تہذیب موہن جودڑو کے آثار ہیں۔ اور کراچی کے قریب چوکنڈی کا قدیم قبرستان ہے۔ کراچی اس کا صوبائی دارالحکومت اور ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اسی شہر میں مزار قائداعظم اور ملک کی دو اہم بندرگاہیں واقع ہیں۔ کراچی میں خوبصورت اور سنہری ریت والے ساحل واقع ہیں، جن میں پیراڈائز پوائنٹ، ہاکس بے، سینڈزپٹ، فرنچ بیچ، کلفٹن کی تفریح گاہ اور منوڑا کا جزیرہ قابل ذکر ہیں۔ چونکہ اس صوبے میں ملک کا سب سے بڑا دریا، دریائے سندھ سمندر میں گرتا ہے، اس لئے یہاں بہت سی خوبصورت جھیلیں ہیں۔ جن میں کنجھر، مانچھر، ہالیجی اور دیگر جھیلیں شامل ہیں۔ اسی صوبے میں صحرائے تھر بھی واقع ہے، جس کا شمار دنیا کے چند بڑے صحراؤں میں ہوتا ہے۔ رقبے کے اعتبار سے بلوچستان ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔جہاں سیروتفریح کے بہت سے مقامات ہیں، جن میں اس کا صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اور زیارت قابل ذکر ہیں۔ جبکہ چلتن ہزار گنجی نیشنل پارک اور ہنگول نیشنل پارک کے علاوہ کوئٹہ کی حنّا جھیل بھی سیاحوں کی دلچسپی کے مقاما ت ہیں۔ بلوچستان میں ملک کی تیسری بندرگاہ گوادر میں ہے اور کراچی کو مکران کوسٹل ہائی وے کے ذریعے اس سے منسلک کیا گیا ہے۔ اس ہائی وے کے راستے میں خوبصورت ساحل، صحرا اور پہاڑیاں واقع ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ان علاقوں میں ہر سال ہزاروں غیرملکی سیاح آیا کرتے تھے، لیکن سن 2008اور اس کے بعد یہ تعداد تشویشناک حد تک کم ہوئی۔ مختلف حکومتوں نے اس میں اضافے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ سن 2009میں ورلڈ اکنامک فورم کی ٹریول اینڈ ٹورازم کی رپورٹ میں پاکستان کو اس کے عالمی ثقافتی ورثے کے مقامات کی بدولت سیاحوں کے پچیس فیصد بڑے خطوں میں شمار کیا ہے۔ جہاں جنوب کے ساحلی خطوں میں تمر کے جنگلات سے لے کر وادی سندھ کی پانچ ہزار سالہ تہذیب کے مقاما ت (موہن جو دڑو اور ہڑپہ) شامل ہیں۔ ستمبر 2004میں سیاحت کو الگ وزارت قرار دینے کے باوجود اس کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ چنانچہ 30/جون 2011میں آئینی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اسے ختم کردیا گیا۔ جس کے بعد سیاحت کا فروغ صوبوں کی ذمہ داری ٹھیری، اب ہر صوبے میں سیاحت کے فروغ کے الگ الگ ادارے ہیں اور وہ پاکستان ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے حصے ہیں اور اس کے تعاون سے کام کرتے ہیں۔ سیاحت کے فروغ کے لئے اس شعبہ میں کاروباری طبقے کی حوصلہ افزائی اور حکومتی سرپرستی کی ضرورت ہے۔عالمی معیار کی سڑکیں اور فضائی جال بچھائے جائیں اور ان کی دیکھ بھال کی جائے۔ انسانی اور قدرتی وسائل کو بروئے کار لایا جائے۔ ملکی اور غیرملکی سیاحوں کی توجہ کے لئے تعطیلات کے پیکجز کی تشہیری مہم چلائی جائے۔ تشہیری مہم میں انٹرنیٹ کو بھی شامل کیا جائے، اس کے لئے مختلف موضوعات پر ویب سائیٹ کی تشکیل اور انہیں مسلسل اپ ڈیٹ کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ سیاحتی مقامات پرقیام کی پرآسائش سہولتیں، کھیل کود اور تفریح کے زیادہ سے زیادہ اور جدید انتظامات کئے جائیں۔خاص طور پر ملک کے ساحلی علاقوں پر جدید تفریحی سہولتوں کی فراہمی کی ضرورت ہے، جن کی بدولت نہ صرف غیرملکی بلکہ ملکی سیاحوں کی ساحلی علاقوں میں آمد ورفت میں تیزی سے اضافہ ممکن ہوسکے گا۔ اس مقصد کیلئے دبئی، بنکاک اورہانگ کانگ کے علاوہ دیگر ساحلی شہروں میں تفریحی سہولتوں کا جائزہ لے کر انہیں کراچی اور دیگر علاقوں میں فراہم کرنا ہوگا۔ کراچی کو اس حوالے سے ہمیشہ نظرانداز کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہاں ملک بھر سے لوگ سمندر کے نظارے کیلئے آتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|